گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کے ابتدائی دور میں پاکستان کی امریکہ سے قرض لینے کی پہلی کوشش ناکام ہو چکی تھی۔ دو بلین ڈالر کی درخواست کے جواب میں امریکہ نے صرف دس ملین ڈالر دینے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اور اس کے فوراً بعد کشمیر میں جنگ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کو فوجی امداد اور اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ امریکہ کی طرف سے اس مایوس کن عمل کے باوجود پاکستان کے سفارتی حلقوں نے اپنی کوشش ترک نہیں کی۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اسلحہ کی فراہمی پر تازہ تازہ پابندی کے باوجود امریکہ نے تیس فوجی تربیتی طیاروں اور پہلے سے موجود امریکی ٹینکوں کے کل پرزے فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ امریکہ کے سفارتی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے سخت مؤقف اختیار کرنے کے باوجود امریکہ کے فوجی اور انٹیلی جنس حلقوں میں پاکستان کے بارے میں رائے تبدیل ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس کا آغاز کراچی میں مقیم امریکی ملٹری اتاشی سے ہوا۔ امریکی اتاشی نٹھانیل ہاسکوٹ نے پاکستان کے بارے میں ہمدردانہ رویے کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ اپریل میں اس نے امریکہ کو لکھا کہ وہ پاکستان کی عالمی سٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر اس کو فوجی امداد دینے پر غور کرے۔ اس نے لکھا کہ پاکستان کی سوویت یونین اور خلیج فارس سے قربت کی وجہ سے یہ ملک امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اٹھارہ اگست 1948ء میں سب کمیٹی آن ری آرمامنٹ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں زور دیا گیا کہ پاکستان‘ بھارت‘ ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک کو سوویت یونین کے خلاف فوجی اور مالی امداد دی جائے۔ نومبر 1948ء میں اسی سلسلے کی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کو فوجی اور مالی امداد نہ دینے کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ چونکہ اس انکار کے بعد یہ ممالک اپنی مالی اور عسکری ضروریات کے حصول کے لیے سوویت یونین سے رجوع کر سکتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکہ کے انکار کے بعد پاکستان پہلے ہی چیکو سلواکیہ سے مدد لینے پر غور کر رہا ہے۔ آگے چل کر مارچ 1949ء میں امریکی جائنٹ چیف آف سٹاف نے جنوبی ایشیا کے بارے میں ایک جائزہ پیش کیا۔ اس نے لکھا کہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سے فوجی نقطۂ نظر سے پاکستان امریکہ کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ چیف آف سٹاف نے لکھا کہ اگر ضرورت پڑے تو کراچی اور لاہور جیسے علاقوں کو سوویت یونین کے خلاف ہوائی آپریشنز اور مشرقِ وسطیٰ کی آئل فیلڈ کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس تجزیے میں جائنٹ چیف آف سٹاف نے جو واضح امریکی مقاصد بیان کیے‘ ان میں اس خطے میں سوویت یونین کی پیش قدمی اور غلبہ روکنا‘ اور اس کو ان ملکوں میں فوجی اڈے قائم کرنے سے روکنا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کی صورت میں ان ممالک کا تعاون لے کر ان علاقوں کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ ضرورت پڑنے پر پاکستان سے لاہور اور کراچی میں اڈے لیے جا سکتے ہیں۔ یہ معروضات جائنٹ چیف آف سٹاف نے24 مارچ 1949ء کو ایک میمورنڈم کے ذریعے پیش کیں۔ اس طرح امریکہ کے فوجی تجزیہ کار اور پالیسی ساز اس بات پر اتفاق کرنا شروع ہو گئے کہ سوویت یونین کے خلاف پاکستان ایک امریکی اثاثہ بن سکتا ہے۔ ان تجزیوں کے باوجود ہیری ٹرومین اور ان کی سول انتظامیہ کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ ٹرومین کا یہ موقف 1949ء تک برقرار تھا۔ اس دوران امریکی کی جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی پر برطانوی اثرات غالب تھے‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ خیال بھی غالب تھا کہ برصغیر پاک و ہند کی عالمی سیاست میں محدود اہمیت ہے۔ اور اگر امریکہ کو برصغیر میں کسی کے ساتھ کوئی معاملہ طے ہی کرنا ہے تو بھارت کو ترجیح دی جائے۔ امریکہ کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کمیونزم کا راستہ روکنا تھا۔
