گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ شکل کو سمجھنے کے لیے ان تعلقات کی ابتدا اور ان کے تاریخی ارتقا کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ تاریخ پاکستان اور اس پورے خطے میں امریکی مفادات اور اس کے زیر اثر خارجہ پالیسی کی تفہیم کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی کی امریکی سیاست اور جنوبی ایشیا میں امریکہ مفادات کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے اس وقت کی اس ابھرتی ہوئی سپر پاور کی عالمی پالیسی اور نظریاتی سمت کو سمجھنا ضروری ہے‘ جس کا اظہار ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن کی شکل میں ہوا۔ ٹرومین ڈاکٹرائن کیا تھا؟ اور اس نظریے کا جنوبی ایشیا سے اتنا قریبی تعلق کیوں تھا ؟
ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے واضح کیا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ دنیا میں ان تمام جمہوری قوموں کو سیاسی‘ فوجی اور اقتصادی مدد فراہم کرے گا‘ جن کو داخلی یا خارجی طور پر آمرانہ قوتوں سے خطرہ در پیش ہو۔ ٹرومین نظریے نے امریکی خارجہ پالیسی کا رخ بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ امریکہ علاقائی تنازعات سے دستبرداری اختیار کر رہا ہے اور جن دور دراز تنازعات میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ براہ راست ملوث نہیں ہے وہ ان تنازعات میں ممکنہ مداخلت سے اجتناب کرے گی۔ٹرومین ڈاکٹرائن صدر ٹرومین کی طرف سے 12 مارچ 1947ء کو کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے پہلے کی گئی تقریر کے ذریعے پیش کیا گیا تھا۔ اس تقریر کی فوری وجہ برطانوی حکومت کا تازہ ترین اعلان تھا کہ 31 مارچ سے وہ یونانی حکومت کو یونانی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف خانہ جنگی میں معاشی مدد نہیں دے گی۔ برطانیہ کے اس واضح انکار کے بعد امریکہ کے پالیسی سازوں نے یہ طے کیا کہ اب امریکہ یہ فریضہ سر انجام دے گااور ہیری ٹرومین نے کانگرس سے کہا کہ وہ یونانی کمیونسٹوں کے خلاف یونانی حکومت کی حمایت کرے۔ انہوں نے کانگرس سے بھی کہا کہ وہ ترکی کے لیے امداد فراہم کرے کیونکہ ترکی بھی پہلے برطانوی امداد پر انحصار کرتا تھا اور برطانیہ نے اس کو بھی مزید امداد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت امریکی حکومت کا مؤقف تھا کہ سوویت یونین یونانی کمیونسٹ پارٹی کی یونانی حکومت کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کر رہا ہے اور امریکہ کو یہ خدشہ تھا کہ اگر کمیونسٹ یونانی خانہ جنگی میں غالب آ گئے تو سوویت یونین کمیونسٹوں کے ذریعے یونانی پالیسی پر اپنا کنٹرول قائم کر لے گا۔ لیکن کچھ غیر جانب دار تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس وقت سوویت یونین کمیونسٹوں کو کوئی مد نہیں دے رہا تھا۔ سوویت رہنما جوزف سٹالن نے جان بوجھ کر یونانی کمیونسٹوں کو کسی قسم کی مدد فراہم کرنے سے گریز کیا تھا اور یوگوسلاویہ کے وزیر اعظم جوسیپ ٹیٹو کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا‘ جس سے سوویت یوگوسلاویہ تعلقات کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ بہرحال امریکہ اپنے مؤقف پر قائم تھا اور یونانی حکومت کی مدد ناگزیر قرار دے رہا تھا۔ یونان اور ترکی کے علاوہ امریکہ کو خارجہ پالیسی کے کچھ دیگر مسائل بھی درپیش تھے جنہوں نے صدر ٹرومین کے فیصلوں کو متاثر کیا خصوصاً سوویت یونین کے ساتھ معاملات میں ٹرومین کو ان کے اپنے الفاظ میں چار شدید دھچکے لگے تھے۔ ان دھچکوں کی وجہ سے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان دوسری جنگِ عظیم کے دوران اور بعد جس طرح کے تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے وہ ممکن نہ رہے۔ امریکہ کو پہلا بڑا دھچکا اس وقت لگا جب 1946ء کے اوائل میں سوویت یونین نے شمالی ایران سے اپنی فوجیں نکالنے کا معاملہ ملتوی کر دیا۔ ایران سے فوجیں نکالنے کا اعلان 1948 ء کے تہران اعلامیہ میں کیا گیا تھا۔ دوسرا دھچکا آزربائیجان میں علیحدگی پسندوں کے بارے میں سوویت یونین کا نیا موقف اور ایرانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کہ وہ انہیں تیل پر رعاتیں دے۔ تیسرا دھچکا ترک حکومت کو آ بنائے ترکیہ کے ذریعے اڈے اور ٹرانزٹ حقوق دینے پر مجبور کرنے کی کوششیں تھا اور چوتھا بڑا دھچکا سوویت حکومت کا جون 1946 ء میں جوہری توانائی اور ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کرنے کے ''باروچ ‘‘ نامی منصوبے کو مسترد کرنا تھا۔
