پاکستان میں سینیٹ کے تازہ انتخابات اور ان کے ڈرامائی نتائج نے سینیٹ کے انتخابی عمل کی شفافیت پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ سینیٹ میں جو کچھ ہوا اس میں نیا کچھ نہیں۔ خود وزیر اعظم نے برملا اعتراف کیا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سینیٹ میں ووٹ کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ خرید و فروخت اس وقت انتہائی سنجیدہ اور تشویش ناک سوال بن جاتی ہے، جب بکنے والے لوگ خود منتخب شدہ اراکین پارلیمنٹ ہوں۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر کچھ آمریت پسند لوگ اسے مغربی جمہوریت کی ناکامی قرار دیتے ہیں، اور کسی نئے نظام کی بات کرتے ہیں‘ حالانکہ مغربی دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک میں صدیوں سے یہ نظام موجود ہے۔ یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے، اور قابل رشک نتائج دے رہا ہے۔ یہ جمہوری نظام کی ناکامی نہیں، بلکہ جمہوری نظام کے اندر سرگرم افراد کے کردار اور نظریات کا مسئلہ ہے۔ جہاں تک نظام کا تعلق ہے تو اس وقت تک پاکستان میں تقریباً دنیا کے ہر معلوم نظام کا تجربہ کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
مختلف الخیال لوگوں کی طرف سے پاکستان کو اپنے خیالات و نظریات کی تجربہ گاہ بنانے کی خواہش نئی نہیں ہے۔ یہ خواہش خود پاکستان سے بھی پرانی ہے۔ گویا قیام پاکستان سے بہت پہلے سے بہت سے افراد‘ جماعتیں اور گروہ قیام پاکستان کی صورت میں یہاں اپنے من پسند سماجی و معاشی نظام کا تجربہ کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ یہ بات خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے بھی منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک آدھ تقریر میں پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست کا تجربہ کرنے کی بات کی تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی بہت سی باتیں قائد اعظمؒ سے منسوب کی جاتی ہیں، جو بہت ہی مختصر اور بسا اوقات صرف ایک آدھ فقرے تک محدود ہیں‘ اور اگر ان کا گہرائی تک جائزہ لیا جائے تو اکثر یہ فقرے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیے گئے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کے ارشادات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے مقاصد کے لیے پیش کرنے میں اس لیے بھی کامیاب ہوئے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے زیادہ تر خیالات کا اظہار تحریر کے بجائے تقاریر کے ذریعے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر ان کے خطوط کے علاوہ کسی قسم کی تفصیلی تحریریں موجود نہیں ہیں، جن سے نظریاتی مباحث کے لیے استفادہ کیا جا سکتا ہو۔
اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ ہمارے ہاں سیاست میں جھوٹ سچ کو آپس میں گڈمڈ کرنے کی روایت بڑی مضبوط رہی ہے، لیکن سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی باتوں میں سیاست تو ایک طرف کچھ عاقبت نا اندیش لوگ متبرک اقوال تک کو مسخ کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ ایسی روایات کی موجودگی میں قائد اعظم کے اقوال کو من پسند رنگ دینا اس قبیل کے لوگوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ سینہ بہ سینہ کے علاوہ قائد اعظم کی تقاریر کو محفوظ کرنے کا دوسرا طریقہ اخبارات اور ریڈیو وغیرہ تھا، جن کے ذریعے ان کی رپورٹنگ ہوتی تھی۔ زیادہ تر قابلِ اعتبار رپورٹنگ ان دنوں غیر ملکی انگریزی یا فرانسیسی اخبارات میں ہوتی تھی، لیکن ان اخبارات میں روزمرہ کے بیانات نہیں، بلکہ اہم ترین نوعیت کی بڑی خبریں ہی رپورٹ ہوتی تھیں، یا پھر کسی انتہائی حساس مسئلے پر پالیسی بیانات، جن کی اس وقت اہم جیو پولیٹیکل حیثیت ہوتی تھی۔ اس وقت بر صغیر میں اردو اور ہندی کے چند ایک اخبارات سمیت مقامی اخبارات میں کچھ رپورٹنگ قابل اعتبار ضرور تھی، لیکن اکثر رپورٹنگ پر ایڈیٹر کے اپنے خیالات، خواہشات اور تعصبات کی گہری چھاپ ہوتی تھی۔ آج اگر برٹش اخبارات کے آرکائیوز اور اس وقت کے ہندوستانی اخبارات کے آرکائیوز کا آپس میں تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تو یہ صورت حال سمجھ میں آتی ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران زمیندار، الہلال، اور انقلاب وغیرہ کی رپورٹنگ اور تجزیوں میں نمایاں فرق ہے، جو ان اخبارات کے مدیروں کی سوچ کا عکاس ہے‘ لیکن بد قسمتی سے قیام پاکستان کے با قاعدہ اعلان کے بعد بھی ذرائع ابلاغ میں بیٹھے ہوئے کچھ متعصب اور تنگ نظر لوگوں کی وجہ سے قائد اعظمؒ کے خیالات کو میڈیا میں اس طرح غیر جانب داری سے نہیں پیش کیا گیا۔ قیام پاکستان کے با ضابطہ اعلان کے بعد قائد اعظم کا سب سے اہم ترین خطاب ان کی گیارہ اگست انیس سو سینتالیس والی تقریر ہے۔ یہ تقریر اتنی واضح‘ دوٹوک اور واشگاف الفاظ میں تھی کہ اس میں رد و بدل یا اس کی اپنی اپنی پسند کے مطابق تشریح کرنے کی گنجائش نہیں تھی، لیکن پھر بھی کچھ ''فنکاروں‘‘ نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ کچھ نے اس میں کانٹ چھانٹ کرکے من پسند پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کی، کئی ایک نے سرے سے اس کو ''بلیک آئوٹ‘‘ ہی کر دیا۔ کہیں اس کی وڈیو غائب ہو گئی اور کسی نے اسے ریڈیو کے آرکائیو سے چرانے کی کوشش کی۔ یہ وہ چھپے رستم اور ''خدائی فوج دار‘‘ قسم کے لوگ تھے، جو قائد اعظمؒ کے خیالات پر نظر رکھنا، اور ہو سکے تو ان خیالات کو کنٹرول کرنا بھی اپنا پیدائشی حق تصور کرتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ قائد اعظمؒ پاکستان میں کون سے نظام کا تجربہ کرنا چاہتے تھے، اس خلاصہ اس گیارہ اگست والی تقریر میں موجود ہے۔ اس باب میں قائد اعظمؒ کی سوچ اور ارادوں کی ایک جھلک پاکستان کی ابتدائی کابینہ کی تشکیل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا، اور اس باب میں جو کچھ بھی ہوا، وہ گیارہ اگست کی تقریر سمیت ان کے بیشتر خیالات سے متصادم تھا۔ قائد اعظمؒ کے خیالات سے براہ راست تصادم کا یہ سلسلہ حکومتی ایوانوں اور نوکر شاہی کی راہ داریوں میں شروع ہوا۔ گیارہ ستمبر انیس سو اڑتالیس کے بعد اس عمل میں تیزی آئی۔ سات مارچ انیس سو انچاس کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کی۔ یہ قرارداد بارہ مارچ کو پاس ہو گئی۔ اقلیتی ممبران نے قرارداد میں ترامیم لانے کی کوشش کی جو مسترد کر دی گئی، نتیجے کے طور پر دس کے دس اقلیتی ممبران نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ قرارداد ایک اہم تاریخی دستاویز تھی، جس میں اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت دونوں کے تصورات کو یکجا کی کوشش کی گئی۔ آگے چل کر یہ سلسلہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے اس دوٹوک اعلان پر منتج ہوا کہ ''میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے، اور نہ ہی میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک اسلامی ریاست میں تمام شہریوں کے حقوق ان کے عقیدے سے قطع نظر برابر ہوتے ہیں‘‘۔ یہ سرکاری سطح پر قائد اعظمؒ کی تقاریر اور دیگر فرمودات کو ایک طرف رکھ کر اپنی خواہشات اور نظریات کے مطابق نظام حکومت کا تجربہ کرنے کا آغاز تھا۔ آگے چل کر ہر طرح کے سیاسی اور مذہبی خیالات کے حامل لوگ پاکستان میں اپنی اپنی خواہشات کا کامیاب تجربہ کرنے کا ارادہ لے کر سیاسی افق پر متحرک ہوگئے۔ ان میں وہ مذہبی پیشوا سر فہرست تھے جو قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد قائد اعظم کے بد ترین ناقدین میں شامل تھے۔ (جاری)