یہ معجزوں کا دور نہیں ہے‘ لیکن پاکستان کی حکمران اشرافیہ شاید اس دور میں بھی کسی معجزے کی توقع رکھتی تھی‘ جو ان کے خیال میں‘ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد رونما ہونے والا تھا۔ ایسے کسی معجزے کے بغیر محض جذبے یا خواہشات کے زور پر تیل کی قیمت کم کرنے کے بارے میں سوچنا غیر منطقی بات ہے۔ حکمرانوں کو اگر کسی معجزے کی توقع نہ ہوتی تو کیا ان کی صفوں میں موجود ماہرینِ معاشیات نہیں جانتے تھے کہ دنیا میں تیل کی قیمت بڑھنے کے اسباب کیا ہیں؟ اور یہ کہ آنے والے وقت میں قیمتیں مزید بڑھیں گی۔ پاکستان کے غریب عوام کی مشکلات میں ناقابلِ بیان اضافہ ہوگا‘ اور حکمران اس کا مداوا نہیں کر سکیں گے۔ حکمران اگرمعجزوں کی توقع نہ رکھتے تو کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ سرکاری خزانے میں اتنی دولت نہیں ہے کہ آپ برطانیہ جیسے دولت مند ملکوں کی طرح عوام کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دے سکیں۔ آپ کے پاس امریکہ کی طرح تیل کے سٹریٹیجک ذخائر بھی نہیں ہیں کہ ان کو نکال کر مارکیٹ میں پھینک کر تیل کی قیمت کنٹرول کر سکیں۔
ماہرینِ معاشیات کہتے آ رہے تھے کہ کورونا بحران کے بعد دنیا کو توانائی کی قیمتوں کے بحران کا سامنا کرنا ہو گا۔ کورونا کے ساتھ روسی بحران کو ملا لیا جائے تو یہ 1970ء کے تیل کے بحران کی طرح‘ نصف صدی بعد دنیا میں ایک اور خوفناک بحران کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ بحران ساری دنیا میں عوام‘ حکمران اشرافیہ اور پالیسی سازوں کے لیے سب سے بڑا دردِ سر ثابت ہو رہا ہے۔ تیل کے صارفین سخت قسم کی جذباتی افسردگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ مہنگائی میں نا قابلِ تصور اضافہ ہو رہا ہے‘ اور دنیا نے تیز رفتار ترقی کے حوالے سے اس دہائی سے جو امیدیں لگا رکھی تھیں‘ وہ کمزور ہو رہی ہیں۔
سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ تاحال دور دور تک اس بحران کے حل کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ جو لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں‘ ان کی بات ایک حد تک درست ہے‘ مگر وہ بہت سارے دوسرے حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ساختی تبدیلیوں کی وجہ سے تیل کی عالمی سپلائی کم ہوئی ہے‘ جب کہ طلب میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔اس معاملے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے چند سال پیچھے جا کر تیل کی رسد، طلب اور قیمتوں پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ کورونا سے پہلے‘ 2019ء میں‘ تیل کی مارکیٹ ایک متوازن مارکیٹ تھی۔ پوری دنیا میں تیل کی طلب تقریباً 100.3ملین بیرل یومیہ تھی۔ اسی طرح سپلائی تقریباً 100.6 ملین بیرل تھی۔ گویا مارکیٹوں کو آسانی سے کام کرنے کے لیے سپلائی اور ڈیمانڈ کے معمولی فرق سے واسطہ تھا۔ سپلائی اور ڈیمانڈ میں اس معمولی فرق کی وجہ سے قیمتوں میں ایک توازن تھا۔
آج‘ تین سال بعد‘ دنیا اُس وقت کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے؟ عالمی آبادی میں سالانہ 1فیصد اضافے اور مجموعی دولت میں اضافے کی وجہ سے تیل کی طلب اس وقت تقریباً ایک سو تین ملین بیرل یومیہ ہے‘ لیکن سپلائی کی رفتار وہ نہیں ہے۔ اب بھی سپلائی پہلے ہی کی طرح تقریباً 100.6 ملین بیرل ہے۔ دوسری طرف آبادی اور دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ روس سے تقریباً ایک ملین بیرل کی سپلائی کم ہوئی ہے‘ جس کی وجہ سے قیمتوں میں وہ توازن نہیں رہا جو تین برس قبل تھا۔ اس سارے عمل کا نتیجہ ایک ایسی مارکیٹ ہے‘ جس میں مسلسل دو سال سے سپلائی کم ہے اور طلب زیادہ۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک اپنی اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق اقدامات کر رہے ہیں۔ امریکہ سمیت دوسرے امیر ممالک نے قیمتوں کو کم کرنے کی کوشش میں سٹریٹیجک ذخائر سے تیل استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس سال موسم بہار میں امریکہ نے اپنے ذخائر سے ایک ملین بیرل یومیہ تیل استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا‘ جس کی وجہ سے بینک آف امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سطح پر تیل کے جمع شدہ ذخائر ''خطرناک حد تک نچلی سطح‘‘ پر آ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس نے ڈیزل کی برآمدات کو محدود کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ لیکن ظاہر ہے اس عمل سے قیمتیں کم نہیں ہوں گی اور نہ ہی سپلائی کو بڑھانے میں مدد ملے گی‘ کیونکہ وہ پائپ لائن‘ جو خلیج سے مشرقی ساحل تک ایندھن لے کر جاتی ہے‘ پہلے ہی بھری ہوئی ہے اور مزید سپلائی نہیں لے سکتی۔ بحری جہازوں کی بھی قلت ہے‘ کیونکہ اس مقصد کے لیے ضابطے کے مطابق‘ صرف امریکی بحری جہاز ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ امریکہ کی طرح دوسرے دولت مند ممالک نے بھی صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ برطانیہ نے اس مقصد کے لیے توانائی کمپنیوں پر ایندھن کی سبسڈی اور کم آمدنی والے گھرانوں کو براہِ راست ادائیگیوں پر چھ بلین ڈالر کے ''وِنڈ فال ٹیکس‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ برطانیہ کے اقدامات سے توانائی کی سپلائی میں اضافہ تو نہیں ہوا لیکن طلب میں اضافہ ضرور ہوا ہے‘ جس سے قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ حل نہیں ہوا‘ بلکہ مزید سنگین شکل اختیار کر رہا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے دولت مند ممالک کی طرف سے وِنڈ فال ٹیکس اور درآمدات پر پابندی سے شاید ان کے شہریوں کی مشکلات میں کچھ کمی ہوئی ہو‘ لیکن اس سے تیل کی قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اس قصے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر عالمی سپلائرز ایک سو تین ملین بیرل یومیہ کی طلب کو پورا نہیں کر سکتے‘ تو زیادہ قیمتوں سے طلب کو گھٹانا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر‘ سپلائی اس وقت تک کم ہوتی رہے گی جب تک قلت کا خطرہ حقیقی صورت اختیار نہیں کر جاتا۔ زیادہ قیمتیں‘ دوسرے الفاظ میں‘ ایندھن کے مکمل طور پر ختم نہ ہونے کی قیمت ہیں۔ اگر حکومتیں اضافی قیمت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں‘ تو وہ مسئلے کو حل کرنے کے بجائے ادائیگی کے لیے محض کندھا بدل رہی ہیں۔
اس گمبھیر صورت حال کا حل روسی سپلائی کی بحالی ہے یا پھر اس کی جگہ سعودی عرب کی طرح کا کوئی دوسرا ذریعہ تلاش کرنا‘ جو ایک سو ملین بیرل کی روسی کمی کو پورا کر سکے۔ ایسا جلدی جلدی ہونا ممکن نہیں۔ روسی سپلائی کی بحالی یا متبادل ذرائع کی تلاش‘ دونوں وقت طلب کام ہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں‘ جو نئی حکومت اور اس کے معاشی مشیر اقتدار پر براجمان ہونے سے پہلے جانتے ہوں گے‘ یا کم از کم اقتدار کی خواہش سے پہلے ان کو یہ حقائق جاننا چاہئے تھے۔ سادہ لوح عوام کی حکمرانوں سے توقعات وابستہ ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے تیل کی قیمتیں نہ بڑھانے کی نیک خواہش کا اظہار کیا مگر یہ نیک خواہش زمینی حقائق سے متصادم تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قیمتوں کو مقامی سطح پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ امیر ترین ممالک خواہش کے باوجود ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ البتہ عوام کو ان قیمتوں کی اثرات سے کسی حد تک بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے صرف عوام سے ہمدردی کافی نہیں‘ بلکہ معاشی نظام میں بنیادی اور با معنی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