گزشتہ کالم میں‘ میں نے پاک امریکہ تعلقات کے باب میں ٹرومین ڈاکٹرائن کا ذکر کیا تھا۔ اس ڈاکٹرائن کی روشنی میں امریکہ جنوبی ایشیا میں مضبوط اتحادیوں کی تلاش میں تھا۔ اس ضرورت کے پیش نظر امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک طرح کی سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا آغاز ہوا جس کے تحت پاکستان نے سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے جیو پولیٹکل اور سٹرٹیجک حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔
اس خطے کے ان حالات کی روشنی میں قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام سے چند ماہ قبل مئی 1947ء میں امریکہ کے دو سینئر سفارت کاروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں قائداعظم نے واضح کیا کہ پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تشکیل میں ایک نمایاں ترین عنصر مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک اور خلیج فارس سے قریبی تعلق ہوگا۔ ان ممالک کے ساتھ ہمارے تاریخی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ قدرتی طور پر یہ ممالک ہمارے قریب ترین حلیف ہوں گے۔ دوسری طرف پاکستان کو ایک اسلامی قوم کے طور پر بیک وقت ہندو سامراج اور روسی جارحیت کا مقابلہ بھی کرنا پڑے گا۔ یہ مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان قدرتی طور پر امریکی امداد کا خواہشمند ہوگا۔ ایم ایس ونکا تارامانی نے اپنی کتاب ''پاکستان میں امریکی کردار‘‘ میں ان ملاقاتوں کی تفصیل پیش کی ہے۔ پاکستان کے قیام کے پندرہ دن بعد پاکستان کے وزیر خزانہ کراچی میں امریکی چارج ڈی افیئرز سے ملے۔ اس ملاقات میں انہوں نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کو پیغام دیا کہ پاکستان اپنے 95ہزار تربیت یافتہ فوجی جوانوں کے ساتھ بر صغیر میں سوویت یونین کی ہر قسم کی نقل و حرکت کی مزاحمت کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ مسلم پاکستان کی روسی نظریات کے ساتھ کوئی چیز مشترک نہیں ہے اور پاکستان خطے میں روسی پیش قدمی اور کمیونزم کے پھیلاؤ کے خلاف لڑائی میں امریکی اتحادی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی اس بے تابی کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی حکمران اشرافیہ کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جو مغرب سے تعلیم یافتہ تھے‘ اور مغربی کلچر کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ یہ صرف تعلیم اور کلچر کی ہی بات نہیں تھی‘ برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت ہندوستان کی معیشت بھی بڑے پیمانے پر مغرب کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ ملک میں ایک انتہائی طاقت ور فیوڈل کلاس تھی جو سماجی و معاشی تبدیلیوں کے سخت خلاف تھی اور اپنے آپ کو امریکہ کا قدرتی اتحادی تصور کرتی تھی۔ حکمران اشرافیہ میں ایسے با اثر لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی جو مسئلہ کشمیر پر سوویت یونین کے غیر جانب دارانہ رویے پر نہ خوش تھے۔ اس مسئلے پر وہ مغرب کو اپنا اتحادی سمجھتے تھے کیونکہ مغرب بظاہر اس مسئلے کے فوری حل پر زور دے رہا تھا۔ کچھ طاقتور مذہبی گروہ اور شخصیات بھی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا حصہ تھیں جو سوویت یونین کے معاشی نظریات‘ سماجی خیالات اور انقلابی سیاست کے سخت خلاف تھے اور ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ سوویت نظریات و خیالات اسلامی تعلیمات سے متصادم تھے۔
