سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری موجودہ تشدد اور خون خرابے کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔ یہ سوال ذرائع ابلاغ‘ سرکاری بحث و مباحث اور عام گفتگو میں بار بار اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ یقینا ایک اہم سوال ہے مگراسرائیل فلسطین تنازع کے تناظر میں یہ سوال اہم ہونے کے باوجود اس وقت کافی حد تک غیر متعلق ہے۔ غیر متعلق اس لیے کہ شیخ الجراح سے کچھ فلسطینی گھرانوں کی جبری بے دخلی سے شروع ہونے والے یہ پر تشدد واقعات اسرائیل فلسطین تنازع میں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ یہ ان ہزاروں واقعات کے سلسلے کی کڑیاں ہیں جو گزشتہ 70 سالوں سے ان علاقوں میں مختلف اشکال میں مختلف اوقات میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر اس تنازع کی جڑیں بیسویں صدی کے پہلے نصف کے دوران رونما ہونے والے بڑے تاریخی واقعات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ تاریخ کے وہ نازک ادوار تھے جن کے دوران یورپ میں تاریخ کے خوفناک ترین واقعات رونما ہوئے۔ سامراجی مفادات کے تصادم اور منڈیوں کی ازسرِ نو تقسیم کے لیے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم جیسے المناک واقعات رونما ہوئے۔ پورے براعظم میں معاشی بدحالی‘ بے روزگاری اور بھوک کی ناقابلِ تصور شکلیں سامنے آئیں۔ اس صورتحال سے تنگ نظر قوم پرستی اور فاشزم کے نظریات نے جنم لیا اور فروغ حاصل کیا۔ یہودیت دشمنی پر مبنی نسل پرستانہ قوم پرستی کی سیاست شروع ہوئی اور تیزی سے مقبول ہوتی چلی گئی۔ یہ سیاست آگے چل کر بربریت پر مبنی پرتشدد واقعات پر منتج ہوئی۔ یورپ میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتلِ عام ہوا‘ ان کو ٹارچر کیمپوں میں ڈالا گیا‘ ان کو ان کے گھروں سے بے دخل اور جلاوطن کیا گیا۔ ان واقعات کی وجہ سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری اور ان کی اپنی ریاست کے قیام کے لیے حالات پیدا ہوئے کیونکہ ان مظالم کی وجہ سے دنیا میں ان سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے۔ یہ سلسلہ نومبر1945ء میں ایک طرح کی آفیشل حیثیت اختیار کر گیا جب اقوام متحدہ کی طرف سے یہودیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد کو یہودیوں نے تسلیم کر لیا مگر فلسطینیوں نے عرب برادری کی حمایت سے اس قرارداد کو ماننے سے انکار کیا۔ یہودیوں نے اس قرارداد کے زور پر اپنی ریاست قائم کرلی اور اس میں دھونس دھاندلی اور طاقت کے استعمال سے کچھ ایسے علاقے بھی شامل کر لیے جو اس قرارداد کی رو سے اس مجوزہ ریاست کا حصہ نہیں تھے۔
اس یہودی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی عرب اسرائیل جنگوں کا آغاز ہوا۔ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے بہت سی ایسی زمینوں پر قبضہ کر لیا جو مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ تھیں۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے فلسطینیوں کوان کے گھروں سے نکال دیا گیا‘ یہ سلسلہ تب سے تسلسل سے جاری ہے۔ 1948ء سے لے کر آج تک اس طویل عرصے میں 1967ء کی مشہور عرب اسرائیل جنگ سمیت ہزاروں چھوٹے بڑے تصادم ہو چکے ہیں۔ موجودہ تصادم اسی سلسلے کی ایک تازہ ترین کڑی ہے؛ چنانچہ ان حالات میں موجودہ واقعات کے ذمہ داران کا تعین کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے کے ستر سال سے جاری خونریزی کے اس سلسلے کو ختم کیسے کیا جا سکتا ہے؟ موجودہ تصادم کا ذمہ دار خواہ کوئی بھی ہو اس تصادم کی اصل اور بنیادی وجہ تو بہرحال اسرائیل فلسطین تنازع ہے اور اس تنازع کو ختم کیے بغیر تصادم کے اس طویل سلسلے کو ختم نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن جو لوگ موجودہ تصادم کے ذمہ داران کا تعین اہم سمجھتے ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ ان واقعات کا ذمہ دار مشرق وسطیٰ کا ایک ملک ہے‘ جس کے سخت گیر عناصر کے پاس موجودہ تصادم کی کیفیت پیدا کرنے کا موقع‘ ذرائع اور وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں ایک بڑی وجہ اپریل میں اس ملک کی ایٹمی صلاحیت پر اسرائیلی حملہ ہے‘ جس میں ایک نیوکلیئر سائنسدان مارا گیا تھا‘ اور یہ واقعہ اس کے لیے سبکی کا باعث بنا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی واقعات میں سمندر میں اسی ملک کے آئل ٹینکروں پر حملے اور شام میں ایرانی بیس کیمپوں پر گرائے جانے والے بموں کا ذمہ دار بھی اسرائیل کو ہی ٹھہرایاجاتا رہا اور یہ ملک ان واقعات کے جواب میں آج تک کوئی کارروائی نہیں کر سکا تھا‘ جو اس کی طرف سے لازم سمجھی جاتی تھی۔ اس غصے اور اسرائیل کے خلاف کسی ایسی کارروائی کی دوسری بڑی وجہ سفارتی محاذ پر اسرائیل کی پیش قدمی تھی۔ اسرائیل کی طرف سے عرب اور مسلم ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام بھی خلیج کے اس کے لیے تشویشناک واقعہ تھا۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ تشدد اور تصادم کی کیفیت ان تعلقات میں کسی فوری پیشرفت کے امکانات کو کم کر دیتی ہے۔
کچھ لوگ اس معاملے کی ذمہ داری فلسطینی لیڈرشپ پر ڈالتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ نیا تصادم فلسطینی قیادت کی کمزوری یا نااہلی کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داری ان فلسطینی تنظیموں اور گروہوں پر بھی ڈالی جاتی ہے جو فلسطین کے اندر اور باہر سرگرم عمل ہیں۔ ان میں حماس‘ اسلامک جہاد اور حزب اللہ سمیت دوسرے گروپ شامل ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اِن واقعات کا اصل ذمہ دار عالمی طاقتوں اور بالخصوص ریاست ہائے متحدہ امریکا کو سمجھتے ہیں۔ اس کا اظہار برنی سینڈرز کے ایک حالیہ مضمون سے ہوتا ہے جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ برنی کے مطابق جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو ہم اسرائیل کے تحفظ کے حق کی بات کرتے ہیں لیکن کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اس سلسلے میں فلسطینیوں کے حقوق کیا ہیں۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ہم ایسے واقعات کا صرف اس وقت ہی کیوں فوری نوٹس لیتے ہیں جب اسرائیل پر کوئی راکٹ گرتا ہے؟
ان لوگوں کے خیال میں امریکا کی پالیسیوں کا دوغلا پن اس صورتحال کا اصل ذمہ دار ہے۔ ایک طرف تو امریکہ اسرائیل کی طرف سے غیر ضروری طاقت کے استعمال اور خون خرابے کی مذمت کرتا ہے اور دوسری طرف اس حوالے سے اقوام متحدہ میں اٹھائی جانے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے۔ ایک طرف امریکہ کی اسرائیل کو چار بلین ڈالر سے زائد کی امداد اور اخلاقی و سفارتی ہمدردی جاری ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کے ساتھ بھی ہمدردی کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ موجودہ تصادم کے دوران اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرنے کا عمل اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اس امریکی پالیسی کے خلاف رد عمل صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے‘ برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک کے بائیں بازو کے سیاست دانوں اور قائدین نے اس پر سخت رد عمل دیا ہے۔ اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں احتجاجی مظاہروں میں ان جذبات کا واضح اظہار ہوا ہے۔ ان مظاہروں میں شرکا نے نہ صرف اسرائیل کی جارحیت اور پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے بلکہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل نواز رویے کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ عالمی سطح پر اس طرح کے بڑے مظاہرے اور جذبات کا کھلا اظہار کسی بھی طرح کے ظلم یا ناانصافی کا شکار اقوام کے لیے بڑا اثاثہ ہوتے ہیں۔ فلسطینی اس معاملے میں خوش قسمت رہے ہیں‘ ماضی میں ان کو عالمی رائے عامہ کی ایک غالب اکثریت کی حمایت حاصل رہی ہے‘ بد قسمتی سے اس حمایت کا کوئی عملی فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور مسئلے کے حل کے کئی مواقع ضائع کر دیے گئے۔ اب الزام تراشی میں مزید وقت ضائع کیے بغیر مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی ضروری ہے۔