ہجوم کی حکمرانی کسے کہتے ہیں؟ ہجومی حکومت کیا ہوتی ہے؟ انبوہ گردی کیا ہے؟ مابوکریسی اور اوکلوکریسی جیسی اصطلاحوں اور الفاظ کا کیا مطلب ہے؟ یہ ساری اصطلاحیں اردو کے سیاسی لٹریچر میں مشکل اور اجنبی سی لگتی ہیں‘ مگر موجودہ حالات سے ظاہر ہے کہ اب پاکستان میں عوام اور دانشوروں کو مجبوراً ان اصطلاحوں کے بارے میں جاننا پڑے گا۔ دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی یہ اصطلاحات عام ہو رہی ہیں۔ ان کے بارے میں لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ دیگر مشکل اصطلاحوں کی طرح اوکلو کریسی بھی قدیم لاطینی اصطلاح ہے‘ جس کو انگریزی میں مابوکریسی یعنی ماب رُول کے آسان نام سے پکارا جاتا ہے۔ دنیا کی ہر اچھی ڈکشنری میں ماب رُول کی تعریف درج ہے۔ اس تعریف کے مطابق عوام کے ایک بہت بڑے انبوہ یا ہجوم کی حکومت ہے ‘ جو قانونی اتھارٹی کے اختیارات کو چیلنج کرتی ہے۔ ہجوم کی حکمرانی کی اصطلاح انگریزی میں1688 ء کے انقلاب کے دوران استعمال ہونا شروع ہوئی جب انگلستان کے بادشاہ جیمز دوم کا تختہ الٹا گیااور اس کی جگہ اس کی بیٹی میری کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن اوکلوکریسی کی اصطلاح دوسری صدی قبل مسیح سے استعمال ہوتی آ رہی ہے۔
دوسری صدی قبل مسیح میں لکھتے ہوئے یونانی مورخ پولی بیئس نے پہلی بار اس اصطلاح کو سیاسی ادب کا حصہ بنایا۔ اس نے یہ اصطلاح پاپولر حکمرانی کے پیتھولوجیکل یعنی مرضیاتی اور بیمار شکل کی وضاحت کرنے کے لیے استعمال کی۔ ہمارے دور میں مابوکریسی کی اصطلاح عام ہے‘ جس کی ہمیں سیاسی لٹریچر میں بار بار ضرورت پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دور میں لوگوں کا ہجوم اکٹھا کر کے کسی بھی حکومت کو ڈرانا‘ اس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا‘ اپنی مرضی کے مطالبات منوانا اور یہاں تک کہ حکومت پر ہی قابض ہو جانے جیسے واقعات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کے واقعات گزشتہ کئی سالوں سے عام ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی مذہبی یا سیاسی گروہ جو تیس چالیس ہزار لوگ جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو‘ وہ کسی نہ کسی شکل میں لوگوں کو لے کر سڑکوں پر آتا ہے‘ جس کے بعد حکومت اور ریاست کی عملداری محدود ‘ مشروط یا ختم ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں کئی پارٹیوں اور گروہوں نے اس عمل کا اظہار کیا۔ ان میں وہ لوگ اور پارٹیاں بھی شامل ہیں‘ جو آج اقتدار میںہیں لیکن اس وقت ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مابوکریسی اور اوکلوکریسی کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ اور جو لوگ عوام کا ہجوم لے کر اپنے مرضی کے مطالبات منوانا چاہتے ہیں‘ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ اور جو لوگ آج ہجوم کے زور پر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں‘ کل وہ اقتدار میں بیٹھے تھے‘ اور ان کو ایک ہجوم کا سامنا تھا۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے‘ جو کسی شخصیت یا پارٹی کو نہیں بلکہ جمہوریت کو بطور نظام در پیش ہے۔ یہ جمہوریت بنام مابوکریسی کا مقدمہ ہے۔ یہ صورت حال صرف پاکستان میں ہی نہیں دیگر ممالک میں بھی ہے البتہ پاکستان میں اس کی شکل زیادہ پیتھولوجیکل یعنی مرضیاتی ہے۔ اس میں زیادہ شدت ہے۔ مغرب میں قانون کی حکمرانی ہے۔ اصول و ضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لیے مابوکریسی کی وہ شدت نہیں ہے جو ہمارے ہاں نظر آتی ہے مگر یہ مرض موجود ضرور ہے۔
