اس وقت امریکہ کی عالمی توجہ کا نقطہ ماسکہ چین ہے۔ اس باب میں سرد جنگ اب کوئی خفیہ حکمت عملی نہیں، بلکہ اس کا کھلا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس جنگ میں مرکزی کردار تو امریکہ ہی ادا کرے گا، مگر اس کی ترجیح یہ ہے کہ اس جنگ میں ترقی یافتہ دنیا کے امیر اور خوشحال ممالک بھی ہراول دستے کا کردار ادا کریں۔ دوسری طرف تیسری دنیا کے غریب ممالک کو بھی اس قافلے میں شامل کرنے کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک‘ جو چین کے بہت زیادہ قریب ہیں، اور اس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں، کو بھی شامل کرنے کی کوششیں تیز تر ہو چکی ہیں۔ یہ سرد جنگ کئی ممالک کو برباد کر دے گی، اور کچھ کا مقدر بدل دے گی۔ گویا اس جنگ میں کچھ ممالک کے لیے لا محدود امکانات بھی ہیں، اور بے شمار خطرات بھی۔ اب اس بات کا انحصار ان غریب ممالک کی لیڈرشپ پر ہے کہ وہ دنیا کی نئی صف بندیوں میں اپنے لیے کس مقام اور کردار کا تعین کرتے ہیں۔ سرد جنگ کا یہ جو ڈول ڈالا جا رہا اس پر ترقی یافتہ دنیا کی رائے عامہ متفق نہیں ہے۔ خود ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس موضوع پر تقسیم ہے۔ امریکی رائے عامہ تو ایک طرف خود حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اس پر بڑا اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف رائے کا اظہار گزشتہ دنوں بڑے برنی سینڈرز نے بڑے مدلل اور جان دار انداز میں کیا ہے۔ سینڈرز نے صورت حال کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج امریکہ کو ایسے عالمی چیلنجز کا سامنا ہے، جن کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ان عالمی چیلنجز میں موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض، جوہری پھیلاؤ، بڑے پیمانے پر معاشی عدم مساوات، دہشت گردی، بدعنوانی اور آمریت جیسے گمبھیر مسائل شامل ہیں۔
یہ مسائل در حقیقت دنیا کے مشترکہ عالمی چیلنجز ہیں۔ کوئی ایک ملک تن تنہا یہ مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب ملکوں کو مل کر کام کرنا ہو گا‘ اور ان ملکوں میں زمین پر سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین بھی شامل ہے۔
لہٰذا، یہ تکلیف دہ اور خطرناک بات ہے کہ واشنگٹن میں تیزی سے ایک ایسا اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے، جو امریکہ چین تعلقات کو ''زیرو سم‘‘ معاشی اور فوجی جدوجہد کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس نظریہ کے پھیلاؤ سے ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا ہو گا، جس میں دنیا کو اس وقت جس تعاون کی اشد ضرورت ہے، اسے حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔
یہ قابل ذکر بات ہے کہ اس مسئلے پر روایتی دانش مندی کتنی جلدی بدل گئی ہے۔ ابھی دو دہائیاں قبل، ستمبر 2000 میں، کارپوریٹ امریکہ اور ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے چین کو مستقل طور تجارتی درجہ دینے کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اس وقت امریکی چیمبر آف کامرس، نیشنل ایسوسی ایشن آف مینوفیکچررز، کارپوریٹ میڈیا اور عملی طور پر واشنگٹن میں اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ پالیسی کے ہر پنڈت نے اصرار کیا کہ امریکی کمپنیوں کی مسابقتی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو چین کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ تک رسائی دی جائے‘ اس طرح چین کی معیشت میں لبرلائزیشن کے آنے کے ساتھ ہی جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے چین کی حکومت میں بھی لبرلائزیشن آ جائے گی۔
اس پوزیشن کو بظاہر واضح اور درست دیکھا گیا تھا۔ 2000ء کے موسم بہار میں سینٹرسٹ بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے ماہر معاشیات نکولس لارڈی نے یہ دلیل دی تھی کہ مستقل تجارتی درجہ دینے سے چین کی قیادت کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ چینی قیادت بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے، اور معاشی اصلاحات کے لیے اہم معاشی اور سیاسی خطرہ مول لے رہی ہے، لہٰذا اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ضروری ہے۔