سوویت یونین کے ساتھ بگڑتے تعلقات‘ یونان اور ترکی کے معاملات میں سوویت مداخلت اور یونان کو برطانوی امداد کے خاتمے نے ہیری ٹرومین کو امریکی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ اسی مناسبت سے صدر ٹرومین نے اپنی تقریر میں کانگرس سے درخواست کی کہ وہ یونان اور ترکی کی حکومتوں کو مالی امداد فراہم کرے اور خطے میں امریکی سویلین اور فوجی اہلکاروں اور ساز و سامان کی روانگی میں مدد کرے۔ ٹرومین نے اپنی درخواست کی دو وجوہات پیش کیں‘ ایک یہ کہ یونانی خانہ جنگی میں کمیونسٹوں کی فتح ترکی کے سیاسی استحکام کو خطرے میں ڈال دے گی جس سے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی استحکام کو نقصان پہنچے گا۔ امریکہ قومی سلامتی کے لیے خطے کی بے پناہ سٹریٹجک اہمیت کی روشنی میں اس کی اجازت نہیں دے گا۔ ٹرومین نے دوسری وجہ یہ بتائی کہ ریاست ہائے متحدہ ''آزاد لوگوں‘‘کو ''جابر حکومتوں‘‘ کے خلاف ان کی جدوجہد میں مدد کرنے پر مجبور ہے کیونکہ آمریت کا پھیلاؤ ''بین الاقو امی امن‘‘ کی بنیادوں کو کمزور کر دے گا اور اس سے امریکہ سلامتی خطرے میں پڑھ جائے گی۔ ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن کے مطابق‘ یہ امریکہ کی پالیسی بن گئی کہ وہ'' آزاد لوگوں‘‘ کی حمایت کرے جو مسلح اقلیتوں یا بیرونی دباؤ کے ذریعے محکومی کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ ٹرومین نے اصرار کیا کہ عالمی سیاست میں امریکہ محض ایک تماشائی بن کر کھڑا نہیں ہو سکتااور نہ ہی '' سوویت مطلق العنانیت ‘‘کو آزاد‘ خود مختار اقوام میں زبردستی پھیلنے کی اجازت دے سکتا ہے کیونکہ اب امریکہ کی قومی سلامتی امریکی سرزمین کی سلامتی کے علاوہ اور کئی باتوں پر انحصار کرتی ہے۔
ٹرومین ڈاکٹرائن میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے دوسرے ممالک کی سیاسی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے عملی مدد کی کرنے کا عہد کیا گیا۔ ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن کا اطلاق یوں تو پوری دنیا پر ہوتا تھا لیکن آگے چل کر بر صغیر پاک و ہند میں اس کا اطلاق خصوصی اور لازم تھا‘ کیونکہ یہاں کے حالات کی یونان اور ترکی کے حالات سے بہت زیادہ مماثلت تھی۔ تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت کئی دوسرے تنازعات سر اٹھانا شروع ہو چکے تھے۔ برطانیہ کے فیصلہ سازوں نے امریکہ کو بتانا شروع کر دیا تھا کہ انگلستان جنگ کی تباہیوں اور اپنی دیگر عالمی ذمہ داریوں کے پیش نظر برصغیر میں کسی قسم کی ذمہ داری لینے اور مالی امداد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس وقت تک امریکی پالیسی یہ تھی کہ برصغیر کے معاملات میں کچھ وقت کے لیے برطانیہ پر انحصار کیا جائے۔ ان علاقوں سے برطانیہ کے دیرینہ تعلق اور انٹیلی جنس سے استفادہ کیا جائے اور ہو سکے تو برطانیہ ان علاقوں میں سوویت مداخلت روکنے یا اندرونی طور پر کسی قسم کے سوشلسٹ انقلاب کے خلاف مکمل ذمہ داری لے‘لیکن برطانیہ کے جواب اور یونان اور ترکی سے اس کی دستبرداری کے بعد امریکہ نے بر صغیر میں براہ راست معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے اور برطانیہ کے تجربات اور انٹیلی جنس سے استفادہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ کو برصغیر میں اتحادیوں کی ضرورت تھی‘ جو ٹرومین ڈاکٹرائن کی روشنی میں سوشلزم کے خلاف لڑائی میں امریکہ کے فوجی اور نظریاتی شراکت دار بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے پاکستان کا انتخاب کیوں اور کیسے کیا؟ اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