پاکستان کا معاشی اور سیاسی بحران ایک مقامی مسئلہ ہے لیکن یہ مسئلہ عالمی معاشی و سیاسی نظام کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو عالمی سرمایہ داری نظام کے بحران اور مسائل سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس وقت نیو ورلڈ آرڈر یا نئے عالمی نظام کے تحت دنیا کے مختلف ممالک کی اکثریت نیو لبرل ازم کے معاشی و جمہوری تصورات کے تابع ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ روس اور چین نے نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف فروری میں جو طویل مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا‘ اس میں بھی نیو لبرل ازم کے معاشی و جمہوری نظام کو چیلنج کرنے کے بجائے اس کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں‘ انہوں نے اس نظام کے خاتمے کے بجائے اس کو منصفانہ بنانے اور سب کو شریک کرنے کی بات کی تھی۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ دنیا میں حکمران اشرافیہ بیشتر مسائل کا حل صرف سرمایہ داری نظام کے تحت ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی حکمران اشرافیہ کسی متبادل نظام یا راستے پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف دنیا میں بے شمار دانشوروں اور معاشیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں ایک نئے منصفانہ نظام کے قیام اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے متبادل نظام پر غور کی ضرورت ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں دنیا میں ایک سے زائد معاشی و سیاسی نظام رائج رہے ہیں۔ انسان نے مختلف اوقات میں اپنے اپنے انداز میں ان نظاموں کا تجربہ کیا ہے۔ ان میں سے کئی تجربات اپنے وقت کے حساب سے کامیاب رہے ہیں۔ اس باب میں نے انہی سطور میں تاریخی سوشلزم‘ یوٹوپیائی سوشلزم‘ تھیوکریٹک سوشلزم‘ کرسچین سوشلزم‘ بدھسٹ سوشلزم اور اسلامی سوشلزم کا جائزہ لیا گیا تھا۔ یہ سارے نظریے بنیادی طور پر دنیا میں طبقاتی تقسیم کے خاتمے اور ایک منصفانہ نظام کے قیام کی خواہش پر مبنی تھے۔ گزشتہ کالم میں یہ جائزہ لیا تھا کہ کس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی سوشلزم کے نام پر سوشلسٹ تحریکیں اٹھتی رہیں۔ مصر‘ ایران‘ روس اور دیگر ممالک میں ان تحریکوں نے عوام کی وسیع حمایت حاصل کی۔ اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی اسلامی مساوات اور اسلامی سوشلزم کے نظریات کو کافی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں مشہور عالمِ دین اور ہندوستان کی آزادی کے اہم رہنما عبیداللہ سندھی نے اسلام اور سوشلزم کے درمیان مشترکات کا پرچار کیا۔ عبیداللہ سندھی نے 1910ء کی دہائی میں افغانستان کے راستے روس کا سفر کیا۔ وہ بالشویک انقلاب کے بعد 1923ء تک سویت یونین میں مقیم رہے‘ جہاں انہوں نے سوشلزم کا گہرا مطالعہ کیا اور سوشلسٹ انقلابیوں کے ساتھ طویل بحث و مباحثہ کیا۔ بعد ازاں وہ روس سے ترکی چلے گئے‘ جہاں انہوں نے دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتے ہوئے اسلام اور سوشلزم کے درمیان مماثلت پر بحث و مباحثوں میں حصہ لیا اور اسلامی سوشلزم کے بارے میں اپنے نظریات پیش کیے۔ بر صغیر کی سیاست پر عبیداللہ سندھی کی فکر کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ یہاں تک کہ تحریک پاکستان پر بھی گاہے اسلامی سوشلزم کی جھلک دکھائی دی۔ مرزا عبدالحسین اصفہانی نے اپنی کتاب ''قائداعظم جیسا کہ میں انہیں جانتا تھا‘‘ میں لکھا ہے کہ محمد علی جناح نے 26 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ میں ایک ہجوم کے سامنے اعلان کیا کہ ''آپ صرف میرے جذبات اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی آواز اٹھا رہے ہیں‘ جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان سماجی انصاف اور اسلامی سوشلزم کے اصولوں پر مبنی ہو‘ جو انسان کی مساوات اور بھائی چارے پر زور دیتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے اعلانات پاکستان کے قیام کے بعد آنے والے کچھ حکمرانوں نے بھی کیے۔ محمد رضا کاظمی کی کتاب ''لیاقت علی خان‘ زندگی اور کام‘‘ کے صفحہ 326 تا327 پر لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان نے 25اگست 1949ء کو کہا: آج کل بہت سے ''ازم‘‘ کے بارے میں بات کی جا رہی ہے‘ لیکن ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے لیے صرف ایک ''ازم‘‘ ہے یعنی اسلامی سوشلزم‘ جس کا مختصراً مطلب یہ ہے کہ اس سرزمین کا ہر فرد برابر ہے۔ خوراک‘ رہائش‘ لباس‘ تعلیم اور طبی سہولتیں فراہم کرنا ہر ملک کے لیے لازم ہے۔ جو ملک اپنے عوام کے لیے یہ سہولتیں یقینی نہیں بنا سکتے‘ وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ جو اقتصادی پروگرام تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل تیار کیا گیا تھا‘ وہ اب بھی ہمارے لیے بہترین اقتصادی پروگرام ہے۔ در حقیقت‘ لوگ جتنے بھی نظاموں کو آزماتے ہیں‘ وہ سب بالآخر اسلامی سوشلزم کی طرف لوٹتے ہیں‘ خواہ وہ اسے کسی نام سے بھی پکارتے ہوں۔
1960ء کی دہائی میں پاکستان میں ایوب خان کی آمریت کے دوران طبقاتی تقسیم کے پیشِ نظر کئی دانشوروں نے اسلامی سوشلسٹ خیالات کا پر چار شروع کیا۔ خلیفہ عبدالحکیم کی فکر پر مبنی ان کے خیالات نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی متاثر کیا‘ جب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کے کچھ دانشوروں نے اسلامی سوشلزم کے برانڈ کی ترجیحات کا خاکہ پیش کیا‘ جس میں جاگیرداری اور بے قابو سرمایہ داری کا خاتمہ‘ معیشت کا وسیع تر ریاستی کنٹرول‘ بڑے بینکوں‘ صنعتوں اور سکولوں کو قومیانہ‘ کار خانوں میں شراکتی انتظام کی حوصلہ افزائی اور جمہوری اداروں کی تعمیر شامل ہیں۔ انہوں نے ان پالیسیوں کو قرآن پاک میں موجود مساوات اور انصاف کے اصولوں کی ایک جدید توسیع کے طور پر سیاق و سباق کے طور پر پیش کیا۔ پارٹی کے قیام کی دستاویز نمبر چار کے مطابق اسلامی سوشلزم کے تحت غیر طبقاتی سماج کے قیام کا تصور دسمبر 1967ء میں لاہور میں پیش کیا گیا تھا‘ جس میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا تھا کہ ملک کے تمام سماجی و معاشی مسائل کا حل اسلامی سوشلزم کے نفاذ میں ہے۔ آگے چل کر حیدرآ باد سندھ میں خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ سوشلزم کا پہلا بیج اسلام کے زیر اثر کِھلا تھا۔ یہ پیغمبر اسلام اور ان کے خلفا کرام کا اسلام تھا۔ یہ وہی اسلام تھا‘ جس نے سوشلزم کے تصور اور اصولوں کو جنم دیا۔ اور یہی ہمارا اسلام ہے‘ پاکستان کے عوام کا اسلام۔ لیکن پاکستان کے بیشتر علما کرام نے ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم کی سخت مخالفت کی۔ یہ 1970ء کے الیکشن کا ایک اہم موضوع بن گیا۔ اسلامی سوشلزم دائیں بازوں اور بائیں بازوں کی قوتوں کے درمیان بحث کا اہم ترین نکتہ بن گیا۔ اس موضوع پر مذہبی طبقات نے ایک طرح کا نظریاتی اتحاد قائم کر لیا‘ چنانچہ 113 علما نے اسلامی سوشلزم کے خلاف ایک مشترکہ فتویٰ دیا۔
اس کے باوجود عوام کی ایک بڑی اکثریت میں بائیں بازوں کی قوتوں کے حق میں فیصلہ دیا اور ذوالفقار علی بھٹو بھاری اکثریت لے کر کامیاب ہو گئے لیکن آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے دوران‘ اپنے انقلابی پروگرام کو پیچھے چھوڑ دیا اور 1973ء کے تیل کے بحران کے بعد سوشلسٹ مسلمان ریاستوں کو نظر انداز کرکے قدامت پسند‘ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی بادشاہتوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے پارٹی کے اندر موجود بائیں بازوں کو کمزور کیا اور مذہبی جماعتوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے بے شمار جماعتوں کو رعایتیں دے کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اس تجربے نے ثابت کیا کہ جدید دور میں اسلامی سوشلسٹ معیشت کا قیام جدید سائنسی سوشلزم اور مارکسی تصورات کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ایک سائنسی نظریہ ہے‘ جس کو سائنسی اور عقلی بنیادوں پر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اور جدید دور کے معاشی مسائل کا حل جدید سائنسی اور عقلی نظریات میں مضمر ہے۔