امریکہ میں سرکار کی حالیہ تبدیلی امریکیوں سمیت دنیا بھر کے کئی لوگوں کے لیے نیک شگون ہے مگر کچھ حلقوں کے لیے یقینا یہ ایک بُری خبر ہے۔ جن لوگوں کے لیے یہ بُری خبر ہے ان کے لیے صرف امریکی سرکار ہی نہیں بدلی بلکہ دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اس تبدیلی کا شکار ہونے والوں میں مشرق وسطیٰ کی کچھ نمایاں شخصیات اور ملک شامل ہیں‘ جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ روایتی طور پر امریکہ مشرق وسطیٰ تعلقات '' کارٹر نظریے‘‘ کے تحت چلتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کچھ عرصہ کے لیے اس میں اپنا رنگ بھرنے کی کوشش کی تھی‘ جو اَب اترنا شروع ہو گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں کارٹر نظریہ کیا تھا اور کیا یہ نظریہ موجودہ حالات میں امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں مفادات اور پالیسیوں سے میل کھاتا ہے ؟ یا کیایہ نظریہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں بالکل غیر متعلق ہو گیا ہے؟ اس سوال کا جواب امریکہ مشرق وسطی تعلقات کی تاریخ میں مضمر ہے۔ اس سلسلے میں 1973ء اور 1979ء کے مشہورزمانہ آئل شاکس یعنی تیل کے بحران اور اس سے جڑی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے۔ تیل کے ان جھٹکوں اور شدید بحران کے پس منظر میں سٹیٹس آف نے یونین ایڈریس میں جو کچھ اُس وقت کے امریکی صدرجمی کارٹر نے کہا تھا وہ آگے چل کرکارٹر نظریے کی بنیاد بنا۔ اس خطاب کے دوران صدر جمی کارٹر نے مشرق وسطیٰ کے تیل تک امریکی رسائی کو درپیش خطرات کو سنگین الفاظ میں بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ خلیج فارس کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کسی بھی بیرونی طاقت کی کوشش کو ریاستہائے متحدہ امریکہ اہم مفادات پر حملہ تصور کرے گی۔ اس طرح کے حملے کو فوجی طاقت سمیت ہر طریقے سے پسپا کیا جائے گا۔ یہ اعلان کارٹر نظریہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور تب سے اب تک یہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کی ریڈھ کی ہڈی بنا ہوا ہے۔
کارٹر کے اس خطاب کے وقت امریکہ اپنی معیشت کو طاقت بخشنے کے لیے تیل کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا۔ امریکہ کی ضروریات کا 29فیصد تیل خلیج فارس سے آتا تھا۔ کارٹر کے نظریے کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود تیل پر انحصار کا یہ سلسلہ اگلی دو دہائیوں تک اسی ڈگر پرچلتا رہا‘ لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ کارٹر نظریے کے تحت اس کے اندر تبدیلوں کا آغاز ہوا۔ اگلی دو دہائیوں کے دوران صورتحال بالکل بدل گئی۔ یہ اسی تبدیلی کا اثرہے کہ آج امریکہ اپنی ضروریات کے لیے تیل کا بڑا حصہ خود پیدا کرتا ہے اورجو تیل وہ باہر سے خریدتا ہے اس کاصرف 13 فیصد خلیجی ممالک سے آتا ہے۔ اپنے تیل کے علاوہ اب امریکہ میکسیکو جیسے ملکوں سے بھی کچھ تیل خریدتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امریکہ سعودی عرب سے زیادہ تیل اپنے پڑوسی میکسیکو سے درآمد کررہا ہے۔
ان ٹھوس حقائق کی روشنی میں بظاہر نام نہاد کارٹر نظریہ غیر متعلق اور متروک ہوجانا چاہیے تھا لیکن حیرت انگیز طورپر خلیج کے لیے امریکہ کی پالیسی کی تشکیل آج بھی اس نظریے کے تابع ہے۔ یہ امریکی پالیسی کی فرسودگی اور وسیع تر ناکامی کی علامت ہے۔ امریکی مفادات میں وسیع تر تبدیلیوں کے باوجود 1980 ء کی دہائی کے نظریے کے تحت خطے کے بارے میں پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ امریکہ اورخلیج تعاون کی ریاستوں یعنی بحرین‘ کویت‘ عمان‘ قطر‘ سعودی عرب‘ اور متحدہ عرب امارات کے مابین مضبوط تعلقات کی الگ الگ وجوہات ہیں۔ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے کے فیصلے ان ممالک پر بڑھتے ہوئے امریکی اثر و رسوخ کی واضح علامت ہیں جبکہ امریکی رہنمائی سے کویت اور عمان علاقائی تنازعات کی ثالثی کرنے کے لیے مضبوط کردار ادا کرتے ہیں۔ جی سی سی ممالک کے ساتھ امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی شراکت داری ہے کیونکہ ان حکومتوں کو اکثر شدت پسند نیٹ ورکس کے بارے میں وہ معلومات ہوتی ہیں جو امریکی انٹیلی جنس خود بھی اکٹھا نہیں کرسکتی۔ یہ معلومات خطے میں امریکہ کے وسیع معاشی اور سٹریٹجک مفادات کے لیے بہت اہم ہیں لیکن ان حقائق کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی خلیج کے بارے میں پالیسی میں بہت بڑی خامیاں ہیں۔ امریکہ کی پالیسی میں ایک خامی یہ ہے کہ خطے میں پراکسی جنگیں لڑنے کے لیے امریکہ فوجی امداد دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور دوسری خامی یہ ہے کہ اس خطے کی اندرونی سیاست خصوصاً جمہوریت اور انسانی حقوق کے سوال پر امریکہ اپنی خاموشی کو برقرار رکھتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کی یہ پالیسی ہونی چاہیے کہ اس فرسودگی کو ایک نئے نظام کے ساتھ بدلنا ہے‘جو مستحکم‘ متنوع قومی معیشتوں اور جوابدہ حکومتوں پر مشتمل ہو۔ یہ وہ مستقبل ہے جس کے بارے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جیسے قائدین دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایسے مستقبل کی تلاش میں ہیں۔ اس سمت میں پہلا قدم امریکہ کے لیے یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جی سی سی کی پراکسی جنگوں سے الگ ہوجائے۔ یہ واضح ہے کہ ایرانی حکومت امریکہ مخالف ہے لیکن اس خطے میں عراق اور لبنان‘ شام اور یمن میں گرم و سرد تنازعات کے ایک سلسلے نے ایران کے اثر و رسوخ کو مستحکم کیا ہے۔ شام اور یمن جیسے مقامات پر امریکی مداخلت کی وجہ سے ایک خطرناک صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ اب تک اس غلط سوچ کے بہت زیاد غلط نتائج نکل چکے ہیں کہ امریکہ بالواسطہ طور پر شام اور یمن میں من پسند نتائج پیداکرسکتا ہے۔ دونوں تھیٹروں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی فوجی شمولیت کبھی بھی توازن پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی‘اُلٹا اس نے تنازعات کو بڑھایا اور گہرا کیا ہے۔ اس طرح واشنگٹن فوجی مداخلتوں کے ذریعے سیاسی اہداف کے حصول کی اپنی صلاحیت پر غیر ضروری اعتماد کا شکار رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی اس مہم جوئی کی وجہ سے امریکہ مستقل جنگوں کی حوصلہ افزائی کرتارہا ہے۔ اس کا رد عمل بھی ہوا ہے۔ خطے میں شدت پسندی بڑھی ہے۔ امریکہ مخالف جذبات میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اگر ریاستہائے متحدہ امریکہ نے خلیجی ممالک کے ساتھ اپنی سلامتی کی شراکت داری برقرار رکھنی ہے تو اسے اس خطے میں اپنے قدموں کے نشانات چھوٹے کرنا ہوں گے۔ خلیجی جنگ سے پہلے امریکہ اسی پالیسی پر گامزن تھا۔ اس خطے میں اس کے قدموں کے نشانات چھوٹے تھے۔بحرین‘ کویت‘ قطر اور سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر فوجی اڈوں کے بغیر وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب تھا اور ایسا اس نے ان ممالک کو اربوں ڈالر سالانہ کا اسلحہ فروخت کیے بغیر کیا تھا۔ لیکن اب واشنگٹن میں خارجہ پالیسی پر کام کرنے والے اس طرح کام کرتے ہیں گویا اب امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اس خطے میں بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی لازم ہے‘ حالانکہ یہ بات نائن الیون کے بعد تشکیل پانے والی سکیورٹی سٹیٹ کے قیام سے پہلے نہیں تھی۔ امریکہ کے اڈے بہت مہنگے ہیں۔ یہ افریقہ اور ایشیا جیسے اہم تھیٹروں سے توجہ ہٹانے کا باعث بنتے ہیں۔ وہ امریکہ پر دباؤ بڑھاتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو نظر انداز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تنقید کرنے سے خطے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ہی خطرے میں پڑ جائے۔ اس وقت یہ اڈے ایران‘ القاعدہ‘ اور دولت اسلامیہ کے لیے فوجی اہداف اور پروپیگنڈا کا نشانہ بن کر کھڑے ہیں۔ اس تناظر میں بائیڈن انتظامیہ کو خطے میں اپنے فوجی اڈے کم کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ بحرین میں پانچویں بحری بیڑے کے اخراجات اور فوائد پر نظر ثانی کرنا ایک اچھی شروعات ہوگی۔