کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادوں کی کہانی طویل اور پر اسرار ہے۔ یہ قراردادیں ایسی بھول بھلیاں ہیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پہلی دو قراردادیں یکے بعد دیگرے صرف تین دن کے وقفے سے پاس ہوئیں۔ ان قراردادوں میں نہ تو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل تجویز کیا گیا اور نہ ہی ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے سوال پر کوئی رائے دی گئی۔ ان قراردادوں میں کشمیری عوام کے مستقبل‘ استصواب رائے یا حق خود ارادیت کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے‘ البتہ یہ تسلیم کیا گیا کہ کشمیر کی صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ تنازع کشمیر کے تصفیہ کے لیے ثالثی کی ضرورت پر زور دیا گیا اور اس سلسلے میں کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مجوزہ کمیشن کے بیان کردہ بڑے مقاصد میں اول پاکستان اور بھارت کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا جائزہ لینا تھا۔ دوم حقائق کا کھوج لگا کر سچ کو جھوٹ سے الگ کرناتھا۔ سوم دونوں ممالک کے مابین ثالثی کی کوشش کرنا تھی۔ چہارم اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت اورصورت حال میں تبدیلیوں سے سکیورٹی کونسل کو آگاہ رکھنا تھا۔
ان دونوں قراردادوں کے مقاصد محدود تھے لیکن اس کے باوجود دونوں قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ کونسل کی ہدایات کے مطابق نہ تو کشمیر میں صورتحال کو مزید بگاڑ سے بچایا جا سکااور نہ ہی قراردادوں کی روشنی میں کمیشن کی تشکیل ہو سکی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو التوا‘ تاخیر اور عدم تعاون کاذمہ دار قرار دیا۔ اٹھارہ مارچ 1948ء کو چین نے ایک نئی قرارداد کونسل میں پیش کی‘ 21 اپریل 1948 ء کو یہ قرار داد منظور ہوئی۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیرپر تیسری قرارداد تھی۔ اسے قرارداد نمبر47 کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے مجوزہ کمیشن کے ممبران کی تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کر دی گئی۔ کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ برصغیر میں جا کر پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی خطے میں امن کے قیام اور ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے استصواب رائے کی تیاری میں مددکرے۔ قرارداد میں کشمیر تنازع کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت سے مرحلہ وار کئی اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی۔ پہلے قدم کے طور پر پاکستان سے کہا گیا کہ وہ قبائلیوں اور اپنے ان تمام شہریوں کو ریاست سے نکالے جو لڑائی کی نیت سے کشمیر میں داخل ہوگئے ہیں۔ دوسرے قدم کے طور پر بھارت سے کہا گیا کہ وہ کشمیر سے اپنی فوجیں بتدریج باہر نکالے اور ریاست کے اندر صرف اتنی فوج باقی رکھے جو کشمیر میں امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو۔ بھارت کمیشن کے مشورے سے امن و امان کے قیام کا بندو بست کرے اور اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ کشمیر کے مقامی افراد ی قوت کا استعمال کرے۔ تیسرے قدم کے طور پربھارت سے یہ کہا گیا کہ وہ اس اَمر کو یقینی بنائے کے کشمیر میں کولیشن حکومت کا قیام ہو اورتمام سیاسی پارٹیوں کو ریاستی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جائے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد کردہ استصواب رائے کے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کیا جائے جو کشمیر میں ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کا بندوبست کرے۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کیا جائے اور ریاست میں سیاسی آزادیوں کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ اس قرارداد پربھارت اور پاکستان دونوں نے شدیداعتراضات کئے‘ تاہم دونوں نے اقوام متحدہ کے کمیشن کی ثالثی کی پیشکش کو خوش آمدید کہا۔ یعنی قرارداد سے مکمل طور پر اتفاق کئے بغیر ثالثی پر رضامندی ظاہرکی۔ بھارت کا اعتراض یہ تھا کہ قرار داد میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ بھارت اس مقدمے میں دراصل ایک مدعی اور شکایت کنندہ ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کیا گیاہے کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق ہو چکا ہے‘ لیکن قرارداد میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے فوجوں کے انخلا کے فارمولے اورکشمیر میں کولیشن حکومت کے قیام کو شیخ عبداللہ حکومت کے لیے خطرناک قرار دیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ایڈ منسٹریٹر کے اختیارات ریاستی خودمختاری کو متاثرکرتے ہیں۔ مہاجریں کی واپسی کا مطالبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور پاکستان کا کشمیر کے اندر استصواب رائے کے دوران کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان نے کشمیر میں بھارتی فوجوں کے مکمل انخلا کے بجائے امن و امان کے لیے اس کی کچھ فوجیں رکھنے کے تجویز پر اعتراض کیا۔ پاکستان کا یہ کہنا تھا کہ کشمیر کے اندر بھارتی فوجوں کی تعداد خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ ان کی موجودگی میں آزادانہ استصواب رائے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ریاست میں کولیشن حکومت میں نمائندگی کے تناسب پر بھی اعتراض کیا۔ اس قرار داد کا ایک خاص نکتہ یہ تھا کہ ان قراردادوں کے ذریعے پہلی بار ریاست جموں وکشمیر سے غیر ریاستی فوجیں اور قبائلیوں سمیت ہر قسم کے حملہ آور باہر نکالنے کو کہا گیا تھا اور دوسرانکتہ یہ تھا کشمیریوں کے مستقبل کے تعین کے لیے باقاعدہ استصواب رائے کا لفظ استعمال کیا گیا۔ دونوں فریقوں نے قراردادوں پر اعتراضات کے باوجود کمیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس رضا مندی کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ آگے چل کر ارجنٹینا‘ بلجیم ‘ کولمبیا‘ چیکو سلواکیہ اورامریکا کے ایک ایک نمائندے پر مشتمل کمیشن کا قیام عمل میں لایاگیا۔ اس کے دو ماہ بعد تین جون 1948ء کو قرارداد نمبر 51 پاس کی گئی‘ جس میں ماضی کی تمام قراردادوں کو ''ری کنفرم‘‘ کرتے ہوئے کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ متنازع علاقوں میں جائے اور سکیورٹی کونسل کی ہدایات کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے۔
سات جولائی کو کمیشن کا پہلا ممبر علاقے میں پہنچا۔ کام شروع کرتے ہی کمیشن کو احساس ہوا کہ برصغیر میں زمینی حقائق سکیورٹی کونسل میں دی گئی معلومات اور اس پر ہونے والی مباحث سے بالکل مختلف ہیں۔ کمیشن کے ایک ممبر جوزف کاربل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کمیشن کو کراچی پہنچنے پر پتا چلا کہ پاکستانی فوج کے تین بریگیڈ مئی سے کشمیر میں لڑائی میں شامل ہیں۔ یہ نئی معلومات تھی کہ پاکستان اور بھارت کی باقاعدہ فوجیں کشمیر کے اندر لڑائی میں مصروف ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر 13 اگست 1948ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان نے دونوں ممالک کی رضامندی سے ایک نئی قرار داد پاس کی۔اس قرار داد کے تین حصے تھے‘ پہلا حصہ یہ تھا کہ حکومت پاکستان اور بھارت ریاست جموںو کشمیر میں سیز فائر کا اعلان کریں۔ دوسرا حصہ یہ تھا کہ فریقین کے درمیان ایک جنگ بندی کے عارضی معاہدے پر دستخط ہوں۔ اور تیسرے حصے میں پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ اس بات کا اعادہ کریں کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر ی عوام کی آزادانہ مرضی سے کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد دونوں حکومتیں کمیشن کے مشورے سے ایسے حالات کا تعین کریں گی جن میں عوام کی آزادانہ مرضی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان نے اس پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔ بہرحال کئی تحفظات‘ سوالات اور اعتراضات کے باوجود دونوں ممالک نے ایک سطح پر ان تجاویز کو تسلیم کیا جس کے نتیجے میں یکم جنوری1949ء کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ جنگ بندی کے باوجود قراردادوں کی کہانی جاری رہی‘ جس کا احوال اگلے کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