میں نے گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ پچاس کی دہائی میں دنیا کی تقسیم اور صف بندی امریکہ اور سوویت یونین کے گرد گھومتی تھی۔ اس صف بندی میں تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک اپنی اپنی خواہشات اور ضروریات کے تحت شامل ہوتے تھے۔ اس دور میں پاکستان ایشیا کا واحد ملک تھا، جو بیک وقت بغداد پیکٹ اور سیٹو جیسے دو عالمی معاہدوں میں شامل ہو گیا تھا۔ ان معاہدوں میں شمولیت نے پاکستان کی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اس عمل نے پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی اور اس کے عوام کے مستقبل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ آج بھی پاکستان پر جو بیت رہی ہے، یہ ان مغربی فوجی اتحادوں میں شمولیت کا شاخسانہ ہے۔ یہ ملک اب تک ان معاہدوں کے گہرے سائے اور اثرات سے نہیں نکل سکا۔ دیگر اثرات کے علاوہ اس کا سب سے بڑا اثر یہ پڑا کہ مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت میں تبدیلی آئی۔ اس تبدیلی کی وجہ سوویت یونین بنا، جو سرد جنگ کے اس عروج کے دور میں نہ صرف عالمی سیاست میں امریکہ کا ہم پلہ تھا، بلکہ سکیورٹی کونسل میں ویٹو کا حق رکھتا تھا، جہاں ان دنوں مسئلہ کشمیر کثرت سے اٹھایا جاتا تھا، اور اس پر ووٹنگ ہوتی تھی۔
پاکستان کی طرف سے ان دو معاہدوں میں شرکت کے اثرات کا پوری طرح اندازہ لگانے کے لیے اس وقت کی سیاست کا تھوڑا سا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ اس وقت کے مخصوص عالمی حالات میں ایک اہم ترین عنصر برصغیر کے بارے میں سوویت یونین کا طرز عمل اور طرز فکر تھا۔ اس سارے قصے میں سب سے اہم عالمی کردار جوزف سٹالن کا تھا۔ سوویت انقلاب کے فوراً بعد پاکستان اور انڈیا کے بارے میں سٹالن کی پالیسی ایک طرح کی لاتعلقی پر مبنی تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چودہ اور پندرہ اگست کو بالترتیب پاکستان اور بھارت کی آزادی دنیا بھر کے میڈیا کیلئے ایک بڑی خبر تھی‘ لیکن اس دن سوویت یونین کے کسی بھی اخبار نے اس بارے میں کوئی خبر نہیں چھاپی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آزادی سے پہلے اس معاملے میں سوویت پالیسی واضح تھی کہ دنیا دو کیمپوں میں تقسیم ہو چکی ہے‘ ایک طرف سامراجی اور جمہوریت دشمن قوتیں ہیں، دوسری طرف سامراج دشمن اور جمہوریت پسند قوتیں ہیں اور ان قوتوں کا دنیا بھر میں تصادم ہے۔ سٹالن نے کہاکہ امریکہ اور برطانیہ نے نام نہاد اعلان آزادی کے باوجود بھارت کو اپنی غلامی اور تابعداری میں رکھا ہوا ہے، اس لیے بھارت ابھی تک ان سامراجی قوتوں کے غلبے سے آزاد نہیں ہوا، جس کا جشن منایا جائے۔ آگے چل کر جب بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے عالمی سطح پر غیرجانبدار تحریک میں متحرک کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو سٹالن نے واضح طور پر بھارت کے اس کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے نزدیک بھارت اینگلوامریکن سرمائے کے زیر اثر تھا، اور ہندوستان کی مقامی سرمایہ داری ''نیشنل بورژوازی‘‘ ملک پر حکومت کر رہی تھی۔ بھارتی جمہوریت کے بارے میں سوویت رویہ یہ تھاکہ مہاتما گاندھی کو سرکاری طور پر ایک رجعت پسند ہندو لیڈر قرار دیا جاتا تھا۔ سوویت پریس میں عام انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کی کامیابی کو دھونس دھاندلی، جھوٹے وعدے اور دھوکا دہی کا نتیجہ قرار دیا جاتا تھا۔ سوویت پریس میں برصغیر کی یہ تصویر پیش کی گئی کہ کہ یہاں پہ بھوک کی وجہ سے وسیع پیمانے پر اجتماعی اموات ہورہی ہیں‘ یہاں کروڑوں لوگ بھوک ننگ اور سامراجی بالادستی کا شکار ہیں چنانچہ سٹالن کی اس سوچ کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کو عالمی سامراجی ایجنڈا قرار دے کر اس سے لاتعلقی اختیارکی گئی، اور اس کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔
کشمیر میں جب پہلی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت سوویت یونین میں جو سوچ تھی اس کی ایک جھلک سوویت پریس میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ مشہور زمانہ نیوز ایجنسی تاس کے نمائندے کی رپورٹنگ میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور واضح طور پر لکھاکہ کشمیر میں دو ہزار کے قریب قبائلی افراد داخل ہوئے ہیں، جن کے پاس جدید ہتھیار اور آلات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نمائندے نے لکھا کہ ان قبائلیوں کو منظم کرنے کا کام ایک برطانوی جنرل نے کیا ہے، جو پاکستان میں رہ کر یہ خفیہ خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس طرح سوویت سرکاری دانشوروں اور اخبارات نے اس جنگ کا تعلق امریکہ اور برطانیہ کے سامراجی عزائم سے جوڑا‘ لیکن انہوں نے سکیورٹی کونسل سمیت سفارتی سطح پر کسی قسم کا سرگرم کردار ادا کرنے کے بجائے لاتعلقی کی پالیسی جاری رکھی۔
کشمیر کے بارے میں سوویت یونین کی پالیسی میں تبدیلی کا آغاز پاکستان کی طرف سے مغربی فوجی اتحادوں میں شمولیت سے ہوا۔ اس سے پہلے کافی عرصہ تک کشمیر میں لڑائی چلتی رہی، اقوام متحدہ میں اس مسئلے پر بحث مباحثہ ہوتا رہا، لیکن سوویت مندوبین نے اس پر اپنی روایتی خاموشی جاری رکھی سوائے ایک آدھ استثنا کے۔ ایک استثنا یہ ہواکہ جب سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر اس تنازع کا نام ''جموں کشمیر کا مسئلہ‘‘ کے بجائے ''پاک بھارت تنازع‘‘ کا نام دینے کی درخواست دی گئی تو سوویت یونین کے مندوب نے اس کی مخالفت میں سخت تقریر کی۔ دوسرا موقع اس وقت آیا جب ثالثی کیلئے امریکی نمائندے کی نامزدگی کی گئی۔ اس کے علاوہ اس مسئلے پر استصواب رائے اور اقوام متحدہ کے کردار کے حوالے سے بھی گاہے اظہار خیال ضرور کیا گیا، مگر جب کبھی اس مسئلے سے متعلق کسی قرارداد پر ووٹنگ کا وقت آیا تو سوویت یونین نے اجلاس سے غیرحاضری کو ترجیح دی۔ اس سفارتی لاتعلقی کے باوجود سوویت پریس شروع دن سے اس مسئلے پر بہت سرگرم کردار ادا کرتا رہا۔ سوویت پریس میں یہ بات رپورٹ کی جاتی تھی کہ آزاد کشمیر میں سوویت یونین اور چین کے خلاف غیرملکی اڈے بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ سوویت پریس میں ایسے بے شمار آرٹیکل چھپے، جن میں یہ تجزیہ کیا گیاکہ جنگ باز مغربی فوجی اتحادیوں کا مفاد کشمیر کے مسئلے کے ساتھ وابستہ ہے، اور وہ اس مسئلے کی آڑ میں سوویت یونین اور چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ تاس کے نمائندے نے دہلی سے 1948 کے ایک ڈسپیچ میں ایک خفیہ عالمی معاہدے کا ذکر کیا، جس کے تحت آزاد کشمیر کو گردوپیش کے علاقوں پرنظر رکھنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ 1951 میں سوویت اخبار پراودا نے بار بارلکھا کہ امریکیوں کا یہ منصوبہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ایک فوجی ہوائی اڈا بنایا جائے۔ اس طرح اس دور کے سوویت اخبارات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مغربی طاقتوں کے مفادات کے حوالے سوویت یونین کی فکرمندی میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا۔ دسمبر 1952 میں جب گراہم رپورٹ پر بات کرنے کیلئے سکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا تو سوویت یونین کی پالیسی میں واضح تبدیلی کے آثار دکھائی دیے۔ سوویت نمائندے نے انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے برطانیہ اور امریکہ کی پاک بھارت معاملات میں مداخلت اور مسئلہ کشمیر کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ اس طرح سوویت یونین نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں اپنی خاموشی کی پالیسی ترک کردی۔ یہ پالیسی آگے چل کر مسئلہ کشمیر پر سخت گیر پالیسی کی شکل اختیار کرگئی اور سوویت یونین نے مسئلہ کشمیر سے متعلق مختلف قراردادوں پر بار بار ویٹو کا استعمال شروع کردیا، جس کا تفصیلی جائزہ کسی آئندہ کالم میں لیا جائے گا۔