گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ نوے کی دہائی سے دنیا میں ''یونی پولر‘‘ نظام چل رہا ہے، مگر یہ نظام حقیقی خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔ اس نظام کی بقا پر سنجیدہ سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ یہ ور لڈ آرڈر تبدیل کب اور کیسے ہو گا‘ اور اس کی جگہ ایک نیا ''ملٹی پولر‘‘ نظام کیسے لے گا؟
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں نئے ورلڈ آرڈر عام طور پر کسی بڑے سیاسی واقعے کے بعد ابھرتے ہیں، جیسے کہ کوئی بڑی یا عالمی جنگ، یا پھر کسی ملک میں کوئی بڑا انقلاب جو دنیا کو ہلا کر رکھ دے، اور دنیا میں طاقت کے توازن کو بدلنے کا موجب بن جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ ور لڈ آرڈر کا زیادہ تر سکیورٹی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ اس وقت سامنے آیا، جب دوسری عالمی جنگ ختم ہو رہی تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اقوام متحدہ، ور لڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کا قیام عمل میں آیا ، جن کا کنٹرول امریکہ کے پاس تھا۔ پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ مواصلات اور تجارت کے بارے میں عمومی معاہدہ (گیٹ) انیس سو اڑتالیس میں نافذ ہوا تھا۔ نیٹو انیس سو انچاس میں تشکیل دیا گیا تھا۔ انیس سو اکاون میں امریکہ جاپان سکیورٹی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ سیٹو، سینٹو، اور بغداد پیکٹ جیسے فوجی معاہدے اور بندوبست ہوئے۔ اس طرح دفاعی، تجارتی اور مالیاتی اقدامات کے ذریعے دنیا میں فوجی اور مالیاتی بالا دستی اور اجارہ داریاں قائم کرنے کی کوشش کی گئی، جن کو اس وقت کی دوسری بڑی سپر پاور سوویت یونین کی طرف سے ہر محاذ پر سخت مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین میں ٹوٹ پھوٹ اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، وارسا معاہدہ جیسے حریف‘ سوویت حمایت یافتہ ادارے منہدم ہو گئے، نیٹو اور یورپی یونین روس کی سرحدوں تک پھیل گئے۔ چین نے دو ہزار ایک میں ور لڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی۔ ان اقدامات سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ دنیا امریکی ور لڈ آرڈر کی شکل میں نیو لبرل ازم پر مبنی معیشت اور امریکی بالا دستی کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی طرف سے اس مروجہ نظام کے خلاف دبے الفاظ میں آواز اٹھتی رہی۔ اب جب کہ نئے ورلڈ آرڈر کے لیے روس اور چین کھل کر سامنے آ گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا روس اور چین کو بھی اپنے ''نئے عالمی نظام‘‘ کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنگ کی ضرورت ہو گی، یا یہ تبدیلی بتدریج اور پُر امن عمل کے ذریعے بھی آ سکتی ہے؟ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جوہری دور میں امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم بہت خطرناک ہے، اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا، جب تک کہ تمام فریق کوئی بہت بڑا غلط اندازہ نہ لگائیں، جس کا خطرہ اور گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے‘ لیکن دنیا نے ماضی کی خوفناک جنگوں کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے تلخ تجربات تو دنیا کو ہمیشہ یاد رہیں گے، لیکن حال ہی میں امریکہ نے افغانستان اور عراق وغیرہ میں جو نئے تجربات کیے، ان میں کئی تازہ اور نا قابل فراموش اسباق ہیں۔ ان اسباق سے استفادہ کرتے ہوئے روس اور چین یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ با ضابطہ جنگ کے بجائے پراکسی جنگوں کے ذریعے اپنے عزائم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا میں پراکسی جنگ کو روایتی جنگوں کے متبادل کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔ اب اس بات پر اتفاق رائے ہوتا جا رہا ہے کہ پراکسی جنگ کسی ریاست کے لیے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک نسبتاً سستا اور کم تباہ کن راستہ ہے، جس میں لاشیں بھی کم گرتی ہیں اور مالی نقصان بھی نسبتاً کم ہوتا ہے۔ گویا پراکسی جنگیں اب نئے راستے ہیں، جن کو ریاستیں اختیار کر رہی ہیں۔ یو کرائن اس کی ایک مثال ہے، جو ایک عرصے سے اس صورت حال کا شکار ہے۔ دو ہزار تیرہ‘ چودہ سے یہاں کسی نہ کسی شکل میں پراکسی جنگ چل رہی ہے۔ امریکہ کے نزدیک یوکرائن میں روس کی فتح اس بات کا اشارہ دے سکتی ہے کہ یورپ میں ایک نیا سکیورٹی آرڈر ابھر رہا ہے، جس میں ایک حقیقی روسی ''اثر و رسوخ کا دائرہ‘‘ شامل ہے۔ اسی طرح تائیوان پر کامیاب چینی کنٹرول کو بڑے پیمانے پر اس علامت کے طور پر پڑھا جائے گا کہ بحرالکاہل پر امریکی تسلط کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت، خطے کے بہت سے ممالک‘ جو اس وقت اپنی سلامتی کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں، جیسا کہ جاپان اور جنوبی کوریا، چین کے زیر تسلط ایک نئے آرڈر میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ متبادل کے طور پر، واشنگٹن کی طرف سے خاموش رضامندی کے ذریعے ایک نیا عالمی نظام ابھر سکتا ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار میں اس کا امکان نظر نہیں آتا، جب تک کہ یوکرائن پر امریکہ کی طرف سے آخری لمحات میں کچھ ڈرامائی مراعات نہ ہوں‘ لیکن دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دو ہزار چوبیس میں وائٹ ہاؤس واپس آ سکتے ہیں۔ کم از کم بیان بازی کی حد تک، وہ روسی و چینی عالمی نقطہ نظر کے پہلوؤں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
سابق امریکی صدر نے اپنے دور اقتدار میں نیٹو کی سرِ عام مذمت کی اور مشورہ دیا کہ یورپ و ایشیا میں امریکہ کے اتحادی مفت خور اور آزاد سوار ہیں۔ ان کے ''امریکہ فرسٹ‘‘ کے فلسفے نے بہت کچھ بدل دیا۔ چین روس اتحاد اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکہ کی قیادت میں عالمی نظام کو لاحق خطرہ کسی بھی وقت جلد ختم نہیں ہو جائے گا‘ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی میں بھی بہت سے لوگ شامل ہیں، جو روس اور چین دونوں کے ساتھ تصادم کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کسی بھی صورت میں، اب اور نومبر دو ہزار چوبیس میں ہونے والے اگلے امریکی صدارتی انتخابات تک بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ روس کی بے صبری پوتن کے یوکرائن کے بحران پر رد عمل سے واضح ہے۔ ایک نئے عالمی نظام کے امکانات جو روس کے لیے زیادہ سازگار ہیں، اس بات پر منحصر ہو سکتے ہیں کہ آیا اس کی یوکرائن پر پالیسی کام کرتی ہے یا نہیں‘ لیکن اگر پوتن یوکرائن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تب بھی امریکہ کی قیادت میں عالمی نظام کو لاحق خطرہ ختم نہیں ہو گا۔ ایک ابھرتا ہوا چین، جس کی قیادت ایک پُرجوش صدر شی جن پنگ کر رہے ہیں، اس بات کو یقینی بنائے گا کہ نیا ورلڈ آرڈر اپنی جگہ بناتا ہے۔ اس ورلڈ آرڈر میں پاکستان کی جگہ کا تعین اس بات پر ہے کہ پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کیا سبق سیکھا ہے؟ ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مغربی بلاک کی خواہشات اور ضروریات کے تابع رہی ہے۔ سوشلزم کے خلاف تشکیل دیے گئے عالمی مالیاتی اور فوجی اتحادوں کا حصہ بننے کی وجہ سے پاکستان جن فوائد کی توقع رکھتا تھا، اس کا عشر عشیر بھی اس تک نہ پہنچ سکا۔ اس کے بجائے یہ پالیسی اس کے لیے انتہائی ناکارہ ثابت ہوئی، اور فرسودگی کا شکار ہو کر ختم ہو گئی۔
نئی عالمی صف بندی میں یہ خیال بڑا خوش کن ہے کہ کسی ایک بلاک کا حصہ بننے کے بجائے ایک غیر جانب دار اور متوازن پالیسی اپنائی جائے، لیکن اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس معاشی خود انحصاری، خود اعتمادی اور عوام پر بھرو سہ کرنے کی ضرورت ہے، اس کا فقدان ہے۔