حقِ آزادیٔ رائے کا سوال ہر دور میں دنیا بھر میں زیرِ بحث ہے۔ یہ سوال کچھ صحافیوں پر ہونے والے حملوں، ان کے اغوا اور اس پر ہونے والے رد عمل کے تناظر میں بھی سامنے آتا رہا ہے۔ اس تناظر میں عام آدمی کے لیے بھی یہ سوال دلچسپی کا باعث بنتا جا رہا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی آخر ہے کیا چیز؟ کسی عام شہری یا کسی صحافی کو کیا کہنے کی آزادی ہونی چاہیے اور اسے کیا کہنے سے روکا جا سکتا ہے؟ ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے عوامی زبان میں اظہارِ رائے کی آزادی کی تعریف ضروری ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی سے مراد کوئی بھی ایسی سرگرمی ہے جس کا مقصد کوئی معلومات لینا یا دینا ہو، خواہ یہ انفارمیشن لینے یا دینے کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کیا گیا ہو۔ اس میں اظہار کے تمام ذرائع اور اقسام شامل ہیں۔ ان میں مصوری، موسیقی، بت تراشی، مجسمہ سازی اور تحریر سے لے کر عام تقریر تک بے شمار ذرائع شامل ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں عام طور پر تحریر و تقریر ہی اظہار کے بنیادی ذرائع کے طور پر زیر بحث آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ عام طور پر تحریر و تقریر کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی یہ ہے کہ کسی شخص کو اپنی رائے اور خیالات کو بلا خوف و خطر دوسروں تک پہنچانے کی آزادی ہو۔ اس شخص کو اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت کسی قسم کے سینسر کا ڈر نہ ہو۔ کسی کی طرف سے حملہ ہونے یا نقصان پہنچنے کا خوف نہ ہو یا اپنے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی یا پابندی کا ڈر نہ ہو۔
اظہارِ رائے کی آزادی کو دنیا بھر میں ایک انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل انیس کے تحت اس کو باضابطہ طور تسلیم کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ہر شخص کو کسی قسم کی مداخلت کے بغیر رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے‘ اور ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہونا چاہیے‘ جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے یہ حق لا محدود اور مطلق نہیں ہے۔ اس حق کو محدود اور مشروط کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس حق کو محدود کرنے والی ان شرائط اور حدود کو بھی عالمی سطح پر طے اور تسلیم کیا جا چکا ہے۔ یہ حدود دو قسم کی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی ملک کی قومی سلامتی، امن و امان کے پیش نظر اس حق کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ یہ حدود و قیود دنیا کے جمہوری ممالک کے آئین میں بڑی وضاحت سے شامل ہیں۔ مثال کے طور پر اس اصول کو کینیڈین چارٹر آف رائٹس اور فریڈم (The Canadian Charter of Rights and Freedoms) میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے، اور اس آزادی پر صرف وہ معقول پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جن کو ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں جائز قرار دیا جا سکتا ہو‘ یعنی حکومت یہ ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہو کہ یہ پابندیاں معقول ہیں، اور ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں ان پابندیوں کا جواز موجود ہے۔ اگر حکومت یہ ثابت نہیں کر سکتی تو آزاد ملک کی عدالتیں ان پابندیوں کو غیر معقول اور بلا جواز قرار دے کر ختم کر سکتی ہیں۔ ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں اظہار رائے کو محدود کرنے کے کچھ تسلیم شدہ جواز ہیں، جن کو عدالتوں نے بار بار تسلیم کیا ہے، اور وہ اب عدالتی نظائر اور اصول بن چکے ہیں۔ اس اصول کی وضاحت جان سٹیورٹ مل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''آن لبرٹی‘‘ میں تسلیم کیا ہے۔ جان لکھتا ہے کہ ایک مہذب سماج میں اربابِ اختیار یہ حق صرف اس وقت استعمال کر سکتے ہیں، جب وہ دوسروں کو کسی نقصان سے بچانا چاہتے ہوں۔
