گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ سردار پٹیل نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے ہندوستان کی شاہی ریاستوں سے بھری ہوئی ٹوکری کی فرمائش کی تھی۔ مائونٹ بیٹن یہ فرمائش پوری کرنے کی پوزیشن میں تھے‘ لیکن تقسیم کے وقت اس ٹوکری میں تین سیب کم تھے۔ ان تین کے علاوہ ہندوستان کے ساتھ وہ تمام ریاستیں شامل ہو چکی تھیں، جن کی کانگرس خواہش کر سکتی تھی۔ ان ریاستوں میں حیدر آباد، جونا گڑھ اور جموں و کشمیر شامل نہیں تھیں، لیکن بعد میں ان تین ریاستوں کو بھی مختلف اوقات میں مختلف حربوں اور غاصبانہ طریقوں سے ہندوستان میں شامل کر لیا گیا۔ ہندوستان کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں شاہی ریاستوں کی شمولیت میں سردار پٹیل اور لارڈ مائونٹ بیٹن کا جو بھی کردار رہا ہو وہ اپنی جگہ، لیکن اس صورت حال کی اصل وجہ شاہی ریاستوں کے بارے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی تھی، جس کو سمجھے بغیر شاہی ریاستوں کی ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کے مسئلے کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ اپنے قیام کے وقت سے ہی مسلم لیگ کی سیاست کا نقطہ ماسکہ برٹش انڈیا یعنی وہ صوبے تھے جو براہ راست برطانوی حکومت کے زیر انتظام تھے۔ شاہی ریاستوں کے بارے میں اس کی پالیسی یہ تھی کہ وہ راجوں، مہاراجوں، ناظمین اور والیانِ ریاست وغیرہ کو ان ریاستوں کے جائز حکمران سمجھتی تھی۔ وہ شاہی ریاستوں پر ان کے حکمرانوں کے حق حکمرانی میں عدم مداخلت کی قائل تھی۔ قائد اعظم اور مسلم لیگ کا موقف یہ تھا کہ ریاستوں کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار ریاست کے حکمرانوں کو حاصل ہے، خواہ یہ فیصلہ برطانوی حکومت کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہو، یا ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی سوال ہو۔ مسلم لیگ اس پالیسی پر بھی کاربند تھی کہ حکمرانوں کے خلاف ریاستی عوام کے کسی قسم کے راست اقدام کی حمایت بھی نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ اپنی سرگرمیوں کے دائرہ کار کو ریاستوں تک پھیلانے کے حق میں نہیں تھی۔ یہ پالیسی پہلی بار اس وقت مسلم لیگ کیلئے ایک مسئلہ بنی جب انگریزوں نے ہندوستان میں فیڈریشن کی تجویز پیش کی۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ انیس سو پینتیس میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ پورے ہندوستان پر مشتمل ایک فیڈریشن بنائی جائے، جس میں تمام صوبے اور شاہی ریاستیں ایک یونٹ کے طور پر شامل ہوں۔ شاہی ریاستوں کیلئے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کے سلسلے میں ایک باقاعدہ دستاویز تیار کی گئی، جسے ''انسٹرومنٹ آف اکیسیشن‘‘ یعنی الحاق کی دستاویز کا نام دیا گیا، جس میں الحاق کرنے کی شرائط درج کی گئیں۔ یہ فیصلہ مکمل طور پر شاہی ریاستوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ ان میں سے جو ریاست چاہے، وہ ہندوستان کی مرکزی فیڈریشن کا حصہ بنے۔ ایکٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ایک کونسل آف سٹیٹس بنائی جائے، جو برٹش انڈیا اور شاہی ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔
اس تجویز کا مطلب یہ تھا کہ اگر فیڈریشن بنتی ہے تو ہندوستان کی ساری جماعتوں کو اپنی سرگرمیوں کا دائرہ ریاستوں تک پھیلانا پڑے گا۔ اس تجویز کو کانگرس اور مسلم لیگ دونوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی کانگرس نے آل انڈیا سٹیٹس پیپلز کانفرنس کے زیر اہتمام احتجاج شروع کر دیا اور یہ مطالبہ کیا کہ راجے‘ مہاراجے وفاقی مقننہ میں اپنے پسندیدہ اشخاص کو نامزد کرنے کے مجاز نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ شاہی ریاستوں سے منتخب افراد کو کونسل آف سٹیٹس میں نمائندگی دی جائے۔
