خطے میں مستقل تصادم کی وجہ تنازع کشمیر ہے۔ جب تک یہ تنازع طے نہیں ہو جاتا، پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کا خطرہ موجود رہے گا۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔ اس انٹرویو پر ایک معاصر نے طویل ادا ریہ لکھا، جس میں وزیر اعظم کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کو برصغیر کے لوگوں کے دکھوں اور مصائب کے حل کا واحد راستہ قرار دیا۔ اخبار نے مسئلہ کشمیر کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ہندوستان تقسیم کرتے وقت انگریزوں نے پانچ سو سے زائد راجواڑوں کو موقع دیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی ایک کی دستور ساز اسمبلی کا حصہ بن سکتے تھے لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح اصول نہ ہونے کی وجہ سے بھارت نے کئی مسلم اکثریتی ریاستوں پر قبضہ کر لیا۔ مسئلہ کشمیر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ بات بہت قابل غور ہے کہ جب کبھی بھی مسئلہ کشمیر کا ذکر آتا ہے، یا تقسیم ہندوستان کے وقت مختلف شاہی ریاستوں کی طرف سے مستقبل کے بارے میں ان کے فیصلوں کی بات ہوتی ہے، تو بے شمار ایسے سوالات کھڑے ہوتے ہیں، جن کا کوئی واضح جواب نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ایک بڑا کنفیوژن موجود ہے، جو تاریخی حقائق سے متصادم ہے۔ اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے اس مسئلے کو تاریخی تناظر اور حقائق کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔
ہندوستان کی آزادی سے پہلے برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت برصغیر میں دو طرح کا انتظامی بندوبست تھا۔ ایک برٹش انڈیا تھا۔ برٹش انڈیا میں ہندوستان کے وہ علاقے شامل تھے، جن پر براہ راست حکومت برطانیہ کی عمل داری تھی۔ یہ علاقے صوبوں پر مشتمل تھے۔ دوسرے وہ علاقے تھے، جن کو راجواڑے، پرنسلی سٹیٹس یعنی شاہی ریاستیں، دیسی ریاستیں یا جاگیریں وغیرہ کہا جاتا تھا۔ شاہی ریاستوں کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ یہ ریاستیں بننے اور ان کی توڑ پھوڑ کا عمل مسلسل جاری رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں کی اصل تعداد، ان کی ہیئت ترکیبی اور آئینی و قانونی حیثیت کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں مستند اعداد و شمار بھی موجود ہیں، جن پر بھرو سہ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں زیادہ پیچھے جائے بغیر اگر صرف انیسویں صدی کی ابتدا سے ہی دیکھا جائے تو امپیریل گزٹ آف انڈیا کے انیس سو نو کے شمارے میں اس وقت موجود ریاستوں کے بارے میں ایک تفصیلی تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں ان ریاستوں کی تعداد چھ سو ترانوے بتائی گئی تھی‘ لیکن اگلے بیس برسوں میں یہ ریاستیں جس تشکیل نو اور تخریب کے عمل سے گزریں ان کو سامنے رکھتے ہوئے انیس سو انتیس میں انڈین سٹیٹ کمیٹی نے جو رپورٹ شائع کی، اس میں ریاستوں کی تعداد پانچ سو باسٹھ بتائی گئی۔ یہ ریاستیں تاج برطانیہ کا اقتدار اعلیٰ اور برتری تسلیم کرتی تھیں۔ ان ریاستوں کے خارجہ امور مکمل طور پر حکومت برطانیہ کے پاس تھے۔ چند ایک معاملات کے علاوہ بیشتر ریاستیں داخلی طور پر بڑی حد تک خود مختار تھیں۔ ان کے حکمران راجے، مہاراجے، والی، جاگیردار یا نظام وغیرہ تھے۔ ریاستوں کی اندرونی خود مختاری کی حدود اور درجے مختلف تھے۔ ان کی انگریزوں کی برتری یا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنے کی شرائط بھی مختلف تھیں۔ مختلف ریاستوں میں کچھ معاملات پر براہ راست تاج برطانیہ کو اختیارات حاصل تھے۔ برطانوی برتری کے اصول کے مطابق تاج برطانیہ کو ضرورت پڑنے پران ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق تھا۔ ان ریاستوں کا مجموعی رقبہ تقریباً پانچ سو بیس ملین مربع میل کے قریب تھا۔ ریاستوں کی مجموعی آبادی اننانوے ملین نفوس پر مشتمل تھی‘ یعنی ان ریاستوں کے پاس ہندوستان کا چالیس سے اڑتالیس فیصد کے درمیان رقبہ، اور تئیس سے اٹھائیس فیصد کے قریب آبادی تھی۔
