روس اور چین کے نئے ''ورلڈ آرڈر‘‘ کے خواب میں کیا پاکستان کے لیے کوئی جگہ موجود ہے؟ اس بات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس نئی فوجی اور نظریاتی صف بندی میں پاکستان کہاں کھڑا ہوتا ہے۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ روس اور چین کے لیے نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل محض خام عالمی طاقت میں نیا توازن قائم کرنے کا معاملہ نہیں ہے‘ یہ نظریات کی جنگ بھی ہے۔ ایک طرف مغربی لبرل روایت عالمگیر انسانی حقوق کے معاملات کو اٹھا رہی ہے، دوسری طرف روسی اور چینی مفکرین یہ دلیل دیتے ہیں کہ مختلف ثقافتی روایات اور تہذیبوں کو مختلف طریقوں سے پروان چڑھنے دیا جانا چاہیے‘ یعنی انسانی حقوق کے بارے میں الگ الگ ثقافتوں اور تہذیبوں کی اپنی اپنی تفہیم‘ سمجھ اور پوزیشن ہے، جسے تسلیم کیا جائے۔ گویا انسانی حقوق کو سب ملکوں میں ایک جیسا مقام اور احترام نہیں دیا جا سکتا۔ ایک روسی دانشور اور صدر پوتن کے سابق مشیر ولادیسلاو سرکوف نے روس کی طرف سے مغربی تہذیب کا حصہ بننے کی بار بار کی بے نتیجہ کوششوں کی مذمت کی ہے۔ اس کے بجائے‘ سرکوف کے مطابق، روس کو اس خیال کو قبول کرنا چاہیے کہ اس نے ''مشرق اور مغرب دونوں کو جذب کر لیا ہے‘‘ اور دونوں کے تجربات سے اپنا نظام وضع کیا ہے جو ''ہائبرڈ ذہنیت‘‘ کا حامل ہے۔ اسی طرح بیجنگ میں حکومت کے حامی مفکرین کا کہنا ہے کہ کنفیوشس ازم اور کمیونزم کے امتزاج کا مطلب یہ ہے کہ چین ہمیشہ ایک ایسا ملک رہا ہے، جو انفرادی حقوق کے بجائے اجتماعیت پر زور دیتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کووڈ پر قابو پانے میں چین کی کامیابی اجتماعی کارروائی اور انفرادی کے بجائے اجتماعی حقوق پر چینی زور کی برتری کی عکاسی کرتی ہے۔ بیجنگ اور ماسکو کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موجودہ ورلڈ آرڈر جمہوریت اور انسانی حقوق کی آڑ میں مغربی نظریات کو دوسرے ممالک پر مسلط کرنے کی امریکی کوشش ہے۔ اگر ضروری ہو تو امریکہ ان نظریات کو فوجی مداخلت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس کے برعکس روس اور چین جس نئے ورلڈ آرڈر کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس کی بنیاد اثرورسوخ کے الگ الگ دائروں پر ہوگی۔ امریکہ کو روس اور چین کے پڑوسی علاقوں پر روسی اور چینی بالادستی کو قبول کرنا پڑے گا، اور ان علاقوں میں جمہوریت یا ''رنگین انقلاب‘‘ کے لیے اپنی حمایت ترک کرنا پڑے گی، جس سے پوتن یا شی جن پنگ کی حکومتوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یوکرائن کا بحران دنیا میں نئے ورلڈ آرڈر کے لیے ایک جدوجہد ہے۔ صدر پوتن کے نزدیک یوکرائن ثقافتی اور سیاسی طور پر روس کے اثرورسوخ کا حصہ ہے۔ روس کی سلامتی کی ضروریات کے پیش نظر اس کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ مغربی اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کی یوکرائن کی خواہش کو ویٹو کر دے۔ ماسکو روسی بولنے والوں کے محافظ کے طور پر کام کرنے کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ امریکہ کے لیے مگر یہ مطالبات موجودہ ورلڈ آرڈر کے کچھ بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔ اس کے نزدیک ایک آزاد ملک کو اپنی خارجہ پالیسی اور سٹریٹیجک پالیسی کے انتخاب کا حق ہونا چاہیے۔ یوکرائن کا بحران بھی ''ورلڈ آرڈر‘‘ کے بارے میں ہے، کیونکہ اس کے واضح عالمی مضمرات ہیں۔ امریکہ جانتا ہے کہ اگر روس یوکرائن پر حملہ کرتا ہے اور اپنا ''دائرۂ اثر‘‘ قائم کرتا ہے تو چین کے لیے ایک مثال قائم ہو جائے گی۔ صدر شی جن پنگ کے دور میں چین نے جنوبی بحیرہ چین کے تمام متنازع علاقوں میں فوجی اڈے بنائے۔ اگر صدر پوتن یوکرائن پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو صدر شی جن پنگ کے لیے تائیوان پر حملہ کرنے کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ چین کے پُرجوش قوم پرستوں کی جانب سے چینی رہنما پر دنیا سے امریکی بالادستی کے جلد خاتمے کے لیے اندرونی دباؤ بڑھے گا۔ اس طرح روس اور چین کی واضح طور پر موجودہ عالمی نظام کے بارے میں ایک جیسی شکایات ہیں۔