سٹیٹس پیپلز کانفرنس کے تحت کانگرس کے احتجاج نے مہاراجوں کی طاقت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ الگ بات تھی کہ راجوں کی اکثریت کو انگریزوں کی اس نئی سکیم پر اعتراض تھا۔ اگرچہ اس اعتراض کی ان کی اپنی الگ الگ وجوہات تھیں؛ چنانچہ مسلم لیگ کو راجوں کی پوزیشن دیکھ کر ان کی حمایت کا سنہری موقع نظر آیا، جو کانگرس کا اثرورسوخ کم کر سکتا تھا۔ مسلم لیگ نے اپنے سالانہ کنونشن میں مجوزہ فیڈریشن کے خلاف قرارداد پاس کر دی۔ اس اجلاس میں راجوں سے کہا گیا کہ جب تک برٹش انڈیا میں فریقین کے مابین اتفاق نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ فیڈریشن کونہ مانیں۔ آگے چل کر قائد اعظم کے دورہ حیدر آباد کے دوران ناظم حیدر آباد نے فیڈریشن کی آخری پیشکش رد کردی۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فیڈریشن کا معاملہ ہی ختم ہوگیا لیکن فیڈریشن کے مسئلے کو لے کر مسلم لیگ کو تاریخ میں پہلی بار ریاستوں کے حوالے سے کھلا موقف اختیار کرنا پڑا، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھاکہ ریاستوں کے حوالے سے مسلم لیگ کا دیرینہ موقف بدل گیا تھا۔ کانگرس کے برعکس مسلم لیگ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں اپنے آپ کو راجوں اور ان کی رعایا کے درمیان لانے سے گریزاں تھی۔ مسلم لیگ کی اس دیرینہ پالیسی کو سمجھنے کیلئے مسلم لیگ کی پرانی دستاویزات اور شاہی ریاستوں کے باب میں اس کے آئینی ارتقا کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
انیس سو انیس سے مسلم لیگ کے آئین میں یہ شق موجود تھی کہ کسی بھی ریاست کا کوئی مسلمان شہری مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا ممبر بن سکتا ہے‘ لیکن تیس کی دہائی میں مسلم لیگ کی اس پالیسی میں بتدریج تبدیلی ہوئی۔ انیس سو سینتیس میں راجوں‘ مہاراجوں کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ مسلم لیگ ریاستی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، مسلم لیگ کے آئین میں ترمیم لائی گئی، جس کے تحت آئین میں یہ شق ڈالی گئی کہ آج کے بعد صرف برٹش انڈیا کا شہری ہی مسلم لیگ کی ممبرشپ کا اہل ہے، اور کسی ریاست کا کوئی باشندہ مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا ممبر نہیں بن سکتا۔
اس کے تین سال بعد نواب یار بہادر جنگ کی قیادت میں آل انڈیا سٹیٹس مسلم لیگ بنا دی گئی، جس کا ہیڈ کوارٹر ناگ پور رکھا گیا۔ مسلم لیگ کے آئین میں اس تبدیلی نے کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش کو ختم کر دیا تھاکہ مسلم لیگ مستقبل قریب میں ریاستوں کے معاملات میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ کی اس پالیسی کا واضح اظہار انیس سو چالیس میں ہوا۔ مارچ انیس سو چالیس میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ بندوبست یا الگ وطن کی جو معروف قرارداد پیش کی گئی، اس میں صرف برٹش انڈیا کے زیر انتظام صوبے شامل تھے۔ جو قرارداد فضل الحق نے لاہور میں پڑھ کر سنائی وہ آج بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پیپرز میں شامل ہے، اور اس میں کسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں۔ اس قرارداد کا اطلاق صرف برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی علاقوں پر ہوتا ہے۔ شوکت حیات نے یہ قرارداد تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے پیپرز کی فائل میں شوکت حیات کی تقریر کا متن بھی محفوظ ہے۔ بعد ازاں قائد اعظم نے بھی بارہا اس کی وضاحت کی۔ ایل اے شیروانی کے سلیکشن آف ڈاکومنٹس میں اس امر کی وضاحت موجود ہے کہ جب موہن داس کرم چند گاندھی نے براہ راست قائد اعظم محمد علی جناح سے پوچھا کہ قرارداد لاہور کے ہندوستان کے اتحاد پر کیا اثرات مرتب ہوں گے تو جواب میں قائد اعظم نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے ابتدائی تصور میں کچھ تبدیلی آئی ہے، اور قرارداد لاہور کا اطلاق صرف برٹش انڈیا تک محدود ہوگا۔ ریاستوں کے بارے میں مسلم لیگ کی اس پالیسی کا نتیجہ یہ تھاکہ مسلم لیگ ریاستوں میں تنظیم سازی یا ریاستی عوام کی براہ راست حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے ہر قسم کی سرگرمی سے اجتناب کرتی تھی۔ اس صورتحال کا عکس کچھ ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں ان کے فیصلوں سے ہوا، جس کا احوال پھر کبھی بیان کیا جائے گا۔