پاکستان کی طرح مغرب میں بھی مابوکریسی کا ابھار بہت سارے لوگوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ دانشور لوگ جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے مابوکریسی کا عمل کچھ لوگوں کے لیے فکر مندی کا باعث بنا تھا اور اب بھی ہے۔ یہ فکر بڑھ رہی ہے کہ ٹرمپ دو ہزار پچیس میں وائٹ ہاؤس میں واپسی کے لیے جوڑ توڑ کر رہے ہیں۔ دوسرے مغربی ممالک میں دیکھیں تو فرانس میں‘ ایک نہیں بلکہ دو انتہائی دائیں بازو کے پاپو لسٹ سیاستدانوں کی طرف سے صدارت کے عہدے کے حصول کی کوشش اس کی بہترین مثال ہے اور اٹلی میں‘ لیگ کے میٹیو سالوینی اور پوسٹ فاشسٹ ''برادرز آف اٹلی‘‘ کی جارجیا میلونی جیسے لوگ آنے والے انتخابات میں کامیابی کے بارے میں پر امید ہیں۔
بظاہر ہم جمہوریت کے دور میں زندہ ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ہم نے آمرانہ لیڈروں کو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آتے دیکھا ہے۔ پولی بیئس سے پہلے افلاطون اور ارسطو‘ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ جمہوریت ہمیشہ بدلتے ہوئے حالات اور آسانی سے عوامی مزاجوں میں ڈھلنے کی وجہ سے ممکنہ طور پر کمزور ثابت ہو سکتی ہے۔ اس زمانے میں ہم اس کو پاپولزم کہتے ہیں‘ ایک ایسا لیبل جو ہمیں جمہوری پسپائی کا تمام تر الزام ٹرمپ‘ لی پین اور سالوینی جیسی انفرادی پاپولسٹ شخصیات پر ڈالنے کی اجازت دیتا ہے۔
ہماری صدی یعنی اکیسویں صدی کی اوکلوکریسی عوامی زندگی کے وسیع تر حصوں کو متاثر کرنے کے لیے کلاسک پاپولزم سے بھی ایک قدم آگے بڑھنے کا رجحان رکھتی ہے۔ اس عمل کی تین علامات آج نمایاں ہیں۔ سب سے پہلے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں غیر واضح اور مبہم ہیں اور نئے لیڈروں کو مابوکریسی اقتدار تک جانے کا شارٹ کٹ لگتا ہے ۔ امریکہ میں ریپبلکن پارٹی تو تاریخی طور پر اس کی ایک مثال ہے لیکن گزشتہ دو صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس نے بھی دیرینہ اسٹیبلشمنٹ کے قدآور افراد کو آگے بڑھانا جاری رکھا یہاں تک کہ یہ تاثر عام ہو گیا کہ نئی شخصیات اور نئے خیالات وقت کی ضرورت بن گئی ہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم بورس جانسن نے کنزرویٹو پارٹی کی کمان سنبھالی‘ پہلے بریگزٹ کے بارے میں جھوٹ بول کر اور پھر اس خوش فہمی کو پالا کہ یورپی یونین سے علیحدگی آسان اور فائدہ مند ہو گی۔
اٹلی میں صورت حال بہتر نہیں ہے جہاں کسی بھی مرکزی دھارے کی پارٹی کے پاس نئے لیڈروں کے انتخاب یا پالیسی پروگرام وضع کرنے کے لیے کوئی قابل اعتبار داخلی جمہوری عمل نہیں ہے۔ وہ اتنے بے بس ہیں کہ پیچیدہ بحرانوں کو سنبھالنے کے لیے پاکستان کی طرح انہیں بھی باقاعدگی سے ٹیکنوکریٹس کو بلانے کی ضرورت پڑتی ہے‘ جیسا کہ ماضی میں وزیر اعظم ماریو مونٹی اور ماریو ڈریگی کے ساتھ ہوا۔ دنیا میں جمہوری زوال کی دوسری بڑی علامت میڈیا کا انحطاط ہے۔ جمہوریت کو نقصان اس وقت ہوتا ہے جب میڈیا کے ادارے متعصب‘ پولرائزڈ اور کم ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ سیاسی طور پر پولرائزڈ ہوتا ہے تو پبلشرزاور ایڈیٹرز آبادی کے ہم خیال طبقات میں تجارتی مواقع دیکھتے ہیں۔
ایک تیسری علامت سیاست دانوں کے خیالات اور فیصلوں پر سوشل میڈیا کی چہچہا ہٹ کا غالب اثر اور دبائو ہے۔ کھوکھلی پارٹیوں والا سیاسی نظام اس طرح کے دباؤ کے سامنے جھکنے کا زیادہ امکان رکھتا ہے۔ جیسے جیسے نظام طویل المدتی مسائل کو حل کرنے میں تیزی سے ناکام ہوتا ہے‘ اس پر اعتماد ختم ہوتا جاتا ہے اور رائے عامہ تیزی سے غیر مستحکم ہوتی جاتی ہے جس کے نتیجے میں شور‘ غیر موثریت‘ لا پروا میڈیا‘ جارحانہ بیان بازی‘ اور کم نظری والے سیاسی پروگراموں کا رجحان عام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں ایک عرصے سے ہو رہا ہے۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کا چلن عام ہے۔ اس عمل میں کوئی ترقی پسند یا انقلابی قوتیں نہیں ہیں‘ نہ ان سے کسی انقلاب کی توقع باندھنی چاہیے۔ یہ حکمران اشرافیہ کے اپنے اندرونی تضاد ات اور لڑائی ہے، اس لڑائی کی وجہ سے نظام نہیں بدل رہا بلکہ ڈیموکریسی کی جگہ مابوکریسی اور اوکلو کریسی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