امریکہ نے بگرام کا اڈا خالی کر دیا۔ امریکی فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا جا چکا۔ امریکی مان چکے کہ اب افغانستان میں ان کا قیام بے معنی ہے۔ اس صورت حال پر تبصروں و تجزیوں کی بھرمار ہے۔ مجھے اس موقع پر ایک امریکی لکھاری سٹیوکول کا ایک مضمون یاد آتا ہے، جو اس نے اس موضوع پر اس سال موسم بہار میں لکھا تھا۔ یہ مضمون ''دی نیویارکر‘‘ میں چھپا تھا۔ کول لکھتا ہے کہ سن دو ہزار دس کے اوائل میں، سوویت یونین کے آخری رہنما میخائل گوربا چوف نے صدر بارک اوباما کو افغان جنگ کے بارے میں مشورہ دیا تھا۔ یہ مشورہ ایک تلخ تجربے کا نتیجہ تھا۔ سال انیس سو اناسی میں سوویت یونین افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں پھنس چکا تھا۔ مجاہدین کی پشت پر امریکہ تھا۔ گوربا چوف نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پولٹ بیورو میں موجود جنگ باز لوگوں کی دلیل کو مسترد کر کے اپنی فوجوں کی واپسی کا حکم دیا، جس پر عمل درآمد 1989 میں مکمل ہوا تھا۔ اس تجربے کی روشنی میں گوربا چوف نے اوباما کو خبردار کیا اور کہا تھا کہ امریکہ کو ایک ''بڑی سٹریٹیجک ناکامی‘‘ کا خطرہ ہے۔ چوف نے افغان قضیے کے سیاسی حل اور فوجی دستوں کی واپسی کی سفارش کی تھی۔ گوربا چوف نے بیک وقت دو راستوں کے استعمال کا مشورہ دیا تھا‘ جس میں ایک طرف فوجیوں کے انخلا کا عمل شروع کیا جائے، اور دوسری طرف طالبان اور دوسرے افغان دھڑوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ملک کے اندر ''قومی مفاہمت‘‘ کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔
اوباما نے اسی سال کے آخر میں، طالبان کے ساتھ خفیہ امن مذاکرات کا اختیار دے دیا تھا، اور تب سے ہی امریکہ گوربا چوف کی تجویز پر عمل کر رہا ہے؛ اگرچہ اس نے یہ کام بہت سست روی سے بھاری اخراجات اور انسانی زندگیوں کی قیمت پر کیا ہے۔ اگست دو ہزار دس میں افغانستان میں امریکی موجودگی تقریباً ایک لاکھ فوجیوں کے قریب پہنچ گئی تھی، اور اوباما کے دورِ صدارت کے اختتام تک وہ دس ہزار سے بھی کم رہ گئے تھے‘ مگر بد قسمتی سے اوباما انتظامیہ کے طالبان سے مذاکرات ناکام ہو گئے، اس طرح فوجوں کے انخلا کے ساتھ ساتھ قومی مفاہمت کا فارمولا بھی نام ہو گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے تو انہوں نے مذاکرات کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ سن دو ہزار بیس کے اوائل میں ٹرمپ کے ایلچی زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس میں یکم مئی دو ہزار اکیس تک تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کا عہد بھی شامل تھا۔
اس طرح آگے چل کر موجودہ صدر جو بائیڈن کو وراثت میں جو کچھ ملا‘ اس کا بوجھ اٹھانا کافی مشکل تھا۔ اس بوجھ میں پہلی بڑی چیز ناکام مذاکرات کی ایک پوری دہائی تھی۔ دوسرا بڑا بوجھ ٹرمپ کا کیا ہوا ایک معاہدہ تھا، جس سے طالبان کو تیزی سے فائدہ پہنچ رہا تھا۔ تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ ملک میں محدود امریکی فوجی تعینات تھے، جس کی وجہ سے طالبان کے خلاف فوری موثر کارروائی ممکن نہ تھی‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کو مکمل طور پر چھوڑنے کے لیے ان کو ایک حتمی تاریخ کا سامنا تھا، جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں طالبان کی جانب سے نئے حملوں کا خطرہ در پیش تھا۔ اس پس منظر میں بائیڈن نے نیٹو لیڈروں سے مشاورت کی۔ افغانستان میں اپنی حمایت یافتہ حکومت سے مشورہ کیا‘ اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھتے ہوئے افغانستان میں مفاہمت کی کوشش جاری رکھی‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بائیڈن نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا کہ امریکہ اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کا خاتمہ کرے گا، اور امریکی اور نیٹو کے تمام فوجی گیارہ ستمبر تک پیچھے ہٹ جائیں گے۔