اس طرح کے طاقتور مائنڈ سیٹ کی موجودگی میں پاکستان کے قیام کے دو ماہ بعد اکتوبر میں پاکستان نے باقاعدہ سرکاری سطح پر امریکہ سے مالی مدد کی درخواست کی۔ پاکستان نے دو بلین ڈالر کی امداد مانگی جو اس وقت ایک خطیر رقم تصور کی جاتی تھی۔ اس رقم کی درخواست کے ساتھ جو میمورنڈم امریکی حکام کو پیش کیا گیا‘ اس میں لکھا گیا کہ ''انتہائی محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو عالمی برادری میں مناسب جگہ بنانے اور دنیا کے استحکام میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اندازاً دو بلین امریکی ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنے بیش و بہا قدرتی وسائل کو کام میں لانے کے لیے بھی امریکی امداد کے علاوہ تکنیکی مدد و تعاون درکار ہوگا۔ ملکی ترقی کے لیے کچھ خصوصی مراعات کی ضرورت ہوگی۔ اور ملک کے دفاع کے لیے امریکی اسلحہ کا حصول لازم ہوگا۔ ملک کے دفاع کے لیے مغربی پاکستان کی روس سے قربت ایک بہت ہی اہم عنصر ہے۔ اگر پاکستان روسی خطرے کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا تو روس آگے چل کر بھارت کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اس طرح یہ اس پورے خطے کی سکیورٹی کا سوال ہے۔ اس لیے دفاع اس وقت ملک کی بنیادی ضرورت ہے‘ لیکن اگر پاکستان اپنے دفاع کے میدان میں مضبوط بھی ہو جائے تو پھر بھی اس کو معاشی و سماجی ترقی کے لیے امریکی اور برطانوی امداد کی ضرورت رہے گی۔ اگر ہم معاشی طور پر ترقی کر لیتے ہیں‘ اپنا معیار زندگی بلند کر لیتے ہیں تو اس سے پاکستانی عوام میں اعتماد آئے گا‘ اور وہ وقت آنے پر اس اعتماد کا مظاہرہ کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ جس چیز کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ وہ مالی وسائل ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر وسائل کے لیے ایک باقاعدہ ذریعے کی ضرورت ہے۔ اس درخواست اور میمورنڈم کو امریکیوں تک لے جانے کے لیے قائداعظم کے خصوصی ایلچی لئیق علی کو مقرر کیا گیا۔ لئیق علی نے دو بلین ڈالر کی ضرورت کا حساب کتاب کرتے ہوئے امریکیوں کو بتایا کہ ان میں سے چار سو ملین دفاع‘ سات سو ملین ایگریکلچر اور سات سو ملین ملک میں تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جائے گا۔ اس درخواست کا احوال بیان کرتے کچھ تجزیہ کاروں نے لکھا کہ لئیق علی ناں سننے کے عادی نہیں تھے۔ انہوں نے اس پہلے قرضے کے حصول کے لیے جارحانہ انداز اختیار کیا۔ انہوں نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں لابی کرنے کے لیے کچھ بینکرز کو بھی بھرتی کیا‘ جو ان وقتوں میں بہت غیر معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔ آخری میٹنگ میں امریکیوں نے فیصلہ سنایا کہ وہ پاکستان کو دو بلیں ڈالر نہیں دے سکتے۔ حیرت انگیز طور پر اسی میٹنگ میں لئیق علی نے درخواست کی کہ تین ملین مہاجرین کی بحالی کے لیے امریکہ 45ملین ڈالر کی امداد دے۔ پر لطف بات یہ تھی کہ اس نے کہا کہ یہ رقم اس قرض کا ایڈوانس تصور کیا جائے گا جو امریکی پہلے ہی دینے سے انکار کر چکے تھے۔ لیکن اس ساری مشق کے بعد بالآخر کئی کڑی شرائط کے ساتھ امریکہ نے صرف دس ملین ڈالر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن آگے چل کر حالات نیا رخ اختیار کر گئے۔ 1948ء میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر امریکہ نے پاکستان اور انڈیا دونوں کو اسلحہ اور فوجی امداد دینے پر پابندی لگا دی۔ سیکرٹری آف سٹیٹ نے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پاکستان اور بھارت کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا آغاز اور بالکل ابتدائی دور تھا جس میں پاکستان کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف تو امریکہ نے پاکستان کی توقعات کے مطابق دو بلین ڈالرکے بجائے صرف دس ملین ڈالر دینے پر رضامندی ظاہر کی اور دوسری طرف بھارت کے ساتھ جنگ کی وجہ سے فوجی اور مالی امداد بھی بند کر دی۔ حالانکہ اس فوجی امداد کے آغاز میں اس کا مقصد واضح کیا گیا تھا کہ یہ امداد اس خطے میں سوویت یونین کی پیش قدمی اور کمیونسٹ نظریات کے فروغ کو روکنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ اس مایوسی کے باوجود پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اگلے سٹیج پر لے جانے اور باقاعدہ شراکت داری میں بدلنے کی کوشش جاری رکھی جس کا احوال آئندہ سطور میں بیان کیا جائے گا۔