امریکی 'مداخلت‘ اور 'سازش‘ پر حال ہی میں ہونے والی عام بحث کے دوران جب سابق وزیر اعظم عمران خان کو یہ بتایا گیا کہ جس مراسلے کو آپ سازش قرار دے رہے ہیں ایسے مراسلے معمول کی بات ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ کیا ایسے مراسلے واقعی معمول کی بات ہے؟ یہ جاننے کے لیے اس باب میں امریکہ کی پرانی سرکاری دستاویزات کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ دستاویزات اب ''ڈی کلاسیفائڈ‘‘ ہو چکی ہیں۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت امریکہ کے دیگر سرکاری اداروں کی آرکائیو میں موجود ہیں۔
ان دستاویزات میں خصوصی توجہ کے متقاضی وہ میمورنڈمز ہیں، جو امریکی سفیروں نے پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد لکھے‘ یا پھر وہ نوٹس اور ڈائریاں ہیں، جو امریکی اہل کاروں نے مختلف اوقات میں پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد مرتب کیں۔ ان دستاویزات کے مطالعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے کچھ اعلیٰ حکام کا امریکی حکام سے انداز گفتگو کیا رہا ہے۔ وہ امریکہ سے کس کس قسم کی امداد اور سر پرستی کی امیدیں رکھتے تھے، اور جواب میں امریکی حکام سے کیا کچھ سننے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے، جو اپنے اقتدار بلکہ ذاتی تحفظ کا ضامن امریکہ کو قرار دیتے تھے، اور اس کا برملا اظہار ان سے کرتے تھے۔ اس باب میں ایوب خان کا دور خصوصی طور پر اہم ہے کہ ان کی حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی مضبوط ترین حکومت تصور کیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک عشرے پر مشتمل اس دور کا سفارتی لٹریچر‘ جو پاکستان اور امریکہ کے مابین سیاسی اور سفارتی ایکسچینج پر مشتمل ہے‘ بڑا اہم ہے۔
پاکستان کی عالمی سیاست میں امریکہ کی طرف جھکائو کی پالیسی قیام پاکستان سے پہلے ہی بن چکی تھی۔ اس پالیسی کے دو مقاصد تھے۔ ایک سوویت یونین کی ممکنہ مداخلت یا جارحیت کے خلاف امریکی فوجی امداد کا حصول، اور دوسرا مقصد امریکہ سے معاشی اور تکنیکی امداد حاصل کرنا تھا۔ یہ پالیسی خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سوچ کا نتیجہ تھی۔ پاکستان کے قیام سے بہت پہلے قائد اعظم یہ طے کر چکے تھے کہ عالمی سیاسی کشمکش میں پاکستان امریکی بلاک کا حصہ بنے گا۔ اس سلسلے میں کئی تاریخی دستاویزات موجود ہیں۔
اس موضوع پر ایک اہم ترین دستاویز ڈینس کک کی ہے۔ ڈینس امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا اہل کار تھا، جس کو جنوبی ایشیا کے معاملات کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ اس نے قائد اعظم سے ایک اہم ملاقات کا حوالہ دیا ہے۔ یہ ملاقات پاکستان کے قیام سے تین ماہ قبل مئی انیس سو سینتالیس میں دہلی میں قائد اعظم اور امریکی سفارت کار ریمنڈ ہارے کے مابین ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے دوران قائد اعظم نے اس موضوع پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان عالمی سیاست میں مشرق وسطیٰ کی مسلمان ریاستوں کے ساتھ جڑے گا۔ مسلمان ریاستیں سوویت یونین کی ممکنہ جارحیت کے خلاف متحد ہوں گی، اور اس سلسلے میں ان کو امریکی مدد کی ضرورت ہو گی۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم نے اپنے ان خیالات کے مطابق عملی اقدامات کی کوشش کی۔ قائد اعظم نے امریکہ سے مالی امداد کے حصول کے لیے اپنی نگرانی میں ایک جامع منصوبہ تیار کروایا۔ قائد اعظم کے ذاتی نمائندے لئیق علی نے پانچ اکتوبر انیس سو سینتالیس کو امریکی اہل کاروں کو یہ منصوبہ پیش کیا، جس میں امریکی امداد کے لیے پاکستانی ضروریات کا تفصیلی خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ ان دستاویزات میں موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان میں صنعتی ضروریات کے لیے سات سو ملین، زرعی ترقی کے لیے سات سو ملین اور دفاع کے لیے پانچ سو دس ملین ڈالر کی ضرورت تھی‘ گویا فوجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے امریکہ سے امداد مانگنے کا یہ عمل قیام پاکستان کے صرف دو ماہ بعد شروع ہو چکا تھا۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکہ تعلقات کا آغاز لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے شروع ہوتا ہے، جب انہوں نے روس کی دعوت کو نظر انداز کر کے امریکہ کا انتخاب کیا تھا، لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے یہ بنیادی خد و خال قیام پاکستان سے چند ماہ قبل خود قائد اعظم نے طے کرنے شروع کر دیئے تھے۔ عالمی صف بندیوں میں سوویت یونین کے مقابلے میں امریکہ کی صف میں شامل ہونے کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک بڑی وجہ پنڈت جواہر لال نہرو کے نظریات‘ خیالات اور عالمی سیاست اور صف بندی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کا رد عمل تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو ایک سکہ بند قسم کے سوشلسٹ تھے۔ وہ عالمی سطح پر امریکی سیاست کو اس وقت کے سوشلسٹ نقطہ نظر سے دیکھتے تھے، جس کے تحت امریکہ کو ایسا سامراج قرار دیا جاتا تھا، جو اپنی بے پناہ فوجی اور معاشی طاقت کے بل بوتے پر تیسری دنیا کے غریب ممالک پر قبضے اور غلبے کا خواہش مند تھا۔
پنڈت نہرو اپنی سوچ و فکر اور نظر کے اعتبار سے سوویت یونین کے زیادہ قریب تھے، اور ملکی آزادی و خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیتے تھے۔ اگرچہ پنڈت نہرو کا واضح نقطہ نظر یہ تھا کہ تیسری دنیا کے ان ممالک‘ جو تازہ تازہ نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوئے ہیں‘ کو عالمی سیاست میں کسی ایک سپر پاور کی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ پنڈت نہرو کی یہی وہ سوچ تھی، جس نے آگے چل کر غیر جانب دار تحریک کو جنم دیا، اور پنڈت نہرو نے اس میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ پنڈت نہرو کی اس سوچ کے زیر اثر بھارت نے دونوں سپر طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ ایک طرف سوویت یونین کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات قائم کیے۔ اس سے معاشی‘ فوجی اور تکنیکی مدد لی۔ دوسری طرف امریکہ سے بھی اس حد تک تعلق بنانے میں کامیاب ہوا کہ امریکہ سے فوجی امداد تک لے لی۔
بھارت کی یہی وہ پالیسی تھی، جس کی پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اسے آزاد خارجہ پالیسی قرار دے کر اس کی تعریف کی۔ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ جو تعلق اکتوبر انیس سو سینتالیس میں شروع ہوا تھا وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنا گہرا ہو گیا کہ پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے ساتھ عالمی معاہدوں میں شامل ہو گیا۔ بغداد پیکٹ، سیٹو اور سینٹو سے لے کر پاکستان امریکہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ میں شمولیت اس پالیسی کی عکاس ہے۔
دو سپر طاقتوں کے مابین سخت قسم کی سرد جنگ کے دوران واضح طور پر امریکی بلاک کا حصہ بننے کے بعد پاکستان کے لیے عالمی سیاست میں اپنی خود مختاری برقرار رکھنا ایک ناممکن عمل بن گیا تھا۔ دوسری طرف پاکستان مالی تعاون اور امداد کے لیے بھی بڑی حد تک امریکہ یا اس کے زیر اثر مغربی مالیاتی اداروں پر انحصار کرنا شروع ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے معاشی خود مختاری برقرار رکھنا نا ممکن ہو گیا تھا۔ اس معاشی اور تکنیکی انحصار کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات اس نوعیت کے ہو گئے کہ امریکی اہل کار پاکستان کو خارجہ امور پر ''ڈکٹیشن‘‘ دینے لگے۔ ایوب خان کے طویل دور میں روس اور چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کئی ایسے خطوط، اور یادداشتیں موجود ہیں، جن میں امریکی اہل کاروں نے سخت لہجہ اختیار کیا، جس پر مشتمل مراسلے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان مراسلوں کی موجودگی میں میری نظر میں حالیہ مراسلے میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