ماسکو اور بیجنگ کے نقطہ ہائے نظر میں کچھ اہم اختلافات بھی ہیں۔ روس اس وقت چین سے زیادہ فوجی خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہے۔ ماسکو میں کارنیگی سنٹر کے دمتری ٹرینین کا استدلال ہے کہ ''ملک کے رہنماؤں کے لیے، روس اگر ایک عظیم طاقت نہیں ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے‘‘ لیکن اس وقت جبکہ روس دنیا کی عظیم طاقتوں میں سے ایک بننے کی خواہش رکھتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ چین امریکہ کو دنیا کی ممتاز طاقت کے درجے سے ہٹانے پر غور کر رہا ہے۔ اس موضوع پر ایک نئی کتاب کی مصنفہ الزبتھ اکانومی کا کہنا ہے کہ بیجنگ کا مقصد ایک ''بنیادی طور پر تبدیل شدہ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ قائم کرنا ہے، جس میں امریکہ کو بحرالکاہل سے باہر دھکیل کر محض بحر اوقیانوس کی طاقت بننے پر مجبور کرنا ہے۔ چونکہ بحرالکاہل اب عالمی معیشت کا مرکز ہے، اس لیے یہ بنیادی طور پر چین کو خطے میں اور دنیا میں ''نمبرون‘‘ کے طور پر ابھرنے کا موقع دے گا۔ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے چین کے سکالر رش دوشی اپنی کتاب 'دی لانگ گیم‘ میں بھی ایسی ہی دلیل دیتے ہیں۔ مختلف چینی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، دوشی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین اب واضح طور پر امریکی طرز کی بالادستی کیلئے منصوبہ سازی کررہا ہے۔
لیکن دوسری طرف حقائق کافی تلخ ہیں۔ روس کی معیشت تقریباً اٹلی کی معیشت کے حجم کی ہے۔ ماسکو کے پاس اتنی دولت نہیں کہ وہ عالمی بالادستی کی خواہش پر عمل کر سکے۔ اس کے برعکس، چین اب دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا صنعتکار اور برآمد کنندہ بھی ہے۔ اس کی ایک اعشاریہ چار بلین افراد کی آبادی روس سے تقریباً دس گنا زیادہ ہے۔ نتیجے کے طور پر، چین کیلئے دنیا کا سب سے طاقتور ملک بننے کی خواہش کرنا حقیقت پسندانہ ہے‘ لیکن روس اور چین کی اقتصادی صلاحیت میں فرق کے باوجود یورپ میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کیلئے فوجی طاقت کے استعمال پر صدر پوتن انتہائی بے صبری سے آمادہ نظرآتے ہیں۔ نیٹو کو اس خطے میں پھیلتے ہوئے دیکھ کر، جو کبھی سوویت بلاک تھا، پوتن یوکرائن کو اپنے ''آخری قلعے‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بیجنگ میں، اس کے برعکس، ایک مضبوط احساس ہے کہ وقت اور تاریخ چین کے ساتھ ہے۔ چینیوں کے پاس اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے بہت سے اقتصادی آلات بھی ہیں، جو روسیوں کو دستیاب نہیں ہیں۔ صدر شی جن پنگ کا ایک شاہکار منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ہے، جو چینی فنڈ سے چلنے والے بنیادی ڈھانچے کا ایک وسیع بین الاقوامی پروگرام ہے، اور وسطی ایشیا، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ چین ان ملکوں کے ساتھ بھی تجارتی شراکت داری کی کوشش کررہا ہے، جن میں امریکی سٹریٹیجک اتحادی، جیسے جاپان اور آسٹریلیا‘ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح چینی مارکیٹ تک رسائی کو روکنا بیجنگ کو اثرورسوخ کا ایک ایسا آلہ فراہم کرتا ہے، جو ماسکو کو دستیاب نہیں‘ لیکن کیا تبدیلی کا عمل تدریجی مراحل میں ہو گا؟ یا کیا روس اور چین کو نئے مجوزہ ورلڈ آرڈر کی تشکیل کیلئے کسی ڈرامائی لمحے کی ضرورت ہے، جس کی وہ تلاش کر رہے ہیں، یا یہ عمل پُرامن طریقے سے مکمل ہوگا۔ ہر دو صورتوں میں یہ نئی شکل میں سرد جنگ کا احیا ہے، جو گرم جنگ کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ پاکستان کا اس صف بندی میں ڈھلمل یقینی سے نکل کر واضح کردار ہی اس کے مستقبل کا تعین کرے گا، کیا وہ ایسا کر سکے گا ؟ اس کا جائزہ آئندہ لیا جائے گا۔