میں نے گزشتہ کسی کالم میں پچاس کی دہائی میں کشمیر کے سوال پر سوویت یونین کی پالیسی کا جائزہ لیا تھا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ سٹالن کی پالیسی لاتعلقی پر مبنی تھی، اور شروع میں اس سپر طاقت (سوویت یونین) کی طرف سے برصغیر کی سیاست اور مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔ اس بارے میں آہستہ آہستہ اس کی پالیسی میں ارتقا ہوا۔ پچاس کے اوائل میں لاتعلقی کی جگہ تشویش نے لینا شروع کردی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوویت لیڈر اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر انہوں نے یہ پالیسی جاری رکھی تو امریکہ اور برطانیہ کو خطے میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملے گا، اور برصغیر سامراجی عزائم کا گڑھ بن جائے گا۔
کشمیر کے سوال پر سوویت یونین میں جو تشویش طاری ہونا شروع ہوئی تھی، اس کی ایک جھلک 1951 کے سوویت یونین کے اخبارات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی سال موسم بہار میں مشہور سوویت اخبار پراودا سمیت دوسرے اخبارات میں بار بار ایسے مضامین شائع ہوتے رہے، جن میں زور دیا گیا کہ مغربی طاقتیں گلگت اور آزاد کشمیر میں اپنے فوجی اڈے بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یہ تشویش صرف سوویت اخبارات تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ سوویت سفارتی حلقوں میں بھی دکھائی دی، جس کا اظہار سکیورٹی کونسل میں بھی ہونا شروع ہوا۔ سفارتی حلقوں میں سوویت مندوبین نے اپنی پُرجوش تقاریر میں امریکا اور برطانیہ پر مسئلہ کشمیر کو الجھانے اور پیچیدہ تر بنانے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے۔ اس سال سکیورٹی کونسل میں سوویت نمائندے کی تقریر چوبیس پیراگراف پر مشتمل تھی۔ ان میں سے تئیس پیراگرافس میں انہوں نے کشمیر کے بارے میں امریکی اور برطانوی منصوبوں اور عزائم کا جائزہ لیا، اور ان پر کڑی تنقید کی۔ سوویت نمائندے نے یہ سوال اٹھایا کہ کشمیر کا مسئلہ آج تک حل کیوں نہیں ہوا؟ اور اس سلسلے میں آج تک امریکا اور برطانیہ نے جو منصوبے پیش کیے، وہ نتیجہ خیز ثابت کیوں نہیں ہوئے؟ اس کا خود ہی جواب دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سارے منصوبے کشمیر کے اندرونی معاملات میں امریکا اور برطانیہ کی مداخلت کے منصوبے تھے، اور ان کا بنیادی مقصد پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات کو مزید ہوا دینا تھا۔ سوویت نمائندے نے زور دے کر کہا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی آڑ میں امریکہ اور برطانیہ کشمیر کے اندر اپنے قدم جمانے کیلئے جگہ بنانا چاہتے ہیں۔
اگلے سال یعنی 1952 کے موسم خزاں میں سکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں کشمیر پر چوتھی گراہم رپورٹ پیش کی گئی۔ اس اجلاس میں بھی سوویت نمائندے نے امریکا اور برطانیہ پر تنازع کو مزید الجھانے کا الزام عائد کیا‘ لیکن ان پُرجوش تقاریر کے باوجود اس وقت تک سوویت یونین نے ووٹ کے معاملے میں اپنی روایتی پالیسی برقرار رکھی، جو ووٹنگ کے وقت غیرحاضر رہنے کی پالیسی تھی۔ سکیورٹی کونسل میں ووٹنگ کے حوالے سے سوویت یونین کا یہ کردار جوزف سٹالن نے متعین کیا تھا۔ مارچ 1853 میں جب جوزف سٹالن کی موت ہوئی تو اس وقت سوویت یونین کی برصغیر کے بارے میں غیر جانبداری اور گاہے لاتعلقی کی پالیسی قائم تھی۔ خروشیف کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد رفتہ رفتہ اس پالیسی پر سے سٹالن کا اثر کم ہونا شروع ہوا۔ خروشیف نے تیسری دنیا کے ان ممالک‘ جو نئے نئے نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوئے تھے، کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ خروشیف کی اس پالیسی کے نتیجے میں پہلی بار بھارت سے مختلف وفود کو سوویت یونین کا دورہ کرنے دعوت دی گئی۔ ان وفود میں بڑے بڑے فلمی ستارے، سٹیج کے فنکار، گلوکار، فٹبال کے کھلاڑی اور دوسرے اس طرح کے لوگ شامل تھے۔ خروشیف کا یہ بدلتا ہوا رویہ پاکستانی پالیسی سازوں کیلئے فکرمندی کا باعث تھا۔ سخت ترین سرد جنگ کے اس دور میں حالات نیا رخ اختیار کرنا شروع ہو گئے تھے‘ مگر پاکستان کے پالیسی ساز ان نئے حالات کے اندر اپنے لیے کوئی نیا موقع دیکھنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے نئے حالات میں سوویت یونین کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت کی کوشش کے بجائے مغربی فوجی اتحادوں میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر بہت بڑا ردعمل ظاہر ہوا۔ سب سے زیادہ سخت ردعمل پنڈت جواہر لال نہرو نے دیا۔ نہرو کے اس رد عمل کو ماضی کی روایات کے برعکس سوویت پریس میں بہت ہی نمایاں جگہ ملنی شروع ہوگئی۔ پریس میں یہ لکھا جانے لگاکہ پاکستان سوویت یونین کے خلاف عالمی فوجی اتحادوں میں شمولیت کا فیصلہ کر چکا ہے۔ یہ مغربی طاقتیں پاکستان میں سوویت یونین کے خلاف اڈے بنانا چاہتی ہیں۔ اس مقام پر آ کر سوویت پریس نے کشمیر کے مسئلے پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان باہمی گفتگو اور مکالمے کی ضرورت پر زیادہ زور دینا شروع کردیا، تاکہ بقول ان کے‘ خطے میں سامراجی مداخلت کا راستہ روکا جا سکے۔ 1953 کے اگست میں جب پاکستانی وزیراعظم نے نئی دہلی کا دورہ کیا، تو سوویت اخبارات نے اپنے طویل مضامین میں مسئلہ کشمیر کا پس منظر پیش کرتے ہوئے اس کے پر امن حل پر زور دیا۔ انیس سو پچپن کے آخر میں خروشیف نے انڈیا کا دورہ کیا تو اس وقت کشمیر کے بارے میں میں سوویت پالیسی بدل چکی تھی ۔ 10 دسمبر کو خروشیف نے سرینگر کا دورہ کیا تو اس نے کشمیر کے سوال پر اپنی پالیسی کو بالکل واضح الفاظ میں پیش کیا، جو بھارت کے حق میں واضح جھکائو کی عکاس تھی۔ اس دورے کے دوران سرینگر شہر میں خروشیف کا بے مثال استقبال کیا گیا، اور اس نے کشمیری عوام سے براہ راست خطاب کیا۔ واپس جا کر سوویت سپریم اداروں میں اس نے نئی کشمیر پالیسی ترتیب دی۔ جب تک خروشیف زندہ رہا یہ پالیسی قائم رہی۔ اس کے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں پاکستان نے دو دفعہ سکیورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر اٹھایا۔ دونوں دفعہ سوویت یونین نے بڑے واضح الفاظ میں بھارت کی حمایت کی، اینگلو امریکن قراردادوں کی مخالفت کی، لیکن قراردادوں کو ویٹو نہیں کیا۔ سوویت یونین کی طرف سے ویٹو کا آغاز اس وقت ہوا جب برطانیہ‘ امریکا‘ آسٹریلیا اور کیوبا نے قرارداد پیش کی، جس میں یہ کہا گیا کہ سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے انعقاد کیلئے اقوام متحدہ کو طاقت کے استعمال کا اختیار دیا جائے۔
دوسری قرارداد جنوری 1962 میں ویٹو کی گئی۔ اس کردار کا پس منظر یہ تھا کہ جنوری میں پاکستان نے کہا تھا کہ بھارت آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے، جس سے علاقے میں امن اور سلامتی کیلئے ایک خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ اس پس منظر میں سکیورٹی کونسل میں یہ قرارداد پیش کی گئی کہ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام استصواب رائے کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں۔ اس قرارداد کو سوویت یونین نے ویٹو کیا۔ اس کا یہ جواز پیش کیا کہ اقوام متحدہ کی استصواب رائے کے بارے میں قراردادیں ایک خاص وقت اور حالات میں پیش ہوئی تھیں، اور ان کو پورا کرنے کی کچھ پیشگی شرائط تھیں، جن پر عمل ہونا ضروری تھا، جو نہ ہو سکا۔ آگے چل کر انیس سو اکہتر میں سوویت یونین نے ایک اور قرارداد کو ویٹو کیا۔ اس طرح کل ملا کر سوویت یونین نے انیس سو ستاون، باسٹھ اور اکہتر میں کشمیر سے جڑی تین قراردادوں کو ویٹو کیا۔ ان قرادادوں کا جائزہ کسی اور کالم میں لیا جائے گا۔