کینیڈا کے شہر لندن میں نفرت انگیز جرم کا واقعہ ایک ہولناک سانحہ ہے۔ اس پر شدید رد عمل ظاہر ہوا ہے۔ یہ رد عمل مقامی اور عالمی سطح پر یکساں ہے۔ اس واقعے کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن مذمت اور افسوس کے اظہار کی کوئی شدت بھی اس جانی نقصان کی تلافی نہیں کر سکتی، جو ایک بے رحم‘ سفاک شخص نے کیا ہے۔ رد عمل کی کوئی شکل بھی اس خاندان میں واحد بچ جانے والے معصوم بچے کے دکھوں کا مداوا نہیں، جو خود بھی زخموں سے چور ہسپتال میں پڑا ہے۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے دہشت گردی کا افسوس ناک واقعہ قرار دیا ہے۔ وہ بلا تاخیر جائے وقوعہ پر پہنچے۔ واقعے کی واضح اور سخت الفاظ میں مذمت کی۔ حکام کے ساتھ ساتھ ملک کی سول سوسائٹی بھی اس وحشیانہ حرکت کی مذمت میں متحد ہے۔ کینیڈا سے باہر پاکستان سمیت دوسرے ممالک میں اس عمل کو اسلاموفوبیا قرار دے کر اس کے تدارک کی بات کی گئی ہے۔ واقعے کو اسلاموفوبیا قرار دینے والوں میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔
اب حسب روایت اس واقعہ پر بحث ہو رہی ہے۔ سیاسی، سماجی، مذہبی اور نفسیاتی حوالوں سے واقعے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ہر کوئی اپنے تجربات، علم، اور رجحانِ طبع کے مطابق اس واقعے کو دیکھ رہا ہے۔ کوئی اسے اسلاموفوبیا کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے۔ کوئی اسے نسل پرستی کا گھنائونا فعل سمجھ رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے دہشت گردی کہتے ہیں، دوسرے اسے ایک سیدھا سادا قتل قرار دے رہے ہیں۔ کوئی اسے زینوفوبیا کہہ رہا ہے، اور کچھ لوگ اسے نفرت انگیز جرم قرار دینے پر بضد ہیں۔ اگر اکیڈیمک نقطہ نظر سے ان ساری اصطلاحات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بہت فرق ہے۔ ہر اصطلاح کا اپنا پس منظر اپنے معنی اور جداگانہ تعریف ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں یہ سب اصطلاحات اہم ہیں‘ لیکن عام آدمی کے لیے یہ ایک وحشیانہ قتل ہے، جس کے پیچھے نفرت کارفرما ہے۔ اس نفرت کی وجہ مذہب بھی ہو سکتا ہے، اور نسل بھی‘ اور اجنبیوں اور غیر ملکیوں سے خوف اور نفرت کا عنصر بھی۔ دانش وروں کا کام ہے کہ اس واقعے کے درست محرکات کا جائزہ لے کر اس پر درست اصطلاح چسپاں کریں‘ مگر عام آدمی اس سے بے نیاز ہے‘ البتہ وہ غمگین اور اداس ہے، اور اسے مقتولین سے واضح ہمدردی ہے۔
جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی حکام کا تعلق ہے تو انہوں نے پہلے پہل اسے نفرت انگیز جرم قرار دیکر ملزم کو قتل اور اقدام قتل کے الزامات میں چارج کیا۔ پھر بعد میں اس کو دہشت گردی کا عمل بھی قرار دیا، جو اسلاموفوبیا سے جڑا ہے۔ اب معاملہ عدالت میں ہے، اور ملک کا کریمنل جسٹس سسٹم بہت شفاف اور موثر ہے۔ مقتولین اور قاتل دونوں سے انصاف ہو گا۔ اس بات کا سب کو یقین ہے۔ اس لیے یہاں نہ تو کوئی انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے، نہ ہی عبرت ناک سزا کی کوئی مانگ ہے۔ جو کچھ ہو گا قانون و انصاف کے مطابق ہو گا، اور سب کو اس پر بھروسہ ہے۔
کمیونٹی کے لیے البتہ یہ لمحہ فکریہ ہے اور تمام کینیڈین کے لیے یہ گریبان میں جھانکنے کا وقت ہے۔ اس ملک میں گزشتہ چند سالوں میں نفرت انگیز جرائم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات اعداد و شمار سے ثابت ہے۔ یہ دماغ کو چکرا دینے والے اعداد و شمار ہیں۔ ان حالیہ برسوں میں نفرت کی سوداگری سرحد کے اس پار امریکہ میں کچھ سیاست کار کر رہے تھے، لیکن یہ نفرت امریکی سماج میں اتنی عام نہیں ہوئی جتنی کینیڈا میں پھیل گئی۔ نسل پرستی کی بنیاد پر یہاں جرائم کے ارتکاب میں اضافہ ہوا۔ ان نفرت انگیز جرائم کا شکار سیاہ فام، یہودی اور مسلمان یکساں طور پر شکار ہوئے۔ نسل پرستی کے جرائم کا شکار سیاہ فاموں میں عیسائی اور مسلمان‘ دونوں شامل تھے لہٰذا ان جرائم میں اسلاموفوبیا سے زیادہ نفرت اور نسل پرستی کا عنصر نمایاں تھا‘ اور اس کی وجہ ماضی قریب میں کچھ سیاست کاروں اور حکام کی پالیسیاں تھیں۔ موجودہ حکومت سے پہلے یہاں جو دائیں بازو کی قدامت پرست حکومت برسر اقتدار رہی ہے، اس کی بعض پالیسیوں کو نفرت انگیز جرائم میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امتیازی سلوک پر مبنی ان کے کچھ اقدامات نے اس خوبصورت سماج کو مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا۔ انہوں کچھ ایسے اقدامات کیے، جن کی کوئی منطقی توجیہہ مشکل تھی۔ شہریت کا بل اس کی ایک بڑی مثال تھی۔ شہریت کے قوانین میں تبدیلی کا بظاہر مقصد دہشت گردی روکنا تھا، لیکن عملی طور پر یہ بل سماج میں مذہبی اور نسلی تقسیم کا باعث بنا۔ ایک قانون شہریت کا حلف لیتے وقت چہرہ ڈھانپنے پر پابندی سے متعلق تھا۔ اس قانون کی توجیہہ شہریت لیتے وقت شناخت کی خاطر حجاب یا نقاب ہٹانا تھا‘ مگر مسلمانوں اور عرب ممالک کے تارکینِ وطن نے اسے اپنے مقدس مذہبی معاملے میں مداخلت قرار دیا۔ امیگریشن اور سکیورٹی کے حوالے سے حکومت کے لا محدود اختیارات خصوصاً سکیورٹی سرٹیفکیٹ کے لیے تارکینِ وطن کے خلاف معلومات فراہم کرنے یا خفیہ رکھنے کے حکومتی اختیارات کا بل‘ قابل ذکر ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران کینیڈا میں نسل پرستی کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والے دائیں بازو کے گروپس کی تعداد اور سائبر سپیس پر ان کی موجودگی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کینیڈا میں تقریباً تین سو سے زائد دائیں بازو کے شدت پسند گروپ سرگرم ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں ان گروپس کی تعداد میں تیس فیصد اضافہ ہوا۔ ان میں ایسے گروپس زیادہ نمایاں ہیں، جو سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر سرگرم ہیں، اور نازی اور فاشسٹ رجحانات رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر گروپ مسلم دشمن، نسل پرستانہ سازشی تھیوریاں رکھتے ہیں۔ یہ گروپ سماج دشمن اور ریاست دشمن نظریات رکھتے ہیں، اور امریکہ میں اپنے ہم خیال گروپس کے ساتھ منسلک ہیں۔ برطانیہ میں قائم ایک ادارے انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی رپورٹ میں دائیں بازو کے شدت پسند نظریات کے حامل تقریباً چھ ہزار چھ سو سوشل میڈیا سائٹس کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کے مالک کینیڈین ہیں۔ اسی طرح ٹویٹر پر شدت پسند اکائونٹس کے ساتھ بھی چھ ہزار سے زائد کینیڈین منسلک ہیں۔ دو ہزار بیس کی اس رپورٹ میں دائیں بازو کے ایسے شدت پسندوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جو باقاعدگی سے نفرت انگیز مواد اور تشدد کے حق میں پوسٹ کرتے ہیں۔
ان دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا نشانہ خود کینیڈیں وزیر اعظم ٹروڈو بھی ہیں۔ یہ لوگ عجیب و غریب سازشی تھیوریاں پھیلا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مقبول تھیوری یہ رہی ہے کہ ٹروڈو کی قیادت میں کینیڈا کو ایک کمیونسٹ ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ایک شدت پسند‘ جس نے کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم کی رہاش گاہ کا گیٹ ایک پک اپ ٹرک سے توڑ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کی تھی‘ بھی ان سازشی تھیوری والی ویب سائٹس کا شوقین تھا، جن میں اس طرح کی تھیوریاں گردش کرتی رہتی ہیں۔
کینیڈا میں حالیہ برسوں میں ''تنگ نظر قوم پرستی‘‘کے جذبات بھی بڑھے ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں ان میں اضافہ ہوا، لیکن مجموعی طور پر پورے مغرب میں اس طرح کی تنگ نظر قوم پرستی بڑھی ہے۔ اس قوم پرستی کو بعض لوگ سیاسی مقاصد اور عوام میں مقبولیت کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یورپ میں پہلے ہی یہ پالیسی اپنا کر کچھ لوگ پارلیمان تک جا پہنچے ہیں۔ کینیڈا میں بھی ایسے عناصر ان کے نقش پا پر چل کر سیاسی فائدہ اٹھانے کے آرزو مند ہیں۔ یہ ایک افسوسناک اور پریشان کن بات ہے، جس کا تدارک ضروری ہے۔