بائیڈن نے کہا، ''ہم بیس سال پہلے امریکہ پر ہونے والے ایک خوفناک حملے کی وجہ سے افغانستان گئے تھے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم 2021 میں وہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس جنگ میں امریکی مداخلت کی نگرانی کرنے والے چوتھے صدر ہیں، اور وہ یہ ذمہ داری پانچویں صدرکو نہیں منتقل کریں گے۔
پینٹاگون اور بہت سارے ریپبلکنز کا مؤقف ہے کہ بائیڈن کو اس وقت تک فوجیوں کی واپسی ملتوی کرنی چاہئے تھی، جب تک کہ طالبان اور کابل کے مابین ایک سیاسی معاہدہ نہیں ہو جاتا، یا جب تک کہ طالبان جنگ بندی یا کم از کم افغان فورسز اور عام شہریوں کے خلاف تشدد بند کرنے پر راضی نہیں ہو جاتے‘ لیکن بائیڈن کے اس نتیجے پر بحث کرنا مشکل ہے کہ ''افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے یا توسیع دینے کے چکر کو جاری رکھنا اور انخلا کے لیے مثالی حالات پیدا ہونے کی امید کرنا پاگل پن ہو گا‘‘۔
چنانچہ صدر نے واضح وجوہات کی بنا پر، آئندہ گیارہ ستمبر سے پہلے جنگ کے خاتمہ کا اعلان کیا۔ اس جنگ میں ہزاروں امریکی اور لاکھوں افغان جانیں چلی گئیں‘ لیکن یہ یقینا افغان عوام ہی ہیں، جنہوں نے اپنے ملک میں امریکہ کے ناکام عزائم کی سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے‘ اور انہیں اب ایک اور طالبان غلبے اور خانہ جنگی کا سنگین خطرہ درپیش ہے‘ اور یہ چالیس سے زیادہ کی بیرونی جارحیتوں اور پراکسی وارز کا نتیجہ ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کا اصرار ہے کہ کابل میں آئینی حکومت کی سفارتی، انسانی اور سیاسی امداد جاری رہے گی‘ اور شہریوں کی ایک نسل، اور خاص طور پر خواتین کو، جو نیٹو سکیورٹی کے تحفظ کے تحت با اختیار ہوئی ہیں، اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا‘ لیکن آثار یہ نہیں لگتے۔ بچیوں کے سکولوں پر پہلے ہی حملے شروع ہو چکے ہیں۔
جب گوربا چوف نے 1988 میں سوویت انخلا کی صدارت کی تھی، تو سی آئی اے اور بہت سارے تجزیہ کاروں نے پُر اعتماد انداز میں پیش گوئی کی تھی کہ مجاہدین جن کو امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب نے سوویت یونین کے خلاف مسلح کیا ہے، تیزی سے اقتدار سنبھال لیں گے۔ در حقیقت، اس وقت کابل میں سیکولر جھکاؤ رکھنے والی حکومت ابھی تک ماسکو کی مالی مدد، اور سوویت فوجی مشیروں کی مدد سے چل رہی تھی۔
اس حکومت کے دوران گوربا چوف نے ''ہر طرف سے مخلص اور ذمہ دارانہ تعاون‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ ایک ایسے سیاسی تصفیہ تک پہنچا جائے، جو انسانیت کی تباہی کو روک سکے اور خطے کو استحکام بخشے۔ گوربا چوف کو ایسا تعاون نہیں ملا۔ پاکستان اور امریکہ نے مکمل فتح حاصل کرنے کی کوشش کی، اور سوویت یونین کے خاتمے کے فوراً بعد، 1991 میں، کابل حکومت نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کو آج کا دن دیکھنا پڑا۔
پھر بھی، اگر سوویت یونین اور امریکہ کے مشترکہ تجربے سے کوئی سبق کشید کیا جا سکتا ہے، تو وہ یہ ہو سکتا ہے کہ افغانستان کے بارے میں بیرونی پیش گوئیاں عموماً غلط ثابت ہوتی ہیں۔ گوربا چوف نے گیارہ سال پہلے لکھا تھا، ''موقع موجود ہے، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت کچھ درکار ہے: ''حقیقت پسندی، استقامت اور ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سیکھنے کے عمل میں دیانت داری‘‘۔ یہ موقع آج ایک بار پھر موجود ہے، مگر اس کے لیے شرائط بھی وہی ہیں، جو گوربا چوف نے بیان کر دی تھیں۔ سوویت انخلا کے وقت افغانستان میں امن کا بڑا دار و مدار پاکستان اور امریکہ پر تھا، اور جنیوا اکارڈ پر عمل کرنے پر تھا۔ اس معاہدے پر عمل نہ ہوا۔ نتائج سب کے سامنے آئے۔ آج بھی صورت حال اس سے ملتی جلتی ہے، مگر امن کا دار و مدار امریکہ اور پاکستان پر نہیں‘ اب اس میں روس، چین اور بھارت جیسے علاقائی کھلاڑیوں کا کردار بھی اہم ہے۔