وہ لوگ جو قیام پاکستان سے پہلے قائدِ اعظم کے سخت ناقد تھے انہیں پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے کا بھرپور موقع نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔ انہیں کچھ مددگار بھی میسر آ گئے؛ چنانچہ کچھ ذرائع ابلاغ کو ان کی خواہشات نما خیالات کے پرچار کے لیے کھول دیا گیا‘ جن پر ان کے گھنٹوں لیکچر چلنے لگے۔ کچھ لوگ یہ ثابت کرنے میں جت گئے کہ قائد اعظم سے بڑا ''مذہب پسند‘‘ کوئی نہیں تھا۔ اس طرح ملک میں نظریاتی افراتفری کا ایک ماحول پیدا ہوا۔ قدیم محلاتی سازشوں کی طرز پر سازشوں کا آغاز ہوا۔ تب وزیر اعظم ہائوس ایک ''ریوالونگ ڈور‘‘ بن گیا تھا۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انیس سوسینتالیس سے لے کر انیس سو اٹھاون تک کے گیارہ سال کے عرصے میں سات وزرائے اعظم اس دروازے سے گزر چکے تھے۔
اسی دوران اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت کی لا یعنی بحث بھی شروع ہو گئی۔ اس بحث کے دوران جو طالع آزما عرصے سے گھات لگائے بیٹھے تھے، انہوں نے موقع غنیمت جانا اور جمہوریت کی بساط لپیٹ کر پاکستان کی دھرتی پر آمریت کا تجربہ کرنے کا دیرینہ خواب پورا کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا۔ آمریت کا یہ تجربہ کرنے والے حکمران اپنے کردار اور سیاسی سوچوں کے اعتبار سے ''کلاسیکل ڈکٹیٹر‘‘ تھے، جن کو کچھ لوگوں نے غلط طریقے سے لبرل کا نا مناسب نام دے دیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں ''لبرل ازم‘‘ بھی نا حق بد نام ہوا۔ لبرل ازم ایک سیاسی نظریہ اور طرز زندگی ہے، جس کا بے راہ روی سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی سوچ کے اعتبار سے طالع آزمائوں کا لبرل ازم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ سخت تعصبات کا شکار حکمران ٹولہ تھا، جس نے سرد جنگ کی حالت میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مغربی بیساکھیوں کا سہارا لیا۔ قومی اور عوامی مفادات کو ایک طرف رکھ کر یہ اس وقت کے مغربی سامراجی ایجنڈے کو اپنا کر مغربی مالی امداد اور اخلاقی حمایت کے ذریعے اپنے اقتدار کو طوالت بخشتے رہے۔ اگلے ایک عشرے تک یہ لوگ پاکستان میں مغربی امداد اور قرضوں کے ذریعے عام لوگوں کو صنعتی انقلاب برپا کرکے دینے کا خواب دکھاتے رہے‘ جو کہ محض ایک خواب ہی تھا‘ جس کا زمینی حقیقتوں سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ خواب مطلقاً رجعت پسندانہ پالیسیوں کا شکار ہو کر بکھر گیا۔ طویل نا کام پالیسیوں کی وجہ سے حکمران طبقات کے اندرونی تضادات ابھر کر سامنے آ گئے۔ ان تضادات کے نتیجے میں سیاسی افق پر ذوالفقار علی بھٹو جیسا نابغہ روزگار شخص نمودار ہوا۔ ان کے دامن میں مغرب کے بہترین سکولوں کی تعلیم اور آمریت کے سائے میں مقامی اور عالمی سیاست کا ''فرسٹ ہینڈ تجربہ‘‘ تھا۔ انہوں نے اس ''تجربے‘‘ کی روشنی میں سب نظریات کو ایک جگہ سمونے کے لیے ''اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ گویا دنیا کے اہم ترین کامیاب نظاموں سے اہم ترین نعروں کو یکجا کر کے پارٹی کے منشور میں سمیٹنے کی کوشش کی‘ مگر اس تجربے کی ناکامی ناگزیر تھی، جس کا سبب خود اس کے اندر موجود بے پناہ تضادات تھے۔ بھٹو تاریخ سے آگہی رکھتے تھے۔ وہ روس اور چین کے سوشلسٹ انقلاب کی برکات سے آگاہ تھے۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ روس اور چین میں انقلاب برپا کرنے والوں نے وہاں کی رجعت پسند قوتوں سے کسی قسم کا سمجھوتا کرنے سے انکار دیا تھا۔ قدامت پرستی اور قدیم جاگیردارانہ بندوبست کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا، اور اس کی جگہ جدید سوشلسٹ معیشت کی بنیاد رکھی تھی۔ جمہوریت کے باب میں دونوں ملکوں نے پرولتاری آمریت کا نظریہ اپنایا تھا، تضاد کی کوئی صورت انہوں نے چھوڑی نہیں تھی۔ حیرت انگیز طور پر قلیل مدت میں انہوں نے کروڑوں بھوکے ننگے انسانوں کو غربت کی دلدل سے باہر نکال لیا تھا۔ بھٹو اگر خلوص سے یہ تجربہ کرتے تو پاکستان سے غربت، پسماندگی اور جاگیرداری ختم ہو سکتی تھی، مگر وہ اپنے ہی نظریاتی تضادات کا شکار ہو کر یہ عظیم موقع گنوا بیٹھے۔
