پاکستان میں روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ تو بہت پرانا ہو گیا ہے مگر یہاں یہ مسائل ابھی تک موجود ہیں‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں شدت آتی جا رہی ہے۔ روٹی اور کپڑے کی بات تو پھر کبھی ہو گی لیکن جہاں تک مکان کا تعلق ہے تو ہر آنے والی حکومت اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے کا اہم ترین نکتہ قرار دیتی ہے۔ گزشتہ حکومت کی انتخابی مہم میں ہاؤسنگ ایک اہم ترین نکتہ تھا اور اس باب میں عوام سے بہت بڑے بڑے وعدے بھی کیے گئے تھے مگریہ وعدے ایفا نہ ہوئے‘ حالانکہ اس مسئلے کے حل کے لیے وسائل سے زیادہ سوچ اور جذبے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک مثال کیوبا ہے‘ کم وسائل کے باوجود اس ملک نے اس میدان میں قابلِ رشک کامیابی حاصل کی ہے۔
2020 ء کے ابتدائی برسوں میں جب مجھے کیوبا جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے زیادہ تر گھرانے اپنا ذاتی گھر رکھتے تھے۔ اگر تاریخ میں دیکھا جائے توگھر کے مالکانہ حقوق کا سلسلہ کیوبا نے1959 ء کے انقلاب کے فوراً بعد شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ اس سوشلسٹ ملک کی ''ذاتی ملکیت‘‘ کے بارے میں کچھ حدود تھیں‘ جن کی پاسداری لازم تھی۔ بعد میں رفتہ رفتہ حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ نومبر 2011ء میں کیوبا کی حکومت نے آزاد منڈی کے تحت خرید و فروخت اور دیگر اقدامات کو قانونی شکل دی جس کا مقصد ایک زیر زمین غیر منظم ہاؤسنگ مارکیٹ کو قانونی ضابطوں کے تحت لانا تھا۔ کیوبا میں ہاؤسنگ سے جڑی سیاست کو سمجھنے کے لیے میں نے اپنی ٹورسٹ گائیڈ ایلیسیا کی رہنمائی میں ایک پورا دن صرف کیا۔ ایلیسیا نے مجھے بتایا کہ ذاتی مکانات کی آزاد منڈی میں فروخت کو قانونی شکل دینے کا فیصلہ 2011ء کے موسم بہار میں کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کی چھٹی کانگرس میں کیا گیا تھا‘ جس کا مقصد‘ بقول پارٹی ترجمان‘ کیوبا کے سوشلسٹ نظام کو ''اَپ ڈیٹ‘‘ کرنا تھا۔ کیوبا کے انقلاب کے فوراً بعد ہاؤسنگ کے میدان میں تیزی سے اصلاحات متعارف ہوئیں۔ جو لوگ کرایہ ادا کرنے سے قاصر تھے‘ ان لوگوں کی گھروں سے بے دخلی روک دی گئی تھی۔ زیادہ تر کرائے کم کر دیے گئے‘ جس کی وجہ سے شہری زمین کی قیمتوں پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا۔ 1960ء کے شہری اصلاحات کے قانون کے ذریعے کرایہ دار گھر کی قیمت کرائے کے ذریعے ادا کرکے گھر کے مالک بن گئے۔ زمینداروں اور دیگر جائیدادوں کے مالکان کو اپنے رہائشی گھر وں کے ساتھ ساتھ چھٹیوں کے لیے دوسرا گھر رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ ریاستی تعمیر شدہ مکانات طویل مدتی ''لیز ہولڈنگ‘‘ پر لینے کے لیے شہریوں کو پیش کردیے گئے۔ ان سرکاری گھروں کا کرایہ‘ کرایہ دار خاندان کی آمدنی کا 10 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ پرائیویٹ طور پر مکانات کو کرائے پر دینے سے منع کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ انقلاب کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں سے ضبط کیے گئے خالی گھروں کو ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ غریب شہریوں کو سرکاری مکانات کے طویل مدتی لیز ہولڈر کے طور پررہنے کی اجازت تھی‘ بعد میں ان کو کرایہ ادا کرنے سے بھی مستثنیٰ قراردے دیا گیا۔ مالک مکان اپنے مکانات اور زمین کی خرید اور فروخت کر سکتے تھے‘ لیکن صرف حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قیمتوں پر‘ اور ریاست کے پاس خریدنے کا پہلا آپشن تھا۔ اگرچہ اگلی دو دہائیوں کے دوران زمین اور مکانات کی قانونی خرید و فروخت بہت ہی کم ہوئی۔ ہاؤسنگ ایکسچینج یعنی آپس میں گھروں کا تبادلہ زیادہ عام طریقہ تھا جس سے زیادہ تر گھرانے دوسرے مکان میں چلے جاتے تھے‘ لیکن جائیدادوں کی قیمت سرکاری طور پر متعین ہوتی اور قیمتوں کے مساوی ہونے کی تصدیق کرنا پڑتی۔ مالک مکان کے ورثامکان کی سرکاری قیمت میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے حقدار تھے؛ تاہم جائیداد میں رہنے اور حاصل کرنے کا حق ان لوگوں تک محدود تھا جو مالک کی موت کے وقت اس گھر میں میں رہتے تھے۔ 1984ء اور 1988ء کے جنرل ہاؤسنگ قوانین نے زیادہ تر لیز ہولڈرز کو گھر کے مالکان میں تبدیل کر دیا۔ ہزاروں افراد کی غیر قانونی اور مبہم حیثیت کو بدل کر قانونی بنا دیا گیا۔ نجی کرائے اور چھت کے حقوق کی فروخت کی اجازت دے دی گئی۔ ان نئے قوانین نے ہاؤسنگ مینجمنٹ‘ جانشینی‘ مکانات کی تبدیلی‘ دیکھ بھال‘ مرمت اور بے دخلی کے مسائل کو بھی اَپ ڈیٹ کیا اور نیشنل ہاؤسنگ انسٹیٹیوٹ قائم کیا۔ 1984ء کے قانون میں زمین اور مکانات کی آزاد منڈی کی خرید و فروخت کی بھی اجازت دے دی گئی‘ لیکن چند سال بعد اس پر دوبارہ پابندی لگا دی گئی۔ بہت کم گھرانوں نے گھربیچنے کی ضرورت محسوس کی‘ لیکن مانگ میں کمی اور کم رسد کی وجہ سے قیمتیں بلند ہوئیں۔
اس پس منظر میں 1990 ء کی دہائی کے اوائل تک کیوبا کے 85 فیصد سے زیادہ گھرانوں کے پاس اپنے ذاتی مکان تھے۔ مکان کی ملکیت کے باوجود وہ لوگ صرف اپنے گھروں کی مرمت کی ادائیگی کے ذمہ دار تھے۔ گھروں پر کوئی مارگیج اور پراپرٹی ٹیکس نہیں تھے۔ گھر کی خریداری یا مرمت کے لیے فنانسنگ کو ذاتی قرض سمجھا جاتا تھا اور اس کے لیے مکانات کو ضمانت کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ 1990ء کی دہائی کے معاشی بحران کی وجہ سے بہت سے خاندانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ جنہوں نے اپنے مکان کرائے پر اٹھا کر‘ چھوٹا گھر لے کر‘ کم معیار کے محلے میں منتقل ہو کر‘ یاunder the tableلین دین کر کے ان معاشی مشکلات کا مقابلہ کیا۔ ایک دہائی کے سخت قواعد و ضوابط کے بعد2010 ء میں تعمیراتی اجازت ناموں اور تعمیراتی سامان کی خریداری پر پابندیوں میں کافی حد تک نرمی کی گئی‘ جس کے نتیجے میں مزید تعمیراتی کام شروع ہوئے‘ اور نئے گھر بننے لگے۔
کیوبا میں اگر چہ گھروں کی فروخت اور ''غیر متناسب‘‘ مکانات کے آپس میں تبادلے غیر قانونی تھے‘ لیکن یہ گزشتہ دو دہائیوں سے مقامی ہاؤسنگ اہلکاروں کو رشوت دے کر ہو رہے تھے۔ خریداروں اور بیچنے والوں نے اپنی جائیداد اور آمدنی کو ضبط ہونے کے قانونی خطرے کے باوجود یہ کام جاری رکھا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گھر کے تبادلے کی صورت میں دونوں گھروں کی قیمت کے برابر ہونے کی سرکاری شرط نے گھروں کو منتقل کرنا مشکل بنا دیا تھا۔ اسی طرح غریب لیکن جائیداد کے مالک خاندان گھر بیچ کر نقد رقم حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے سرکار کی طرف سے نئے اقدامات کا مقصد اس طرح کے تضادات کو دور کرنا‘ مارکیٹ میں زیادہ شفافیت لانا اور بدعنوانی کے مواقع کو محدود کرنا تھا۔جنوری 2012 میں کم آمدنی والے رہائشیوں کے لیے ہاؤسنگ کی تعمیر اور مرمت کے لیے ایک نئی سبسڈی شروع کی گئی۔ اس سکیم کے تحت ترجیح ان گھرانوں کو دی گئی جہاں سمندری طوفان اور دیگر قدرتی آفات میں گھر تباہ ہوئے تھے۔
کیوبا میں رہائش کو ایک بنیادی حق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کومراعات‘ سرمایہ کاری کے ذریعے‘ اثاثے یا ایک قابلِ تجارت شے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ حکومت نے اپنے ہر شہری کو چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ یہ ذمہ داری آئین میں بھی تسلیم کی گئی ہے۔ اس طرح یہ بیک وقت آئینی اور نظریاتی ذمہ داری ہے۔ بہت ہی کم وسائل اور تمام تر مسائل اور ناہمواریوں کے باوجود حکومت اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں کامیاب رہی ہے‘ جس کا اعتراف اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک جیسے اداروں نے بھی کیا ہے۔