ان ریاستوں کی تشکیل اور ارتقا کی تاریخ طویل ہے۔ ہندوستان میں چھوٹی موٹی ریاستیں اور راجواڑے لوہے کے زمانے سے موجود رہے ہیں۔ ان کی تعداد یا رقبہ گھٹتے بڑھتے رہے ہیں۔ ان کی تاریخ پانچویں اور چھٹی صدی تک پیچھے جاتی ہے۔ لیکن گپتا ایمپائر کے ٹوٹنے کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں میں ان ریاستوں کی تشکیل شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ چودہویں پندرہویں صدی تک پورے ہندوستان کے طول و عرض میں سینکڑوں ریاستوں اور جاگیروں کی شکل میں پھیل گیا۔ سولہویں صدی میں یہ ریاستیں ترک مغل سلطنت کے ساتھ جڑنا شروع ہوئیں، اور سترہویں صدی تک ان ریاستوں کی ایک بڑی تعداد اس سلطنت کا حصہ بن چکی تھی۔
نوآبادیاتی نظام کے قیام کے بعد انگریزوں نے ان ریاستوں کو برٹش انڈیا کا حصہ بنانے کے بجائے انتظامی آسانی کے لیے نہ صرف اسی شکل میں چلنے دیا، بلکہ بوقت ضرورت یہ سلسلہ مزید پھیلایا‘ اور اس کے دور میں کچھ نئی ریاستیں، اور جاگیریں معرض وجود میں آئیں، ان میں ریاست جموں و کشمیر شامل تھی، جو اٹھارہ سو چھیالیس میں معاہدہ لاہور اور معاہدہ امرتسر کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔
ہندوستان کی آزادی کے سلسلے میں تین جون انیس سو سینتالیس کو برطانوی پارلیمنٹ میں یہ منصوبہ پیش کیا گیا کہ پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو برطانوی ہند میں دو ڈومینینز یعنی پاکستان اور بھارت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ قانون آزادیٔ ہند میں یہ واضح کیا گیا کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گا‘ ہندوستان پر سے برطانوی عمل داری کے خاتمے کے ساتھ ہی شاہی ریاستوں اور حکومت برطانیہ کے درمیان تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے‘ برطانوی بالا دستی کے خاتمے کے ساتھ انڈیا کی شاہی ریاستوں کے راجے‘ مہاراجے ماضی میں جن حقوق اور ذمہ داریوں سے حکومت برطانیہ کے آگے دستبردار ہو چکے تھے، وہ ان کو واپس مل جائیں گے۔ قبل ازیں اس سلسلے میں کیبنٹ مشن نے ایک تفصیلی میمورنڈم جاری کیا تھا، جس کے مطابق برطانوی بالا دستی کے خاتمے کیساتھ ہی ہندوستان کی شاہی ریاستیں آزاد ہو جائیں گی۔ ان ریاستوں کو یہ اختیار ہوگا کہ چاہیں تو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں یا خود مختار رہیں۔
ریاستوں نے اپنی اپنی شرائط پر ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے سلسلے میں گفتگو کا آغاز تقسیم سے بہت پہلے شروع کر دیا تھا۔ ستمبر انیس سو اڑتالیس تک یہ سلسلہ تقریباً مکمل ہو گیا تھا۔ اس سلسلۂ عمل میں بیشتر ریاستوں کا بھارت سے الحاق یا انضمام بھارتی وزیرِ ریاست سردار ولبھ بھائی پٹیل اور وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ اس معاملے میں مختلف تاریخ دانوں نے پٹیل اور مائونٹ بیٹن کے مابین بہت قریبی تعاون کا حوالہ دیا ہے۔ رابن جے مور نے 'جنوبی ایشیا کی ریاستیں اور قومی انٹیگریشن کے مسائل‘ میں اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس باب میں وی پی مینن کی کتاب 'انڈین ریاستوں کے انٹیگریشن کی کہانی‘ میں بھی تفصیلات موجود ہیں۔ بیشتر تاریخ دانوں کے نزدیک کانگرس نے محدود خود مختاری کی حامل ''ڈومینین سٹیٹس‘‘ کو اس لیے قبول کیا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے یہ ذمہ داری لی تھی کہ وہ ریاستوں کو بھارت میں شامل کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گا۔ اس کے خیال میں ریاستوں کی ہندوستان میں شمولیت سے بھارت کا رقبہ اور علاقے کا وہ خسارہ پورا ہو جائے گا، جو پاکستان کو دیا گیا۔ انگریز مؤرخ ایچ وی ہڈسن نے اس تعاون کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جب پٹیل اور مائونٹ بیٹن کی ریاستوں کے معاملے میں میٹنگ طے ہوئی تو پٹیل نے مائونٹ بیٹن سے ریاستوں سے بھری ہوئی ٹوکری کا مطالبہ کیا‘ لیکن اگست انیس سو سینتالیس میں ریاستوں کی اس ٹوکری میں تین سیب کم تھے، جن کا احوال آئندہ بیان کیا جائے گا۔