اس تجربے کی ناکامی کے نتائج بہت بھیانک تھے۔ اس کے نتیجے میں ملک پر آمریت کا تسلط قائم ہوا۔ اس بار آمریت پسند قوتیں ایک یک نکاتی تجربہ کرنے کی خواہش لے کر آئی تھیں‘ مگر ان کے خواب کا جو حشر ہوا، اور ان کے خواب نے پاکستان کا جو حشر کیا اس کا خمیازہ نسلیں بھگت رہی ہیں، اور جانے کب تک بھگتتی رہیں گی۔ بر صغیر میں صدیوں سے موجود اور طول و عرض تک پھیلی ہوئی روایات شاید ان کے لیے نا قابل قبول تھیں۔ اس لیے ان کو تبدیل کرنے کا قصد کیا گیا اور اس کے لیے مخصوص نظریات کے حامل ایک دو ممالک سے مدد حاصل کی گئی‘ جن کا اب ماننا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کی سوچ مغرب کے ایما پر اپنائی گئی تھی۔ آمریت پسندوں کا یہ تجربہ پچھلے تجربوں سے کہیں زیادہ ناکام ہوا۔ مارشل لا کے خاتمے کے بعد جمہوری حکومتوں کے آنے جانے کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ بار بار ٹوٹنے والی جمہوریت اور آمریت کے کھیل کے دوران، سوشل ڈیموکریسی، دائیں بازو کی قدامت پرست آمریت زدہ جمہوریت، اور روشن خیال آمریت کے سائے میں ماہرین پر مشتمل محدود جمہوریت کے تجربات کیے گئے۔ ان تجربات کی ناکامی کے بعد جمہوریت کے دو یکے بعد دیگرے نسبتاً کامیاب ادوار آئے، جب منتخب حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی۔ دونوں حکومتیں اپنے اپنے ادوار میں کچھ مایوسیوں اور ناکامیوں کے باوجود اپنی بقا کی جنگ میں کامیاب رہیں، اور جمہوریت کو بڑے صبر اور حوصلے سے آگے منتقل کرنے، اور تسلسل بخشنے میں کامیاب رہے۔
اس طویل کہانی کے بعد پاکستان کے افق پر موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان نمودار ہوئے۔ پاکستان میں نیا تجربہ کرنے کی جتنی شدید خواہش یہ وزیر اعظم لے کر آئے تھے، اور یہ تجربہ کرنے کے جس کثرت اور تسلسل سے انہوں نے اعلانات کیے تھے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی قدیم اور جدید تاریخ سے کسی بھی قوم و ریاست کی ہر اچھائی کو مستعار لے کر اس کا تجربہ پاکستان میں کرنا چاہتے تھے۔ اس خواہش کا آغاز انہوں نے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک وغیرہ کی سوشل ڈیموکریسی سے کیا۔ پھر انگلستان کی فلاحی ریاست کی کچھ خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ریاست مدینہ تک جا پہنچے۔ بعد ازاں چین میں نافذ نظام کی خوبیوں کے اسیر ہو گئے۔ تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ واضح معاشی و سماجی نظام کے تعین کے بغیر کسی بھی سماج میں نہ تو مارکسسٹ قیادت میں چلنے والا مخلوط چینی نظام لایا جا سکتا ہے، جسے چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے ترمیم پسندانہ نظریات کے تحت چلا رہی ہے اور نہ ہی کوئی اور نظام نافذ کیا جا سکتا ہے ‘ جبکہ معاشی و سماجی نظام میں بہتری لانے کی کوئی ٹھوس کوشش اب تک ہوتی نظر نہیں آئی۔ آئی ایم ایف سے اقتصادی پیکیج حاصل کرنے میں تاخیر کر دی گئی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسائل کی شدت بڑھ گئی اور مہنگائی تیزی سے بڑھنے لگی۔ درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے کے سلسلے میں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ انہی نااہلیوں کا نتیجہ ہے کہ عوام مالی مسائل کا شکار نظرآتے ہیں اور ان کیلئے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ جہاں ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے اقتصادی پیکیجز پر انحصار کرنا پڑے وہاں نظام کوئی بھی لایا جائے‘ اس کی کامیابی کے امکانات محدود ہی ہوتے ہیں۔(ختم)