یہ فتح و شکست کا قصہ نہیں‘ محض ایک ورق الٹ رہا ہے۔
افغانستان کی طویل اورالمناک داستان کا ایک باب بند ہو نے کو ہے‘ مگر داستان ابھی تمام نہیں ہوئی۔ یہ ہولناک کہانی ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔ اس موڑ کے بعد اگلا منظرنامہ کیا ہوگا ؟ کوئی پورے وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔اگلے منظر نامے میں کچھ امیدیں ہیں‘ کچھ خوش کن خواب ہیں‘ مگر اس کے پہلو بہ پہلو خوف کے گہرے سائے اور خدشات بھی ہیں جن کی وجہ کچھ ماضی کے ہولناک تجربات ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ جشن منانے کی تیاری میں ہیں۔ فتح کا جشن یا شکست کی خوشی؟ کچھ لوگوں کے لیے یہ افغانوں کی فتح کا جشن ہو گا اور امریکیوں کی شکست پر خوشی کے شادیانے بجیں گے۔
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کو کچھ لوگ قدرتی طور پر طالبان کی عظیم فتح قرار دے رہے ہیں۔ فتح و شکست کا کھیل افغانوں کے لیے نیا نہیں ہے‘ افغانستان کی تاریخ اس کھیل سے بھری پڑی ہے۔ ماضی میں دور تک افغان تاریخ کا نمایاں ترین کھیل یہی رہا ہے۔ کئی فتح کے جشن منائے گئے اورکئی شکستوں پر بے انتہا ماتم ہوئے۔ یہ افغانوں کی تاریخ کا ایک غالب رنگ ہے اور اس تاریخ کا ورق ورق لہو سے بھرا ہوا ہے۔
ماضی میں بہت زیادہ پیچھے جائیں گے تو بات طویل ہو جائے گی‘ صرف چار دہائیاں پیچھے مڑ کر دیکھ لیتے ہیں۔ چالیس سال پہلے جب افغانوں کی جدید تاریخ کے اس پرآشوب دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس آغاز کا حساب کچھ لوگ 24 دسمبر 1979ء سے شروع کرتے ہیں جب سوویت افواج افغانستان میں اُتریں‘ مگر حقیقت میں کہانی اس سے کہیں پہلے شروع ہو چکی تھی۔ اس کہانی کا تعلق دنیا کی دوسری بادشاہتوں کی طرح اُس وقت کے افغانستان کی بادشاہت کے خلاف خاندانی اور محلاتی سازشوں اورعوامی جدوجہد کی مشترکہ اشکال سے تھا۔ 1973 ء کے موسم گرما میں بالآخر سردار داؤد کی قیادت میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا تھا‘ مگر شاہی خاندان کے اس باغی کے پاس کوئی واضح روڈ میپ نہ تھا۔ ظاہر شاہ کے خلاف جنگ میں اُس نے ایسے لوگ جمع کر لیے تھے جو بھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے اور متضاد خیالات کے حامل تھے؛ چنانچہ اقتدار کی کشمکش
شروع ہوگئی۔ یہ کشمکش آگے چل کر نور محمد ترکئی کی فتح پر منتج ہوئی۔ ترکئی کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت نے سوویت یونین سے مدد کی درخوست کی۔ اس درخواست کے جواب میں سوویت افواج نے افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ اس قدم سے افغانستان کے اندر بر سر پیکارمتحارب گروہوں کی جنگ ایک عالمی جنگ کا روپ دھار گئی۔ اس جنگ میں تین طاقتور قوتوں کو گہری دلچسپی تھی‘ پہلی اور بڑی قوت امریکہ کی قیادت میں مغربی بلاک تھا جسے اس قضیے میں سوویت یونین سے ویتنام کا بدلا لینے‘ اشتراکیت کی شکست اور سرمایہ داری کی فتح کا ایک موقع نظر آیا۔ دوسری قوت جنرل ضیا الحق کی آمریت تھی جسے اس صورتحال میں اپنے وجود کی بقا اوراقتدار پرفائز رہنے کی جوازیت کا نادر موقع نظر آیا۔ اور تیسری قوت پوری دنیا میں بکھرے وہ بنیاد پرست تھے جو خدائی فوجدار ہونے کا کردار ادا کرنے کے لیے کسی کاز کی تلاش میں تھے۔ یہ تینوں قوتیں ایک دوسرے کی اعانت سے میدان میں کود پڑیں۔ اس سے ایک نئے خون آشام کھیل کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان ایک عالمی تھیٹر بن گیا۔ اس عالمی تھیٹر میں وہ خون آشام ڈرامے سٹیج ہوئے جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین داخلی سطح پر انتہائی گہری اور دور رس تبدیلیوں سے گزررہا تھا۔ Glasnost(سوویت یونین میں زیادہ شفافیت اور معلومات تک رسائی کے مطالبے پر مبنی پالیسی جس کے محرک میخائیل گوربا چوف تھے)اور Perestroika (اقتصادی اور سیاسی نظام کی تعمیر نو کی پالیسی ) جیسے نظریات پر کھلی بحث ہو رہی تھی۔ سماج تبدیلی کے تیز رفتار عمل سے گزر رہا تھا۔ اس عمل سے گزرنے کے دوران سوویت یونین کا روایتی طاقتور ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر سماج پر اپنی گرفت کھو رہا تھا مگر ٹوٹ پھوٹ سے پہلے سوویت یونین افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور جنیوامعاہدہ پر دستخط کر چکا تھا۔
