دو سال وائرس کی نذر ہونے کے بعد لگتا ہے زندگی آہستہ آہستہ معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ کچھ سرگرمیوں میں شرکت کا موقع مل رہا ہے۔ ایک سیمینار میں طبقاتی تقسیم اور تاریخ پر پُر مغز گفتگو سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ روایتی طور پر تاریخ انسانی کے بارے میں دو متصادم نقطہ ہائے نظر رہے ہیں۔ ایک طرف ہابس کا نقطہ نظر ہے، جس کے مطابق انسان فطری طور پر تشدد پسند اور خونخوار ہے اور انسانی تاریخ غلیظ اور خوفناک جنگوں کی تاریخ ہے۔ دوسری طرف روسو ہے، جس کے نزدیک انسان ایک معصوم مخلوق تھا، مگر اس کو سماج کی کرپشن نے برباد کر دیا۔ اپنی کتاب ''بنی نوع انسان کی نئی تاریخ‘‘ میں ڈیوڈ ونگرو اور ڈیوڈ گریبر نے ان خیالات کو چیلنج کیا، اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کے مسائل کے بارے میں ہمارے کئی مقبول عام اور مروجہ بیانیے غلط ہیں۔ ان میں سے ایک بیانیہ طبقاتی تقسیم اور عدم مساوات کی ابتدا کے بارے میں بھی ہے۔ جدید تحقیق اس بیانیہ پر سنجیدہ سوال اٹھا رہی ہے اور دنیا میں عدم مساوات یا طبقاتی تقسیم کو سمجھنے کے لیے ان سوالات کا جواب ضروری ہے۔
ہم تاریخ کا بیشتر حصہ کھو چکے ہیں۔ اب اس کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کائنات میں جدید انسانی وجود کو دو لاکھ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس طویل عرصے کے دوران بیشتر ادوار میں کیا ہوتا رہا، اس کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس تاریخی ورثے کے طور پر سپین کی الحمرا کے غار ہیں۔ ان غاروں میں پائی جانے والی تصاویر اور نقش و نگار پچیس ہزار سے پندرہ ہزار قبل مسیح کے دوران تخلیق کیے گئے تھے۔ اس دوران تاریخ میں کئی ایک ڈرامائی واقعات رونما ہوئے ہوں گے، لیکن ہمیں ان کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ بیشتر لوگوں کے لیے ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ اکثر لوگ انسانی تاریخ کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کرتے‘ اور ان کے پاس ایسا کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ اگر تاریخ کے بارے میں سوچنے کا کہیں یہ سوال پیدا بھی ہوتا ہے، تو ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب یہ سوچنے کی ضرورت پڑے کہ انسان آج اس بدترین صورتحال کا شکار کیوں ہے۔ انسان ایک دوسرے سے اکثر اتنا بُرا سلوک کیوں کرتے ہیں؟ یا پھر جب جنگ، لالچ، استحصال اور منظم طبقاتی تفریق کے بارے میں سوچا جاتا ہے‘ جب یہ سوچا جاتا ہے کہ کیا ہم ہمیشہ سے ایسے تھے یا کسی خاص وقت میں کچھ غلط ہو گیا۔ یہ بنیادی طور پر ایک مذہبی مباحثہ ہے۔ اس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا انسان فطری طور پر اچھا ہے یا برا؟ لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ سوال بھی بے معنی سا لگتا ہے۔ اچھی اور برائی خالصتاً انسانی تصورات ہیں۔ یہ اچھائی اور برائی کے تصورات انسان نے اپنے لیے بنائے ہیں، تاکہ ہم ایک دوسرے کا تقابل کر سکیں کہ اچھا انسان کون ہے، اور برا انسان کون ہے‘ لیکن کبھی کبھار جب ہم تاریخ کے سبق کی بات کرتے ہیں، تو ہم ناگزیر طور پر اس طرح کے سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم قدیم عیسائیت کے جواب سے واقف ہیں کہ انسان معصومیت کی حالت میں رہتے تھے، مگر وہ گناہوں سے آلودہ ہو گئے۔ اسی طرح آج کے دور میں اس کہانی کا ایک نیا ورژن ہے، جو انسانی سماج میں عدم مساوات کے بارے میں ہے۔ یہ ورژن جان جیک روسو نے بنی نوع انسان میں عدم مساوات کی ابتدا کے بارے میں اپنی تخلیق میں بیان کیا ہے، جو اس نے سن سترہ سو چون میں لکھی تھی۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک وقت میں انسان ایک ایسے دور میں رہتا تھا، جسے آج ہم شکار کا دور کہتے ہیں۔ اس وقت ہم چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں رہتے تھے، اور معصومیت کی زندگی گزارتے تھے۔ ان گروہوں اور قبیلوں کے اندر مساوات تھی‘ لیکن زراعت کی آمد کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ دنیا میں شہر معرض وجود میں آئے۔ ایک نئی تہذیب کا آغاز ہوا۔ ریاستیں وجود میں آئیں، جس نے پرانا نظام سمیٹ دیا۔ نئے نظام کے ساتھ ادب تخلیق ہونا شروع ہوا۔ سائنس اور فلسفے نے ترقی شروع کی، مگر اس کے ساتھ ایسا نظام سامنے آیا، جس میں لشکر بنے، فوجیں کھڑی ہوئیں اور نوکر شاہی معرض وجود میں آئی، جس نے ہمیں ایک نئے طرز کی زندگی پر لگا دیا۔ بے شک یہ خام سادگی ہے مگر یہ ابتدائی کہانی ہے۔ یہ ایک افسردہ کر دینے والی کہانی ہے، مگر اس کا متبادل کیا ہے۔ اگر ہم روسو کی بات پر یقین نہیں کریں گے تو تھامس ہابس کو ماننا پڑے گا۔ تھامس ہابس نے اپنی مشہور کتاب لیویتھن (Leviathan) سولہ سو اکاون میں لکھی تھی۔ ایک لحاظ سے یہ جدید منطقی سوچ کی بنیاد ہے۔ اس نے انسان کو خود غرض مخلوق قرار دیا۔ زندگی اپنی فطری حالت میں معصوم نہیں تھی۔ اس کے بجائے یہ تنہا، غریب، غلیظ‘ بے رحم اور مختصر تھی۔ فطری حالت میں زندگی بنیادی طور پر ایک طرح کی حالت جنگ تھی، جس میں سب ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے اور اگر اس صورت حال سے نکلنے کی کوئی سبیل بنی تو یہ وہی چیزیں تھیں، جن کے بارے میں روسو کو شکایت ہے یعنی حکومت، عدالتیں، نوکر شاہی اور پولیس وغیرہ جن کو روسو نے جابر اور ظالم قرار دیا تھا۔ ہابس کے حامیوں کا خیال ہے کہ قدیم فطری سماج یا شکار کے دور میں بھی کوئی مساوات نہیں تھی۔ اس میں بھی ایک الفا یعنی طاقت ور شخصیت، طبقاتی تقسیم، تنظیمی ڈھانچہ، غلبہ اور ذاتی مفادات کا تصور موجود تھا۔ انسان کو قابو کرنے کے لیے اور اپنے طویل مدتی مفادات کے حوالے سے ہم نے ان کو قانون اور قواعد کا پابند بنایا۔ جدید تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گزشتہ تیس ہزار سال کے دوران انسانی سماج میں کیا ارتقا ہوا ہے۔ یہ تحقیق ہمارے جانے پہچانے بیانیے کے خلاف ہے۔ اس تحقیق کے مطابق زرعی دور سے پہلے انسانی سماج چھوٹے اور مساوات پر مبنی گروہوں پر مشتمل نہیں تھا۔ اس کے بجائے زراعت سے پہلے کا شکار کا دور ایک دلیرانہ سماجی تجربہ تھا۔ زراعت کا مطلب نجی ملکیت کا حصول نہیں تھا اور نہ ہی یہ عدم مساوات کی طرف ایک قدم تھا۔ در حقیقت کئی ابتدائی زرعی برادریاں عہدے داروں اور طبقاتی تقسیم سے پاک تھیں۔ دنیا کے کئی ابتدائی شہروں کو مساوات کے اصولوں کے تحت چلایا جاتا تھا۔ ان میں با اختیار حکمران، سیاست دانوں اور حکم چلانے والی انتظامیہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ آج کے دور میں اس طرح کی تحقیق پر مبنی معلومات دنیا کے کونے کونے سے آ رہی ہے۔ اس لیے دانش ور اس مواد کو ایک نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح کی معلومات پر مبنی ان ٹکڑوں کو جوڑ کر دنیا کی نئی تاریخ تخلیق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ معلومات ابھی تک چند مراعات یافتہ محققین تک محدود ہے اور یہ لوگ اپنے حلقے سے باہر اس معلومات کو شیئر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایک بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ہابس اور روسو کے جدید دور کے پیروکار تاریخ کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ اور جو حقائق اب سامنے آ رہے ہیں، ان کی روشنی میں بنی نوع انسان کی نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