یہ راستہ روکنے کے لیے سوویت فوج کی پیش قدمی اور سوشلسٹ نظریات کے فروغ کو روکنا لازم تھا۔ اس مقصد کے لیے بھارت کا رقبہ اور آبادی امریکہ کے لیے اہمیت رکھتا تھا۔ روسی کمیونزم کے بعد 1949ء میں ماؤ ازم کی شکل میں ایشین یا چائنیز کمیونزم امریکہ کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہا تھا۔ اس سلسلے میں امریکہ کا خیال تھا کہ بھارت اپنے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے مقابلے میں چین کا زیادہ طاقتور مدِمقابل ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر آگے چل کر پنڈت نہرو نے امریکہ کو یہ نقطۂ نظر بدلنے پر مجبور کر دیا۔ نہرو نے جب اپنی خارجہ پالیسی واضح کی تو اس میں شک کی کوئی گنجا ئش نہیں رہی تھی کہ بھارت کو روسی کمیونزم یا چینی ماؤ ازم کے خلاف استعمال کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ایچ ڈبلیو براند نے اپنی کتاب ''سرد امن: بھارت اور امریکہ‘‘ میں نہرو کی اس پالیسی کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ نہرو نے واضح کیا کہ ہم دنیا میں سرد جنگ اور گروپ بندی کی سیاست سے دور رہیں گے۔ یہ سیاست ماضی میں تباہی‘ بربادی اور جنگوں کا باعث بنی ہے اور یہ مستقبل میں بھی ایسا کر سکتی ہے۔ نہرو نے یہ مؤقف بہت پہلے سے اختیار کر رکھا تھا۔ مارچ 1948ء میں ایشین ریلیشن کانفرنس سے اپنے مشہور خطاب میں نہرو نے کہا تھا کہ ایشیا یا بھارت کو سرد جنگ میں کسی ایک قوت کے ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس نے کہا ''ایشیا ئی ممالک کو دوسروں کے خلاف کھلونے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا‘ ان ملکوں کو دنیا کے معاملات میں اپنی پالیسیاں اختیار کرنی ہوں گی۔ ہمیں اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ ہمارا کسی کے ہاتھ میں کھلونا بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔
نہرو کی اس بے لچک اور سخت پالیسی کے سامنے آنے کے بعد امریکہ بھارت کی طرف سے نا امید ہو چکا تھا۔ یہ جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ اس موڑ پر آ کر امریکہ نے یہ فیصلہ کیا کی جنوبی ایشیا میں کوئی بھی اتحادی نہ ہونے سے بہتر ہے کہ ایک تو اتحادی ہو۔ اس فیصلے کی روشنی میں پاکستان امریکہ کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ پاکستان میں اس وقت جو لوگ خارجہ پالیسی پر فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے تھے‘ یہ ان کا دیرینہ خواب تھا کہ امریکہ کے ساتھ ایک طرح کی سٹریٹجک شراکت داری کا کوئی راستہ نکالا جائے۔ ان کے نزدیک یہی واحد راستہ تھا جس پر چل کر نا صرف امریکہ سے فوجی اور مالی امداد لی جا سکتی ہے بلکہ پاکستان کی ترقی کے لیے تکنیکی امداد اور ٹیکنالوجی کا حصول بھی ممکن ہے۔ اس وقت ایسے دانشور اور ہوش مند لوگ بھی موجود تھے جو سرد جنگ کے اس خوفناک دور میں امریکہ کے ساتھ اس طرح کی شراکت داری کو نا صرف پاکستان کے لیے خطرناک قرار دیتے تھے بلکہ اس پالیسی کو پاکستان عوام کے مفادات سے متصادم سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس راستے پر چل کر پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری کھو دے گا‘ اور ایک سپر پاور کے مفادات کی نگرانی کے لیے استعمال ہو گا۔ آگے چل کر واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