دوسری طرف یہ درجہ دینے سے انکار کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکی کمپنیاں ان وعدوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی، جو چین نے عالمی تجارت کی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کا رکن بننے کے لیے کیے تھے۔ اسی وقت قدامت پسند امریکی انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے سیاسی سائنس دان نورمن آئن سٹائن نے اسے زیادہ دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا ''چین کے ساتھ امریکی تجارت ایک اچھی چیز ہے۔ یہ امریکہ کے لیے اچھی چیز ہے، اور چین میں آزادی کے فروغ کے لیے لازم ہے‘‘۔
لیکن یہ خیال مجھ پر اتنا واضح نہیں تھا۔ اسی وجہ سے میں نے اس تباہ کن تجارتی معاہدے کی مخالفت کی‘ لیکن جو کچھ مجھے معلوم تھا، اور بہت سارے محنت کش لوگوں کو معلوم تھا، وہ یہ تھا کہ امریکی کمپنیوں کو چین میں منتقل ہونے اور انتہائی کم معاوضوں پر مزدوروں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دینے سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اچھی تنخواہ والی ملازمتیں ضائع ہو جائیں گی‘ اور امریکی کارکنوں کو کم اجرت والے کام کرنا پڑیں گے۔ اور بالکل یہی ہوا۔ اس کی وجہ سے دو ملین امریکی ملازمتیں ضائع ہو گئیں، چالیس ہزار سے زیادہ فیکٹریاں بند ہو گئیں، اور امریکی کارکنوں کو اجرت کی جمود کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن دوسری طرف اس کی وجہ سے کارپوریشنوں نے اربوں ڈالر کمائے اور ایگزیکٹوز کو زبردست انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
دریں اثنا، یہ سب پر ظاہر ہے کہ چین میں آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری نہیں آئی۔ اس کے بر عکس ان مطالبات پر سختی سے قابو پایا گیا‘ اور عالمی سطح پر یہ ملک تیزی سے جارحانہ ہوتا چلا گیا ہے۔ واشنگٹن میں روایتی دانش مندی کا پینڈولیم اب دوسری طرف گھوم رہا ہے۔ اب یہ چین کے ساتھ تجارت کے مواقع کے بارے میں بہت زیادہ پُرامید ہونے سے دور ہو چکا ہے‘ اور اب ان لوگوں کو خطرات زیاہ نظر آرہے ہیں، ایک ایسے چین سے جو پہلے سے زیادہ امیر اور مضبوط ہے۔
فروری 2020 میں، بروکنگز کے تجزیہ کار بروس جونز نے لکھا تھا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت، توانائی کے سب سے بڑے صارف اور دوسرے بڑے دفاعی خرچ کنندہ کی حیثیت سے چین کے عروج نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ اور اس بڑی طاقت کے ساتھ مقابلہ آنے والے دور میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کچھ ماہ قبل سینیٹر ٹام کاٹن نے چین کی طرف سے اس خطرے کا موازنہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کی طرف سے پیش آنے والے خطرے سے کیا۔ اس نے کہا کہ ایک بار پھر ایک طاقت ور غاصب دشمن کا مقابلہ کرنا ہے، جو یوریشیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اورجو ورلڈ آرڈر کو دوبارہ تشکیل دینا چاہتا ہے‘ اور جس طرح واشنگٹن نے ماسکو کے ساتھ تنازع کے دوران تیاری کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی قومی سلامتی کی تعمیر کی تنظیم نو کی تھی، اسی طرح آج امریکہ کی طویل مدتی معاشی، صنعتی اور تکنیکی کوششوں کو جدید بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ کمیونسٹ چین کے لاحق بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اور پچھلے مہینے امریکی قومی سلامتی کونسل کے ایشیائی پالیسی کے اعلیٰ عہدے دار، کرٹ کیمبل نے کہا تھا کہ وہ دور جس کو چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر ''انگیجمنٹ‘‘کے طور پر بیان کیا گیا تھا، ختم ہو چکا ہے‘ اور اس سے آگے کا راستہ مقابلے کا راستہ ہو گا۔ بیس سال پہلے، چین کے بارے میں امریکی معاشی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ غلط تھی۔ آج اس اتفاق رائے کو تبدیل کر دیا گیا ہے، لیکن یہ ایک بار پھر غلط ہے۔ (جاری)