قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ یہ مقولہ عموماً افلاطون اور دیگر یونانی فلسفیوں سے منسوب کیا جاتا ہے مگر زیادہ مستند روایت کے مطابق یہ مقولہ کچھ یوں ہے کہ تحریری قوانین مکڑی کے جالے کی طرح ہوتے ہیں وہ غریب اور کمزور کو پکڑتے ہیں لیکن امیر اور طاقتور ان کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ یہ بات چھ صدی قبل مسیح کے ایک شہزادے انکارسس سے منسوب ہے۔ اس سے ملتی جلتی بات انیسویں صدی کے فرانسیسی ناولسٹ Honoré de Balzac نے کہی تھی۔ قانون مکڑی کے جالے ہیں‘ جن سے بڑی مکھیاں نکل جاتی ہیں اور چھوٹی پھنس جاتی ہیں۔ یہ مقولہ خواہ کسی کا بھی ہو ایک بہت ہی تلخ حقیقت کا اظہار کرتا ہے۔ اس تلخ حقیقت کا دنیا کے کئی ممالک کو سامنا ہے‘ لیکن یہ تلخ حقیقت جس خوفناک شکل میں ہمارے ہاں میں موجود ہے شاید ہی کسی اور ملک میں موجود ہو۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اب پاکستان میں اربابِ اختیار اور فیصلہ سازوں کی سطح پر بھی گاہے اس حقیقت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ اور اس پر کھلے عام بات ہونے لگی ہے ورنہ ماضی میں تو یہ عالم تھا کہ اس طرح کی بات کرنے والوں کو سماج دشمن اور ملک دشمن تک قرار دیا جاتا تھا۔ اب بھی جو اس موضوع پر بات چلی ہے تو یہ بات کی حد تک ہی ہے‘ عملی طور پر اس باب میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا مگر یہ بھی کیا کم ہے کہ بات کا آغاز تو ہوا ہے۔ اب اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے بھی اس پر بات کرنی شروع کی ہے جو مرض کی موجودگی کا اعتراف اور اس کی تشخیص کی طرف ایک قدم ہے‘ اور قابل تحسین ہے۔ ابھی حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے شکر گڑھ بار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ''کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے بالاتر نہیں۔ اگر کوئی جج بلا تفریق انصاف کے تقاضے پورے نہ کرے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جس ملک میں یکساں قانون ہو وہاں ترقی ہوتی ہے‘ اور غربت ختم ہو جاتی ہے‘‘۔
جج صاحب کے ارشادات و فرمودات یونیورسل ہیں‘ جن کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ تصور اس اصول پر قائم ہے کہ قانون ہر شخص کو بلاامتیاز تحفظ فراہم کرے۔ اس اصول کو مختلف ملکوں میں اپنے اپنے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں‘ قانون کے تحت سب برابر ہیں‘ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں‘ اور قانونی برابری اور قانونی مساوات جیسے سنہری لفظوں میں اس تصور کو بیان کرنے اور قانون و آئین میں شامل کرنے کی چند مثالیں ہیں۔ اس اصول کا سادہ زبان میں مطلب یہ ہے کہ ایک سماج میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ ایسی حکمرانی جو انصاف کی فراہمی کے لیے طے شدہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کرتی ہو۔ اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی ایک شخص یا اشخاص کے کسی گروہ یا طبقے کو دوسرے شخص یا اشخاص کے کسی گروہ کے مقابلے میں کوئی خاص مراعات حاصل نہ ہوں۔ یہ قانون کے سامنے سب کی برابری کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ یہ اصول کسی بھی آزاد معاشرے کی تشکیل کی بنیادی شرط ہے۔ اس اصول کو عالمی فورمز پر دنیا کے قریب قریب تمام ممالک نے تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں اس کو تسلیم کیا ہے۔ یونیورسل ڈیکلریشن کے آرٹیکل سات میں یہ اصول پوری وضاحت کے ساتھ درج ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور کسی بھی ملک کا ہر شہری بغیر کسی امتیاز کے قانون کے تحفظ کا حق دار ہے۔ گویا قانون کی حکمرانی ایک ایسا اصول ہے‘ جس کے تحت ایک معاشرے کے تمام ممبران کو برابر تصور کیا جاتا ہے۔
