پاک امریکہ تعلقات کے باب میں گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ تقسیم ہندوستان کے بعد امریکہ کی خواہش تھی کہ ان دونوں جنوبی ایشیائی ملکوں کو سوویت یونین کے خلاف اپنے عالمی اتحاد کا حصہ بنائے۔ اگرچہ اس خطے میں کمیونزم کے خلاف لڑائی میں شراکت داری کے لیے اس کی پہلی ترجیح بھارت تھا‘ جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے خطے کا بڑا ملک تھا لیکن جغرافیائی محل وقوع اور سٹرٹیجک اعتبار سے پاکستان کی اہمیت بھی اس کے لیے کم نہ تھی۔ دونوں کے ساتھ گفت و شنید اور سفارت کاری جاری تھی کہ پنڈت نہرو کو دورۂ امریکہ کی دعوت دی گئی۔ اکتوبر 1949ء کے اس دورے کے دوران نہرو نے کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران نہرو نے امریکہ بھارت تعلقات اور بھارت کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ اس دورے کے دوران نہرو نے ہر شعبۂ زندگی کے لوگوں سے ملاقاتیں کی۔ وہ عام آدمی سے لے کر صدر ٹرومین تک بہت سارے امریکیوں سے ملے۔ نہرو نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سرد جنگ سے دور رہنے اور غیر جانب دار تحریک پر مبنی اپنی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ امریکہ اور سوویت یونین کے جھگڑے میں پڑے بغیر دونوں کے ساتھ تعلقات کو دوستانہ بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود پنڈت نہرو کے دورے کو مجموعی طور پر ناکام دورہ قرار دیا گیا‘ جس نے پاکستان کے لیے کئی بند دروازے کھول دیے۔
اس دورے کا احوال ڈین ایچیسن نے اپنی کتاب ''سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں میرے ماہ و سال‘‘ میں بڑی تفصیل سے رقم کیا۔ ایچیسن نے لکھا کہ میں آج تک جتنے لوگوں سے ملا‘ ان میں پنڈت نہرو سب سے مشکل ترین آدمی تھے۔ ایچیسن کے خیال میں نہرو کا خیال تھا کہ امریکی اَن کلچرڈ ہیں۔ وہ غیر مہذب اور بے وقوف لوگ ہیں۔ اس دورے کے باوجود اس کی امریکیوں کے بارے میں رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں سی آئی اے کی ایک رپورٹ بڑی مشہور ہوئی، جس کے مطابق نہرو کا خیال تھا کہ صدر ٹرومین ایک میڈیاکر یعنی معمولی اور اوسط درجے کے آدمی ہیں اور حالات نے ان کو ان کی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ اہم عہدے پر فائز کر دیا ہے۔ نہرو کے خیال میں بیشتر امریکی عہدے دار مغرور اور کنفیوزڈ ہیں۔ ان کی رائے میں عام امریکی اوسط درجے کا مادہ پرست ہے جس میں کوئی ''کلچر‘‘ نہیں ہے۔ وہ صرف کھانے پینے اور راحت کی زندگی گزارنے کے خواہشمند ہیں۔ نہرو نے امریکہ کی پوری خارجہ پالیسی کی بنیادی حکمت پر کئی سوالات اٹھائے اور سوویت یونین کا طاقت کے ذریعے مقابلہ کرنے کی پالیسی کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔ نہرو کا خیال تھا کہ چونکہ امریکہ سوویت یونین کو گالیاں دینے اور جنگجو پن میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس لیے اسے اس کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بر عکس نہرو نے تجویز کیا کہ امریکہ کو ماسکو سے تعاون کرنا چاہیے اور اسے اپنی قبر خود ہی کھودنے کا موقع دینا چاہیے۔
امریکی میڈیا کے ایک بڑے حصے نے نہرو کے اس دورے کو ناکام ہی نہیں بلکہ تباہ کن قرار دیا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس دورے کی وجہ سے امریکہ نے بھارت کو امداد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ نہرو کے دورے کے مکمل ہونے کے فوراً بعد سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے امداد دینے سے انکار کا اعلان کر دیا۔ دورے کے خاتمے کے ایک ہفتے بعد نیو دہلی میں امریکی سفیر لوئی ہنڈرسن نے بھارتی حکومت کو آگاہ کیا کہ امریکہ نے بھارت کو پانچ سالہ پروگرام کے تحت پانچ سو ملین ڈالر کی امداد نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ کئی تجزیہ کاروں نے امریکہ بھارت تعلقات میں اس سرد مہری بلکہ کشیدگی کی ذمہ داری نہرو پر ڈالی مگر اس عمل کے پس منظر میں کئی دوسرے اہم عوامل شامل بھی تھے جن کی وجہ سے امریکہ اور بھارت کے تعلقات نے یہ رُخ اختیار کیا تھا۔ اس میں سب سے بڑا عنصر دونوں کے درمیان نظریاتی اختلاف تھا۔ اس گہرے نظریاتی اختلاف کو سفارتی غلطیاں یا نہرو کا مخصوص رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ خود کئی امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالی جانی چاہیے تھی جس کی جنوبی ایشیا کی پالیسی میں کئی نقائص تھے۔ اس ناکام پالیسی کی وجہ سے جنوبی ایشیا سرد جنگ میں ملوث ہوا اور نہرو نے ماسکو نواز پالیسیاں اختیار کیں۔ ان دانشوروں کا خیال تھا کہ نہرو کا عمل اتنا انقلابی نہیں تھا جتنا ان کی گفتگو تھی۔ نہرو جب گفتگو کرتا تھا تو لگتا تھا کہ وہ امریکہ اور سوویت یونین میں کوئی فرق نہیں سمجھتا لیکن در حقیقت وہ بنیادی طور پر امریکہ کے سخت خلاف تھا۔ سی آئی آے کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں عام طور پر اس بات پر یقین کیا جاتا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ میں سامراجی پالیسیوں اور رجحانات کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ برطانیہ سیاسی سامراجیت کے راستے پر گامزن تھا جبکہ امریکہ معاشی سامراجیت کے راہ پر چل رہا ہے۔
لوئی ہنڈرسن نے اپنی یادد اشتوں میں اس پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا کہ نہرو امریکی اداروں‘ امریکی طرزِ زندگی اور امریکہ کے بارے میں بالعموم توہین آمیز خیالات رکھتا تھا۔ اس کے خیال میں امریکن ازم‘ کمیونزم کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیل سکتا تھا۔ ہنڈرسن کے خیال میں نہرو روسی کمیونزم کی فطرت سے ناواقف تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نہرو اپنے نظریات اور خیالات کی وجہ سے سوشلزم کی طرف واضح جھکاؤ رکھتا تھا جس کی وجہ سے سرمایہ داری اور امریکی سامراج کے بارے میں اس کی ایک مضبوط رائے تھی جس کو وہ خارجہ پالیسی کے تقاضوں اور ضروریات کی خاطر کوشش کے باوجود نرم کرنے میں ناکام رہا تھا۔ دوسرا بڑا عنصر یہ تھا کہ بھارت نہ صرف غیر جانبدار تحریک کا پُر جوش حامی تھا بلکہ اس کی قیادت کا فریضہ بھی سر انجام دے رہا تھا جو سرد جنگ کے اس عروج پر امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اگرچہ ہیری ٹرومین اور اس کی انتظامیہ نے بھارت کے اس پوزیشن کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ تیسرا بڑا عنصر گاندھی کی عدم تشدد کی پالیسی پر نہرو کا یقین تھا؛ اگرچہ اس باب میں نہرو کئی تضادات کا شکار تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک نہرو عدم تشدد پر جو مشورے دوسروں کو دیتا تھا‘ ان میں اور نہرو کی اپنی حکومت کے عمل میں بہت واضح فرق تھا۔ امریکہ کے باب میں وہ امریکی جارحانہ عسکریت پسندی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عدم تشدد کی بات کرتا تھا‘ لیکن اس کے خیال میں عدم تشدد کے اصول کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر نہیں ہوتا تھا‘ جہاں اس نے مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست پر اپنی فوجیں اتار دی تھیں۔ اس طرح اس نے انڈونیشیا میں ڈچ پالیسیوں پر امریکی طرزِ عمل کی کھل کر مخالفت کی مگر روس کی ہنگری کے بارے میں پالیسی پر خاموشی اختیار کی۔ ان تمام عوامل کی موجودگی میں امریکہ بھارت تعلقات میں ایک خاص قسم کی سرد مہری موجود تھی‘ جو آگے چل کر کشیدگی کی شکل اختیار کر گئی۔ اس ساری صورتحال کا براہ راست فائدہ پاکستان کو ہوا۔
ان حالات نے امریکہ کو پاکستان کے قریب کر دیا اور آگے چل کر امریکہ کا پاکستان کے ساتھ فوجی اتحاد کا معاہدہ ہوا‘ جس نے پاک امریکہ تعلقات کا لینڈ سکیپ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