تاریخ میں کئی سلطنتیں بنی اور بگڑی ہیں۔ ان سلطنتوں کے عروج و زوال کی طویل داستانیں ہیں‘ مگر اکثر دانشور جب دنیا کی تاریخ میں سلطنتوں کے عروج و زوال کے بارے میں لکھتے پڑھتے ہیں، تو رومن ایمپائر کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ایک قدیم اور کامیاب سلطنت تھی جس کا عروج قابل رشک اور زوال انتہائی درد ناک تھا۔ دنیا میں رومن ایمپائر کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس کے زوال کے گوناگوں اسباب بیان کیے جا چکے ہیں۔ مختلف تاریخ دانوں نے اپنے اپنے انداز فکر اور نقطہ نظر کے مطابق اس عظیم سلطنت کے عروج و زوال کے اسباب بیان کیے۔ ان میں بہت ساری باتوں پر اتفاق پایا جاتا ہے، مگر ایسی باتوں کی بھی کمی نہیں، جن پر تاریخ دانوں میں وسیع پیمانے پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ رومن ایمپائر کے زوال کی آٹھ بڑی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔
اس سلطنت کے زوال کی سب سے مقبول تھیوری یہ ہے کہ اس سلطنت پر بہت زیادہ بیرونی حملے ہوئے تھے۔ تین سو سے زائد وحشی قبائل سلطنت پر حملہ آور تھے۔ سلطنت روم جرمن قبائل سمیت دوسری قوتوں کے ساتھ صدیوں سے حالت جنگ میں تھی۔ سینکڑوں چھوٹی بڑی لڑائیوں کے بعد آخرکار شہنشاہ روم کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر رومن ایمپائر پر پھر کبھی اٹلی سے حکمرانی نہیں ہوئی‘ لیکن یہ صورتحال تو وہ تھی، جو سب کو سامنے نظر آ رہی تھی کہ جب فوج فوج سے ٹکرا رہی ہو، تو ایک فوج شکست خوردہ ہوتی ہے، اور دوسری فتح یاب۔ یہ ایک سادہ فارمولہ ہے لیکن فوجوں کے اس تصادم کے پس منظر میں کہیں ایسے بڑے پیچیدہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں، جو دراصل کسی شکست یا فتح کا باعث بنتے ہیں۔ رومن ایمپائر کے زوال کی جو سب سے بڑی وجہ بتائی جاتی ہے‘ یہ ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے روم ایک مدت سے تباہی اور بربادی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مسلسل جنگوں نے اس سلطنت کے خزانے خالی کر دیے تھے۔ ناقابل برداشت مہنگائی تھی۔ غریب اور امیر کے درمیان ایک ناقابل تصور خلیج تھی۔ حکومت کا سارا زور ٹیکسوں پر تھا۔ ٹیکسوں کے جبر سے بچنے کیلئے کہیں لوگ بھاگ کر دور دراز کے علاقوں میں اپنی چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں قائم کرچکے تھے۔ اس معاشی تباہی کے درمیان سلطنت روم افرادی قوت کی شدید کمی کا شکار ہو گئی تھی۔ روم اس وقت مکمل طور پر غلاموں کی محنت پہ انحصار کرتا تھا اور اس کی فوجی طاقت بھی اپنی ضروریات کے لیے غلاموں پر انحصار کرتی تھی‘ لیکن اس نئی معاشی صورتحال میں‘ جو دوسری صدی عیسوی میں پیدا ہوئی‘ روم میں غلاموں کی دستیابی ختم ہو چکی تھی اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خزانے خشک ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پانچویں صدی میں یہ صورتحال اور زیادہ بگڑ گئی، جس کی وجہ سے رومن ایمپائرکی براعظم یورپ پر اپنی گرفت کمزور ہونے لگی‘ چنانچہ کچھ تاریخ دان اس عظیم سلطنت کے زوال کی دوسری بڑی وجہ غیرضروری فوجی اخراجات اور سلطنت کا پھیلاؤ بھی قرار دیتے ہیں۔ اپنے عروج کے زمانے میں رومن ایمپائر بہت زیادہ پھیل چکی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرنے اور اس کی حفاظت کیلئے فوجوں کی تعیناتی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس ایمپائر کی تباہی کی ایک بڑی وجہ بے تحاشا بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام بھی تھا۔ امریکہ کے مقابلے میں رومن ایمپائر کا قصہ بہت پرانا ہے۔ قدیم روم کے حالات آج کے حالات سے مکمل طور پر مختلف تھے‘ اس لئے قدیم روم کے زوال کے اسباب بڑی حد امریکی ایمپائر کے زوال کے اسباب سے مختلف ہیں، لیکن کئی ایک وجوہات میں مشابہت بھی ہے۔