دنیا کے ہر کامیاب ملک میں اس اصول کو ایک بنیادی اور رہنما اصول کے طور پر اپنایا گیا اور تاریخی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی سماج میں اس اصول کو تسلیم کرنے کے بعد ہی سماجی و معاشی ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔ جن سماجوں میں اس اصول کو تسلیم نہیں کیا گیا وہ آج بھی پچھڑے ہوئے اور پسماندہ سماج ہیں۔امریکہ میں 1776 ء میں تھامس جیفرسن نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا کہ تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا گیا ہے۔ اس سچائی کو امریکی انقلاب کے شروع میں ہی تسلیم کیا گیا اور آگے چل کر یہ اصول امریکہ کی خود مختاری کے اعلامیہ میں شامل کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے امریکہ میں عدم مساوات کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا اور یہ بغیر مکمل انقلاب کے ممکن بھی نہیں ہے مگراس سے قانون کی حکمرانی اور سماجی برابری کے تصورات کو تقویت ملی جس سے یہاں شہری آزادیوں اور سیاسی حقوق کو قانونی تحفظ ملا۔ امریکی سپریم کورٹ نے کئی معرکہ آرا فیصلے لکھے‘ جن میں سماجی و معاشی مساوات کے اصولوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دوسری طرف سوویت یونین اور چین میں سوشلسٹ انقلاب کا نقطہ ماسکہ ہی سماجی و معاشی مساوات اور ریاست کے سامنے سب شہریوں کی برابری کا اصول تھا۔
شہری اور سیاسی حقوق کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے لازم ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی وہ اقسام ہیں جو ایک فرد کی آزادیوں کو تحفظ بخشتی ہیں۔ شہری آزادیوں کو خطرہ خواہ حکومت وقت کی طرف سے ہو‘ سماجی تنظیموں ‘ برادریوں‘ اور قبیلوں کی طرف سے ہو یا پھر افراد کی طرف سے ہو‘ ان افراد میں بااثر اور مراعات یافتہ طاقتور افراد سے لے کر غنڈے اور بد معاش تک‘ سب سے شہریوں کو تحفظ فراہم لازم ہے۔ ان حقوق کے تحفظ کا مطلب اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ ایک فرد تمام شہری اور سیاسی معاملات میں بغیر کسی امتیاز یا جبر کے حصہ لے سکے۔
قانون کے تحت مساوی انصاف کا ماٹو واشنگٹن ڈی سی میں امریکہ کی سپریم کورٹ کی عمارت کے داخلی دروازے کے اوپرموٹے حروف میں درج ہے۔ اس ماٹو نے امریکی قانونی نظام کو متاثر کیا ہے اور قانونی طور سماجی و معاشی انصاف کی لڑائی لڑنے کی گنجائش پیدا کی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ لڑائی مکمل سماجی و معاشی انصاف نہ قائم کر سکی مگر اس نے بہت سارے دکھوں کا مداوا کیا ہے اور بہت سوں کی اشک شوئی ہوئی ہے لیکن یہ کام ہمارے ہاں نہ ہو سکا‘ جہاں غریب اپنی غربت کی وجہ سے ان اداروں تک پہنچے کی سکت ہی نہیں رکھتا اور اگر پہنچ بھی جائے تو اس پراسیس میں اس کی دو نسلیں اور ان کا کل سرمایہ و محنت لگ جاتے ہیں۔
سب کے لیے برابری کے مواقع کی ہم صرف بات کرتے ہیں مگر اس کا عملی اطلاق غریب اور محروم طبقات کا ادھورا خواب ہے۔ برابری کے مواقع کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی موقع نکلنے کی صورت میں سماج کے تمام افراد کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔ اس سلسلے میں مصنوعی رکاوٹیں‘ تعصبات اور ترجیحات کو ایک طرف رکھ کر حقدار کو اس کا حق دیا جائے۔ جس کی ایک سادہ مثال روز گار کے مساوی مواقع ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ نوکری اس شخص کو ملے جو رشوت‘ سفارش اور اثر و ر سوخ کے بغیر ہی اس کا حقدار ہے۔
میرٹوکریسی کا ذکر اکثر وزیراعظم پاکستان کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی شخص کو اس کی صلاحیت‘ ٹیلنٹ‘ کوشش اور ماضی کے تجربے یا کارکردگی کی بنیاد پر کوئی معاشی فائدہ‘ سیاسی عہدہ یا روزگار دیا جانا چاہیے۔ سماجی رتبے‘ دولت ‘ طاقت‘ خاندانی یا سیاسی اثرو رسوخ کی بنیاد پر ایسا نہ ہو‘ مگر ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے‘ جس کی موجودگی میں میرٹوکریسی کا تصور محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جاتا ہے۔