یہ بڑے حیرت و افسوس کی بات ہے کہ کچھ معاشروں میں اظہارِ رائے کی آزادی پر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ابھی صرف گفتگو کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ سماج اس کی جزئیات اور اس کے درست اطلاق پر منقسم اور کنفیوزڈ ہیں حالانکہ آزادیٔ رائے ایک بہت ہی پرانا اصول ہے اور جمہوریت کے ابتدائی تصورات میں سے ایک ہے۔ ''قدیم یونان میں جمہوریت کی ابتدا‘‘ نامی کتاب میں اس تصور کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب کئی مصنفین کی مشترکہ کاوش ہے، جسے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا نے دو ہزار سات میں چھاپا تھا۔ اس کتاب کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی کا تصور پانچویں صدی قبل مسیح کے ابتدا میں ابھر کر سامنے آیا تھا۔ رومن ایمپائر سے بھی پہلے ''رومن ریپبلک‘‘ میں مذہب کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کی اقدار کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ کلاسیکل رومن تہذیب کے دور میں روم کے عوام اور ان کی سینیٹ‘ دونوں اس اصول کو مانتے تھے۔ اور یہ کل کی بات نہیں بلکہ کوئی پانچ سو نو قبل مسیح کی بات ہو رہی ہے۔ نسبتاً جدید دور کی بات کریں تو انگلینڈ میں سولہ سو نواسی (1689) میں ''بل آف رائٹس‘‘ (The Bill of Rights) پاس ہوا تھا۔ اس بل میں پارلیمنٹ میں اظہارِ رائے کو آئینی حق تسلیم کیا گیا تھا۔ آگے چل کر سترہ سو چھیاسٹھ (1766) میں سویڈن میں پریس کی آزادی کا بل سامنے آیا۔ سترہ سو نواسی (1789) کے فرانسیسی انقلاب نے اس باب میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد تقریر کی آزادی کو اہم ترین حق تسلیم کیا گیا۔ اس کے چند برس بعد سترہ سو اکانوے میں امریکی آئین میں پہلی ترمیم متعارف کروائی گئی، جس کے ذریعے اظہارِ رائے کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ ان ممالک میں تب سے شہریوں کو اظہارِ خیالات کی آزادی بلا کسی مداخلت کے حاصل ہے۔ علاقائی اور عالمی قوانین میں ان حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔ کونویننٹ آف سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (Covenant of Civil and Political Rights) کے آرٹیکل انیس، یورپی کنونشن آن ہیومن رائٹس کے آرٹیکل دس، امریکی کنونشن اور افریقی چارٹر سمیت ہر جگہ اس کو قانون کا درجہ حاصل ہے۔ اس قانون کے تحت اظہار کے ذرائع اور متن دونوں کو تحفظ حاصل ہے۔ کوئی شہری اپنی بات زبانی کرے یا تحریری، یہ بات عام دھارے کے میڈیا میں ہو یا سوشل میڈیا پر‘ اس حق کی حفاظت کے عالمی سطح پر قوانین موجود اور تسلیم شدہ ہیں۔
جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی باہم منسلک اور مشروط ہیں۔ سچی جمہوریت ایک ایسا نظام ہے، جس میں عوام خود اپنے آپ پر حکومت کرتے ہیں۔ خود پر حکمرانی کے لیے عوام کا پورے طریقے سے آگاہ اور با شعور ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہر طرح کی معلومات تک رسائل ضروری ہے۔ عوام کو یہ رسائی تب ہی ممکن ہو گی جب اس پر کسی قسم کی قدغن نہ ہو۔ اس کے بغیر چند لوگ یا چند گروہ رائے عام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے نام پر ایک فریب ہے‘ چنانچہ اظہارِ رائے اور تنقید کی آزادی کے بغیر جمہوریت محض ایک فریب ہے۔ کئی ملکوں کے آئین میں بھی اظہار رائے کے باب میں جو کچھ درج ہے وہ آزادیٔ اظہارِ رائے کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے عملی طور پر کسی کو یہ ضمانت میسر نہیں۔ اس کے بجائے دنیا بھر میں صحافیوں کو ایک سخت قسم کے مخاصمانہ ماحول کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں صحافی قتل اور اغوا ہوتے رہے ہیں‘ اپنے خیالات اور آرا کے اظہار کی بنیاد پر ان کو ملازمتوں سے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر برطرف کیا جاتا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ واقعات ان نا مساعد حالات کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں دنیا بھر کے صحافی اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے پر مجبور ہیں۔