امریکہ کے سنجیدہ دانشوروں کا خیال ہے کہ امریکی ایمپائر کا زوال آج نہیں شروع ہوا۔ اس زوال کا آغاز دوسری جنگ عظیم سے شروع ہو گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی دولت میں امریکی ایمپائر کا حصہ کم ہونا شروع ہوا۔ انیس سو ستر میں امریکہ کا دنیا کی دولت میں حصہ صرف 25 فیصد رہ گیا تھا جو تب بھی کافی بڑا حصہ تھا، لیکن اصل بات یہ تھی کہ دولت کے حصے میں کمی کی وجہ سے دنیا میں امریکہ کی فوجی طاقت اور برتری میں بھی کمی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے نیشنل ڈیفنس سٹریٹیجک کمیشن نے امریکہ کی فوجی طاقت کے حوالے سے ایک طویل رپورٹ شائع کی تھی۔ تقریباً سو صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا گیا تھاکہ امریکہ کا دنیا میں سٹریٹیجک غلطی کے لیے جو مارجن ہوتا تھا وہ خطرناک حد تک کم ہوا ہے۔ مخالفین کو شکست دینے اور عالمی وعدے پورے کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس باب میں امریکی صلاحیت کے بارے میں دنیا میں بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں روس اور چین نے دنیا میں امریکی اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ بجٹ میں کٹوتی اور سیاسی عزم میں کمی کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اسے نیشنل سکیورٹی کا بحران کہا جا سکتا ہے۔ امریکی فوجی طاقت کو کم کرنے کے لیے روس اور چین علاقائی تسلط قائم کر رہے ہیں، اور وہ جارحانہ فوجی قوت کو بڑھا رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے علاوہ کئی دوسرے ذرائع بھی انہی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں امریکی فضائیہ کے اعلیٰ عہدیدار جنرل فرینک نے اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ روس اور چین کے مقابلے میں امریکی فضائیہ کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ فوجی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی فوجی طاقت میں یہ زوال بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اس کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا، جب سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہتھیار بنانے کے سینکڑوں منصوبے منسوخ کر دیے گئے تھے۔ فوجی طاقت میں زوال کی ایک بڑی وجہ بے تحاشہ فوجی اخراجات تھے، جس کا سبب باہر کے ممالک میں فوج کشی تھی۔ عراق اور افغانستان میں جنگوں کی وجہ سے فوجی اخراجات چار اعشاریہ چار ٹریلین ڈالر سے بڑھ چکے تھے۔ ایک مثال امریکہ کا دو ہزار گیارہ کا فوجی بجٹ ہے۔ یہ بجٹ اس وقت تقریباً پوری دنیا کے مجموعی فوجی بجٹ کے برابر تھا‘ اور یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی فوجی طاقت کا سب سے بڑا بجٹ تھا۔ ایمانویل ٹاڈ ایک ذہین تاریخ دان ہیں۔ وہ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فوجی سرگرمیوں یا جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ بظاہر طاقت میں اضافہ نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ طاقت میں زوال ہو سکتا ہے، جو ظاہری طاقت کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ ان کے خیال میں اس سے ملتی جلتی صورتحال ہم نے انیس سو ستر میں سوویت یونین کے ساتھ دیکھی تھی یا اس سے پہلے رومن ایمپائراور دیگر سلطنتوں میں، جنہوں نے اپنے انہدام سے فوراً پہلے اپنی فوجی سرگرمیوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا تھا‘ لیکن فوجی طاقت میں کمی امریکی زوال کا واحد اور فیصلہ کن عنصر نہیں، بلکہ محض ایک اہم عنصر ہے۔ دوسرے عناصر میں ثقافتی، معاشی اور سفارتی محاذ پر اخراجات اور ترجیحات میں کمی اس زوال کے اہم اسباب ہیں، جن کا جائزہ آئندہ کالموں میں لیا جائے گا۔