نئی حکومت سے عوام کو ہمیشہ نئے اندازِ حکمرانی کی توقع ہوتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد عوام کو بھی یہی توقع تھی۔ لیکن اس باب میں ان کے ابتدائی اقدامات نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے حکمران اشرافیہ ماضی کے تلخ تجربات اور غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھتی۔ حال ہی میں حکومت نے حزبِ مخالف کے رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ قائم کیا ہے۔ یہ ایک مایوس کن خبر ہے۔ اس مایوسی کی وجہ طویل تلخ تجربات ہیں۔ یہ عمل اس بات کا اظہار ہے کہ ماضی کے ان تلخ تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ یہ مایوسی خصوصاً ہماری نسل کے ان لوگوں کے لیے ہے جو اوائل جوانی میں اس باب میں بہت پُر امید تھے اور خوش کن نقطہ نظر رکھتے تھے۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے ہاں تعلیم اور خواندگی کی شرح بہت کم ہے‘اس کی وجہ سے ہمارے ہاں علم و شعور کی کمی ہے۔ علم و شعور میں کمی کی وجہ سے لوگ ان لوگوں کو بھی برداشت کر جاتے ہیں‘ اور بعض صورتوں میں ان کا ساتھ دیتے ہیں جو سیاسی یا ذا تی مقاصد کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اُس وقت سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال دو طریقوں سے ہوتا تھا‘ ایک حکمران طبقات کی طرف سے اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جنرل ضیا کے دور میں جس پیمانے پر مذہبی کارڈ کھیلا گیا اور حکمران طبقات نے جس بے رحمی سے اس کا استعمال کیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جنرل ضیا کی حکمرانی کی شکلیں بدلتی رہی ہیں‘ مکمل مارشل لاء سے لے کر پارلیمنٹ کے نام پر مجلس شوریٰ جیسے نمائشی ادارے کے قیام تک یہ آمریت مختلف روپ دھارتی رہی‘ لیکن ان سب شکلوں میں ضیا الحق کا اوڑھنا بچھونا نفاذِ شریعت کا نعرہ رہا۔ اس دور میںمذہب کے نام پر پاکستانی عوام کے ساتھ جتنے جھوٹ بولے گئے‘ جتنی وعدہ خلافیاں ہوئیںاور جس قدر دھوکے دیے گئے اس کی مثال کسی اور دور میں نہیں ملتی۔ اس دور کا آغاز ہی اس جھوٹ اور جھوٹے وعدے سے کیا گیا کہ نوے دن کے اندر انتخابات کروا کر اقتدار ملک کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ پھر ہر بار کوئی نہ کوئی جھوٹا وعدہ ہوتا اور ٹوٹتا رہا۔ مذہب کے نام پر ایک عشرے تک عوام سے فریب مسلسل ہوتا رہا۔اس طرح ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب ہوتا رہا جن کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو بندوق کی نوک پر اقتدار سے ہٹادیا گیا۔ پھر فریب و جبر سے کام لیتے ہوئیے اس وزیراعظم کی پھانسی کے لیے عدالتوں سے ایسا فیصلہ لیا گیاجس پر آج تک پاکستان کا ہر صاحبِ ضمیر قانون دان شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ملک میں جمہوریت کا قتل ِعام کیا گیا۔ سیاسی کارکنوں پر جیلوں اور عقوبت خانوں میں تشدد کیا گیا‘ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا‘ ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور ان کے کپڑے پھاڑے گئے۔
خارجہ محاذ پر اس سے بھی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب ہوا۔ پاکستان کو عالمی سامراجی لڑائی میں جھونک دیا گیا۔ اسلام کے نام پر سوویت یونین کے خلاف محاذ کھولا گیااور امریکی ڈالر کے زور پر لاکھوں لوگوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔مذہب کے نام پر ایک عفریت تخلیق کیا گیا اور پاکستان کے لوگ دہشت گردی کی شکل میں اس عفریت کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے اور آج تک اس کی تباہ کاریوں کی کوئی نہ کوئی شکل نظر آتی ہے۔ یہ ایک حکمران کی طرف سے اس کارڈ کا فریب کارانہ اور کھلا استعمال تھا لیکن یہ کوئی واحد حکمران نہیں تھا جس نے ایسا کیا دیگر حکمران بھی اپنی ضروریات اور مفادات کے لیے گاہے یہی کارڈ استعمال کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جو حکمران اپنے آپ کو سیکولر تصور کرتے تھے انہوں نے بھی وقت پڑنے پر مذہبی کارڈ کے بے دریغ استعمال سے گریز نہیں کیا۔ ایوب خان اس سلسلے کی ایک سبق آموز مثال تھے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں انہوں نے امریکی پالیسیوں کے مطابق کمیونزم کے خلاف مذہب کا استعمال کیا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ کچھ مذہبی شخصیات کا سہارا لیا گیا جنہوں نے اشتراکیت کے خلاف فتوے دیے۔ اسی تناظر میں کمیونزم کے خلاف امریکی جنگ کے دوران بعض علما کے تعاون سے اس جنگ کوا سلام اور کفر کی جنگ قرار دیا گیاحالانکہ اس جنگ کا کوئی تعلق اسلام یا کفر سے بنتا ہی نہیں تھا اور نہ ہی اسلام اور اشتراکیت کا کوئی براہ راست تصادم یا ٹکراؤ تھا۔ پاکستان کے کچھ علما نے اس نکتے کو واضح کرنے کی کوشش بھی کی مگر ان کی بات کو مروجہ جنون کے ماحول میں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔
ایوب خان نے انتخابات کے دوران بھی مذہبی کارڈ کھیلا۔ انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بعض نام نہاد علما سے فتوے دلوائے اور عورت کی حکمرانی کے خلاف ان سے تقاریر بھی کروائیں۔ اس باب میں پاکستان کے حکمران اشرافیہ کا ریکارڈ اتنا افسوسناک رہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا سیکولر اور ترقی پسند حکمران بھی مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے باز نہ رہ سکا۔ مذہبی طبقات کو خوش کرنے اور خاموش کرانے کے لیے انہوں نے بھی کئی ایسے اقدامات کیے جو براہ راست ان کی پارٹی کے بنیادی نظریات سے متصادم تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان سے پہلے بھی کئی حکمرانوں نے مذہبی کارڈ کھیلا۔ اس عمل کا آغاز شروع میں ہی ہو چکا تھا جب قائد اعظم کی پالیسیوں سے واضح انحراف کا عمل شروع ہوا۔
حکمران طبقات نے تو مذہب کا استعمال اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لیے کیا لیکن ایسے شخصیات اور سیاسی پارٹیوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے مذہبی تقدس اور سادہ لوح عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ کچھ نیم مذہبی اور نیم سیاسی پارٹیوں نے اسلام اور نفاذ شریعت کے نام پر جنرل ضیا جیسے طالع آزماؤں اور آمریت پسندوں کا ساتھ دیا۔ مذہب کے نام پر جہاد اور دہشت گردی میں بھی کئی گروہ اور جماعتیں شامل رہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل موجود ہے اور وقتاً فوقتا اس کے مظاہر مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ تین سال کے دوران بھی سیاست میں مذہبی کارڈ کا استعمال بڑے پیمانے پر ہوا اور عوام کو سہانے خواب دکھائے گئے۔ حال ہی میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد بھی اس پارٹی نے یہ روش برقرار کھی ہوئی ہے اور عوام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش اور کوشش جاری ہے‘ مگر نئی حکومت نے اس سلسلے میں جو اقدامات کئے ہیں وہ مایوس کن ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر حزب مخا لف کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کا اندراج ایک افسوسناک عمل ہے‘ جس کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کے بڑے درد ناک واقعات ہوتے رہے ہیں۔ عام طور پر ان واقعات کی بنیاد مذہبی منافرت اور فرقہ واریت رہی ہے یا پھر کبھی کبھار ذا تی دشمنی اور مفادات کی بنیاد پر بھی کچھ جھوٹے مقدمات قائم ہوئے ہیں‘ مگر سیاسی سطح پر اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی مخالفین کے خلاف اس قانون کے استعمال کی یہ پہلی مثال ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور انتقامی سیاست کا اظہار ہے۔ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی اس روایت کو آگے بڑھانے کے بجائے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