سوویت یونین کا ٹوٹنا ایک بہت بڑی حقیقت تھی اور اس حقیقت سے انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہ تھا مگر اس ٹوٹ پھوٹ کا تعلق افغانستان سے جوڑنا بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ سوویت یونین کو ستر سال سے انتہائی پیچیدہ معاشی‘ سیاسی اور نظریاتی سوالات درپیش تھے۔ ان سوالات کے بروقت اور درست جوابات فراہم کرنے میں ناکامی سوویت یونین کے ٹوٹنے کا سبب تھا۔ اس اتنے بڑے تاریخی واقعے کا سہرا جن لوگوں نے اپنے سر باندھنے کی کوشش کی وہ بے سود تھی۔ سوویت یونین ایک نظام کا نام تھا‘ جس نے نصف صدی تک ایک ناقابلِ تسخیر قوت کے طور پر دنیا میں طاقت کا توازن قائم کر رکھا تھا۔ اس کی ٹوٹ پھوٹ کے اسباب اس کے اندر تھے اوریہ کوئی خفیہ اسباب نہیں تھے بلکہ سب پرعیاں تھے۔ یہ سوویت نظام کی اپنی اندرونی کشمکش اور تضادات تھے جن کے نتیجے میں یہ نظام اپنے سلسلۂ عمل میں تحلیل ہو گیا۔ جہاں تک فتح و شکست کی بات ہے تو یہ بحث ہی اس وقت غیرمتعلق ہو گئی تھی جب جنیوا ایکارڈ پر فریقین نے دستخط کیے تھے اور ماسکو نے اس معاہدے کے تحت اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا تھا۔
لیکن افغانستان کے اندر سوویت یونین کو شکست دینے کے دعویداروں کے ہاتھ میں جب اقتدار اور طاقت آئی تو جو طرزِ عمل انہوں نے اپنایااس کی کوئی وضاحت اور توجیہہ ممکن نہ تھی۔ انہوں نے وہاں جس ''نیک سماج‘‘ کے قیام اوردودھ اور شہد کی نہروں کے وعدے کیے تھے وہ تو ایفا نہ ہوئے۔ اس کے برعکس افغان عوام کے کمزور طبقات کو کئی خوفناک اور اذیت ناک واقعات سے گزرنا پڑا۔ لاٹھی اور گولی کی سرکار وجود میں آئی۔ انصاف کے نام پر طاقت اور ناانصافی کے کیسے کیسے مظاہرے ہوئے۔ عورتوں کو سر عام کوڑے مارے گئے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا بے دردی سے قتل ہوا۔ افغانستان پر ظلم کا ایک نیا نظام مسلط ہوگیا جو کئی بیرونی حملہ آوروں اور ان کے مسلط کردہ نظاموں سے زیادہ سخت گیر تھا۔
افغان تاریخ کا اگلا موڑ امریکہ کا براہ راست حملہ اور تسلط تھاجو مختلف اشکال میں دو دہائیوں تک جاری رہا ہے۔ ان دو دہائیوں کے دوران کتنا خون خرابہ اور قتل و غارت گری ہوئی اس کی ایک جھلک حال ہی میں امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے ایک ذیلی ادارے کی رپورٹ میں نظر آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بیس برسوں کے دوران اس جنگ میں 241,000 افغان اور امریکی شہری مارے گئے۔ اور اس قتل و غارت گری میں امریکہ کے 22 کھرب 60ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ یہ وہ اخراجات ہیں جو براہ راست جنگ پر خرچ ہوئے ‘بالواسطہ اخراجات کا تخمینہ بھی پندرہ سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ 22 سے23 کھرب ڈالر کی خطیررقم سے دنیا میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے ؟ یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس طویل جنگ کی جتنی بڑی قیمت جان و مال کی شکل میں امریکہ اور افغانوں نے ادا کی وہ بہت بھاری ہے۔ اس جنگ میں کسی کی فتح وشکست یا ہار ‘ جیت نہیں فقط بربادی ہے۔ اس بربادی کے سوا اگر کچھ ہے تو بس سبق ہے۔ یہ سبق سیکھنے کے لیے کھربوں ڈالرز کا خرچ اور لاکھوں انسانوں کا خون ضروری نہیں۔ جو لوگ فتح کا جشن منا نے کی تیاری کررہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ فتح ہو یا شکست دونوں کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ انسان تاریخ کے ہر دور میں ایسا کرتا رہا ہے‘ مگر ہمارے دور میں یہ قیمت پہلے سے کئی گنا زیادہ اور بھاری ہے۔