گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان نے 1954ء میں امریکہ کے ساتھ پہلا دفاعی معاہدہ کیا اور اس کے بعد معاہدوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ اگلے تین برسوں میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ پانچ سے زائد معاہدوں پر دستخط کیے۔ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ مختلف معاہدوں میں شمولیت کا معلوم اور بیان کردہ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو سوویت یونین سے دور رکھ کر ''آزاد دنیا‘‘ یعنی سرمایہ داری بلاک کا حصہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی ایک باقاعدہ ''مشن سٹیٹمنٹ‘‘ تھی جس کی بنیاد ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن تھا۔ اس ڈکٹرائن کے تحت امریکہ سوویت یونین کی دنیا میں پیش قدمی اور کمیونزم کے پھیلاؤ کے مقابلے میں جمہوریت اور انسانی آزادیوں کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ وہ اس لڑائی میں دنیا کے مختلف ممالک کو شامل کرنے کے لیے ان کی مالیاتی اور فوجی مدد کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان ممالک میں جمہوری حکومتوں کے قیام اور جمہوریت کے استحکام کے لیے بھی کام کر رہا تھا تاکہ سوویت یونین کو ان ممالک میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے سے روک سکے۔ امریکہ کی رائے میں ان ممالک میں سیاسی استحکام اور معاشی خوشحالی بھی ضروری تھی تاکہ یہاں کمیونسٹ نظریات کو فروغ پانے سے روکا جا سکے۔ امریکہ کے خیال میں جہاں بہت زیادہ معاشی بدحالی‘ عدم استحکام اور افراتفری ہو وہاں کمیونسٹ نظریات بڑی تیزی سے پھیلتے ہیں اور ایسی جگہوں پر عموماً کمیونسٹ انقلاب برپا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح کے ''خطرے سے دوچار‘‘ ممالک کے ساتھ نہ صرف امریکہ نے فوجی معاہدے کیے بلکہ ان کو معاشی مدد دینے کے لیے اربوں ڈالر کا بجٹ مختص کیا۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور سوویت یونین اور چین سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے ایسے ممالک میں سر فہرست تھا۔ امریکہ کے ان مقاصد کو نہ صرف معاہدوں سے متعلقہ دستاویزات میں تحریری طور پر بیان کیا گیا تھا‘ بلکہ ہر قابلِ ذکر امریکی جس کا اس معاہدے سے کوئی نہ کوئی تعلق بنا‘ اس نے زبانی طور پر عالمی اور علاقائی پلیٹ فارمز پر ان مقاصد کو بار بار دہرایا تھا۔ ایک نمایاں مقصد پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا تحفظ بھی تھا‘ جو بقول امریکی پالیسی سازوں کے ''آزاد دنیا‘‘ کی بیان کردہ بنیادی اقدار کا لازمی حصہ تھا۔ لیکن جب پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کا تصادم ہوا تو اس وقت امریکہ جمہوریت اور جمہوریت پسند قوتوں کے ساتھ کھڑا ہوا؟ یا پھر اس نے آمریت کو امداد و تعاون فراہم کیا۔
اس سوال کا جواب ایک ٹیلی گرام سے ملتا ہے‘ جو امریکی سفارت خانے نے پانچ اکتوبر 1958ء کو لکھا۔ امریکی سفیر نے لکھا کہ حکومتِ پاکستان کی مسلسل بد انتظامی کی وجہ سے ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے عوامی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے رہنماؤں میں اسکندر مرزا کی وہ قبولیت نہیں ہے‘ لیکن اگر وہ صدارتی نظام نافذ کرتے ہیں اور ملک کی مقتدرہ اس کے پشت پر کھڑی ہوتی ہے‘ جس کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں‘ تو صورت حال مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن صدارتی نظام کے نفاذ سے ملک کے اندرونی معاملات میں امریکہ اور برطانیہ کی مداخلت کے خلاف آواز اٹھ سکتی ہے اور اسکندر مرزا کی مغرب نوازی اس الزام کو جلا بخش سکتی ہے۔ اسکندر مرزا کو لیکن خوف ہے کہ اگر وہ خود فوری طور پر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو مقتدرہ اقتدار پر قابض ہو سکتی ہے‘ کمیونسٹ بغاوت ہو سکتی ہے یا پھر بھارت ور افغانستان کوئی سازش کر سکتے ہیں۔ سفیر لکھتا ہے کہ اسکندر مرزا نے مجھے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے مقتدر حلقوں کے اندر سے کچھ لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لوں۔ اُن کے ذہن میں اس وقت صرف ایک مبہم سا خاکہ ہے۔ صدارتی نظام کیسے نافذ ہوگا اور کس شکل میں ہوگا‘ اس کا انحصار پاکستان کی مقتدرہ کے تعاون پر ہے۔ اس سلسلے میں ایوب خان سے مشاورت کی جا چکی ہے۔ امریکی سفارت خانے نے اسکندر مرزا کے اس فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اسکندر مرزا کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں گزشتہ موسم سرما میں امریکی حکام سے مشاورت کر چکے ہیں۔ سفارت خانہ اسکندر مرزا کو صرف یہ یقین دہانی کروانے کے لیے کہے گا اگر وہ ٹیک اوور کرتے ہیں تو وہ غیر ملکی شہریوں کے تحفظ کے لیے پولیس اور فوج کی خدمات فراہم کریں گے۔
ایک اور ٹاپ سیکرٹ ٹیلی گرام میں امریکی سفیر مسٹر لانگلی نے لکھا کہ اسکندر مرزا نے اسے بتایا ہے کہ وہ غالباً ایک ہفتے میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیں گے۔ آئین معطل کر دیا جائے گا۔ نئے آئین کی تشکیل کے لیے ایک کمیشن بنایا جائے گا اور پندرہ فروری کو ہونے والے انتخابات نہیں کروائے جائیں گے۔ مرزا نے کہا کہ وہ اقتدار براہِ راست مقتدرہ کے پاس جانے سے بچانے کے لیے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اس کے دو دن بعد چھ اکتوبر کو ایک اور ٹیلی گرام میں امریکی سفیر لانگلی نے لکھا کہ صدارتی نظام اور مارشل لا کا اعلان آٹھ اکتوبر کی صبح گیارہ بجے ہو جائے گا۔ اس عمل کو مقتدرہ کی متفقہ اور مکمل حمایت حاصل ہے۔ مارشل لا کے بعد اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں مغرب نواز پالیسیوں کی حمایت کریں گے۔ وہ امریکی امداد کا حصول جاری رکھنا چاہیں گے اور مجھے یقین ہے کہ مقتدرہ اس معاملے پر ان سے متفق ہے۔ اس خط کے علاوہ دیگر دستاویزات اور حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں پہلے بڑے مارشل لا کے نفاذ کی نا صرف امریکیوں کو پیشگی اطلاع تھی‘ بلکہ یہ اقدام اٹھانے سے بہت پہلے ان کو اعتماد میں لے لیا گیا تھا۔
اس کیس میں تو خصوصی طور پر اسکندر مرزا نے کئی ماہ پہلے امریکہ کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کے بعد اس سے حتمی منظوری لے لی تھی‘ جس کا اعتراف انہوں نے امریکی سفیر کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ دوسری طرف امریکی سفیر نے صرف دستاویزات میں ہی تسلیم نہیں کیا کہ انہوں نے پاکستان میں مارشل لا نافذ کرنے کے اسکندر مرزا کے پلان پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ آگے چل کر مارشل لا حکام کے ساتھ امریکی تعلقات میں گرم جوشی بھی پیدا ہوئی اور پاکستان کو دی جانے والی امداد میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد تقریباً ایک دہائی تک امریکی لیڈر شپ نے ایوب خان کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات استوار کیے اور امریکی صدور وقتاً فوقتاً ایوب خان کی شخصیت اور ان کے فہم و فراست کی کھلے عام تعریف بھی کرتے رہے۔ اس دوران پاکستان میں جمہوریت کے لیے جو جدوجہد ہوئی‘ اس جدو جہد میں اگرچہ کمیونسٹوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد شامل تھی‘ لیکن اس میں بائیں بازو کی دیگر قوتوں کے علاوہ کچھ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں اور علما بھی شامل تھے۔ لیکن امریکیوں نے اپنی دستاویزات میں جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کی اس جدوجہد کو کمیونسٹ جدوجہد قرار دے کر اس کے خلاف مارشل لائی قوتوں کی حمایت کی اور ایوب خان کی سر عام پشت پناہی کا عمل جاری رکھا۔ اور اس خطے میں سیاسی استحکام کے نام پر اپنے کمیونسٹ مخالف ایجنڈے کو بڑی ہوشیاری اور کامیابی سے آگے بڑھایا۔ اس سارے عرصے میں امریکہ اور آزاد دنیا نے پاکستان میں نہ تو کسی جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے حق میں کوئی بیان دیا‘ نہ ہی اپنی اتحادی حکمران اشرافیہ سے پاکستان میں عوام کے جمہوری اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے کوئی دباؤ ڈالا۔ یہ پالیسی مختلف شکلوں میں 1973ء تک جاری رہی‘ جب پاکستان نے سیٹو سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ آگے چل کر حالات نے جو رُخ اختیار کیا اس کا احوال پھر کبھی بیان کیا جائے گا۔