تبدیلی کا خواب نظام میں تبدیلی کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس حقیقت سے جو لوگ انکار کرتے ہیں وہ یا تو تبدیلی کے عمل کو نہیں سمجھتے یا پھر محض سیاسی منفعت کے لیے تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ پاکستان میں جو نظام اس وقت رائج ہے وہ فرسودگی کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ نظام گل سڑ رہا ہے جس کی سرانڈ ہر طرف محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہاں خلقِ خدا کا انبوہ کثیر غربت کی لکیر سے کہیں نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ موجودہ فرسودہ نظام اس خلقِ خدا کو نہ تو روٹی کپڑا اور مکان دے سکتا ہے اور نہ ہی تعلیم‘ صحت اور روز گار جیسی سہولیات دے سکتا ہے‘ جن کو اب دنیا میں انسان کی بنیادی ضروریات اور بنیادی حقوق تصور کیا جانے لگا ہے۔ ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں داخل ہو چکے ہیں‘ یہ وہ دور ہے جب کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی انسانی ضروریات اور سہولیات فراہم کرنے سے زیادہ دیر تک پہلو تہی نہیں کر سکتی‘ لیکن فرسودہ معاشی و سماجی ڈھانچے اور فرسودہ سوچ کی موجودگی میں کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ تبدیلی نئی سوچ کی متقاضی ہے اور نئی سوچ کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی نظام انسانی مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو اس کے متبادل نظاموں پر غور کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا اور مکرر عرض ہے کہ متبادل پر غور و فکر ان ممالک میں بھی ہو رہا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور نیو لبرل ازم کے خالق اور اس کے پر جوش پر چارک رہے ہیں‘ لیکن پاکستان کے دانشور طبقات اور سیاسی پارٹیوں میں متبادل کے بارے میں کوئی سوچ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تاریخ میں انسان نے بے شمار معاشی و سیاسی نظاموں کا تجربہ کیا ہے۔ قدیم قبائلی‘ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں اور تہذیبوں نے سوشلزم اور مشترکہ ملکیت کے تصورات کو بھی اپنایا ہے۔ اس سلسلے میں قدیم تھیو کریٹک سوشلزم سے لے کر جدید یوٹوپیائی سوشلزم تک کے انسانی سفر کا خاکہ گزشتہ کالم میں پیش کیا تھا‘ جس میں بات جدید سوشلزم تک پہنچی تھی۔
جدید سوشلزم کی ابتدا یورپ سے ہوئی۔ سوشلسٹ خیالات کے پس منظر میں یورپ کے اس وقت کے مخصوص حالات تھے۔ اس پس منظر میں یورپ میں روشن خیالی کا دور بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یورپ میں روشن خیالی کا دور سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی کے درمیان کا دور ہے۔ روشن خیالی بنیادی طور پر ایک فلسفیانہ ‘ عقلی اور دانشورانہ تحریک کا نام ہے۔ یہ تحریک یورپ میں سترہویں اٹھارہویں صدی کی تحریکوں میں ایک غالب تحریک کی حیثیت رکھتی ہے جس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے۔ روشن خیالی اپنے دامن میں بے شمار خیالات لیے ہوئے تھی۔ مثال کے طور پر انسانی مسرت کیا ہے؟ زندگی میں حقیقی مسرت کا حصول کس طرح کے نظام زندگی میں ممکن ہے۔روشن خیالی کی تحریک میں عقلی اور سائنسی ذرائع کے تحت علم کا حصول اور سیاسی سطح پر آزادی‘ ترقی‘ رواداری‘ بھائی چارہ‘ آئینی حکومتوں کا قیام اور چرچ سے ریاست کی علیحدگی جیسے تصورات شامل تھے۔ روشن خیالی کی جڑیں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں میں پیوست تھیں۔ اس کے پس منظر میں یورپ میں برپا ہونے والا سائنسی انقلاب بھی تھا‘ فرانسس بیکن جیسے دانشوروں کے خیالات تھے اور رینے ڈکارٹ جیسے لوگوں کا کام بھی تھا جس نے کہا تھا'' میں سوچتا ہوں‘ اس لیے میں ہوں‘‘۔ اس کے علاوہ آئزک نیوٹن جیسے سائنسدان تھے جن کی وجہ سے یورپ میں سائنسی انقلاب کی ابتدا ہوئی۔ جدید سوشلزم کے خیالات کے پس منظر میں دوسرا بڑا عنصر لبرل ازم کا ابھار تھا۔ لبرل ازم ایک سیاسی اور اخلاقی فلسفہ ہے‘ جس کی بنیاد فرد کی آزادی‘ جمہوریت اور قانون کے سامنے سب کی برابری جیسے تصورات پر رکھی گئی تھی۔ آگے چل کر لبرل ازم نے کئی قسم کے خیالات کو اپنے اندر سمویا ہے لیکن یہ نظریہ عام طور پر فرد کی آزادی‘ آزاد خیال جمہوریت‘ سیکولرازم‘ قانون کی حکمرانی‘ سیاسی و معاشی آزادی‘ اظہارِ رائے کی آزادی‘ مذہبی آزادی‘ نجی ملکیت اور مارکیٹ اکانومی کا پر چارک رہا ہے۔ جدید سوشلزم کے پس منظر میں تیسرا عنصر یورپ کا صنعتی انقلاب تھا۔ یہ1760ء سے لے کر 1840ء کے درمیان کا دور تھا جب بر اعظم یورپ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دستکاری کی جگہ مشینوں نے لینی شروع کی‘ جس کی وجہ سے صنعتی انقلاب برپا ہوا‘ مزدور طبقے کی تعداد‘ طاقت اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔یہ وہ دور تھا‘ جب مونٹیسکوئیو‘ والٹیئر‘ روسو اور دیگر یورپی دانشوروں جیسے ایڈم سمتھ اور عمانویل کانٹ وغیرہ نے حکومتوں کے روایتی دائرہ کار‘ پالیسیوں اور کردار پر تنقید شروع کی۔ ان دانشوروں کا خیال تھا کہ اصلاحات کے ذریعے ایسی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں جن سے صرف مراعات یافتہ اشرافیہ کو ہی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ان روشن خیال مفکرین نے عام طور پر معاشی اور سماجی سطح پر حکومتی مداخلت کے سلسلے میں یہ تجویز کیا کہ حکومت کو افراد پر اپنے کنٹرول کے لیے بہت ہی محدود اختیار ہونا چاہیے۔ کچھ دوسرے مفکرین کا نظریہ مختلف تھا جیسا کہ فرانسیسی مصنفین جین میسلیئر‘ ایٹین گیبریل موریلی اور ایبی ڈی میبلی جنہوں نے دولت کی دوبارہ تقسیم اور نجی جائیداد کے خاتمے کے ذریعے معاشرے میں عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے مختلف منصوبے پیش کیے۔ فرانسیسی روشن خیال فلسفی مارکوئس ڈی کونڈورسیٹ نے نجی املاک کے وجود کی مخالفت نہیں کی لیکن اس کا ماننا تھا کہ معاشرے میں مصائب کی بنیادی وجہ نچلے طبقے کے پاس زمین اور سرمائے کی کمی ہے اور اس نے جدید سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کی طرح کی پالیسیوں کی حمایت کی جو سب سے زیادہ کمزور طبقات کی حفاظت کے لیے استعمال ہوں۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں برطانیہ کی صنعتی معیشت میں عدم مساوات کے جواب میں تھامس سپینس اور تھامس پین جیسے دانشوروں نے سماجی اصلاحات کی وکالت شروع کی۔1770 ء کی دہائی کے اوائل میں سپینس نے زمین کی مشترکہ ملکیت‘ جمہوری طریقے سے حکومت چلانے اور خاص طور پر ماؤں اور بچوں کے لیے فلاحی تعاون کا مطالبہ کیا۔ تھامس پین نے زرعی انصاف کے موضوع پر اپنی تحریروں میں غریبوں کی ضروریات کی ادائیگی کے لیے جائیداد کے مالکان پر ٹیکس لگانے کا ایک تفصیلی منصوبہ تجویز کیا۔ سماجی مساوات اور جمہوریت کے پر چار کی وجہ سے کنڈورسیٹ اور پین کو سماجی جمہوریت کے پیشرو کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ چارلس ہال نے اپنے زمانے کے غریبوں پر سرمایہ داری کے اثرات کی مذمت کرتے ہوئے عوام پر جدید تہذیب کے اثرات کا جائزہ پیش کیا۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب کے بعد کی دہائی میں انقلاب کے بعد کے دور میں فرانسیسی نظریہ سازوں نے مساوات پسندانہ خیالات کو پھیلایا‘ جنہوں نے بعد میں ابتدائی فرانسیسی مزدور اور سوشلسٹ تحریکوں کو متاثر کیا ان خیالات نے خاص طور پر انقلابی سوشلزم اور جدید کمیونزم کے ابھرتے ہوئے تصورات کی بنیاد رکھی۔ ان سماجی ناقدین نے صنعتی انقلاب کے دور کی غربت اور عدم مساوات پر تنقید کی‘ اور اصلاحات کی وکالت کی۔ دولت کی مساویانہ تقسیم اور پیداوار کے ذرائع کی اجتماعی ملکیت کا پر چار کیا۔ سوچ کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہوا ہمارے دور تک آتا ہے‘ جس کا احوال کسی آئندہ کالم میں پیش کیا جائے گا۔