ان دنوں سوشل میڈیا پر اخبار کا ایک تراشا گردش کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کا ایک بڑا اخبار ہے اور یہ تراشا 1972ء کا ہے۔ اس شمارے کی ہیڈ لائن یہ ہے کہ ''چینی چوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اگر اس سے پہلے یا بعد کے پرانے اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو یہ خبر انہی الفاظ میں بار بار مختلف شماروں میں نظر آتی ہے جو چینی چوروں کی مستقل مزاجی اور حکمران اشرافیہ کے عزم اور ارادوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ تراشا پڑھنے والے اس کا الگ الگ تاثر لیتے ہیں‘ لیکن اس کا ایک اہم اور نمایاں پیغام یہ ہے کہ پاکستان میں چینی چوری‘ گندم کی ذخیرہ اندوزی‘ بلیک مارکیٹ اور سمگلنگ کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ یہ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ چینی سے جڑا مسئلہ صرف اخباری سرخیوں تک محدود نہیں‘ پرانے اخبارات میں اس مسئلے پر کئی مضامین‘ کالم‘ مراسلات اور قارئین کے خطوط بھی موجود ہیں جن سے اس مسئلے کی ہر دور میں موجودگی اور سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح پرانے اور ماضی بعید کے اخبارات کھنگالنے سے کئی ایسے مسائل کی موجودگی کا علم ہوتا ہے جو ہر دور میں موجود رہے اور بڑھتے بڑھتے سنگین شکل اختیار کر گئے۔ ان میں ایک مسئلہ مہنگائی بھی ہے۔
مہنگائی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر دور میں بدلتا رہتا ہے۔ اس کی کوئی مستقل شکل نہیں ہوتی‘ اس لیے اس کو ایک خاص سیاق و سباق میں رکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا علاقائی اور عالمی تناظر بھی دیکھا جاتا ہے۔ عالمی اور مقامی معاشی حالات دیکھے جاتے ہیں۔ ملک کی پیداوار اور ملکی کرنسی کی قدرو قیمت سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے۔ غرضیکہ اس کے پس منظر میں کئی عوامل اور اس کی کئی شکلیں ہوتی ہیں لیکن عام آدمی کے لیے مہنگائی اس وقت ایک مسئلہ بن جاتا ہے جب ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی قیمت عام آدمی کی محدود اور مقررہ آمدن سے بڑھ جاتی ہیں۔ ان ضروریاتِ زندگی میں آٹا‘ چینی‘ سبزی‘ ادویات اور دوسری بنیادی اور ناگزیر ضروریات شامل ہوتی ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کی اسی صورتحال کا سامنا آج کل عام آدمی کو ہے اور آٹے جیسی خوراک کی بنیادی شے کا حصول اس کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ چینی چوری پر قابو پانا یا مہنگائی جیسے مسائل کا حل تلاش کرنا حکومت کا کام اور اس کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر حکومت اس معاملے میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے دوسروں کو یا پھر دیگر عوامل کو اس کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ چونکہ یہ دیگر عوامل حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں‘ اس لیے ہر حکومت اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دے دیتی ہے۔
آج کل عام طور پر اس بے بسی کے لیے جو دیگر عوامل پیش کیے جاتے ہیں‘ اس میں کووڈ وائرس کی وبا سرِفہرست ہے۔ حکومتوں کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے صرف ہماری ہی نہیں‘ بلکہ پوری دنیا کی معیشت تباہ ہوئی ہے یا اس پر سخت قسم کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام کو جو مسائل در پیش ہیں‘ وہ تقریباً ہر دور میں موجود رہے ہیں‘ اگرچہ ان کی شکل اور شدت میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے۔ مہنگائی ہو یا چینی چوری کا عمل یہ سب کچھ پاکستانی حکومتوں کا ماضی قریب اور بعید میں ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے اور ایسا ان وقتوں میں بھی ہوتا رہا ہے‘ جب ملک کو کسی قدرتی آفت یا وبا کا سامنا نہیں تھا۔ پاکستان کی معاشی مشکلات اور بدحالی اس حد تک گمبھیر شکل اختیار کر چکی ہے کہ ملک میں ڈیفالٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سابق وزیر و مشیر کہتے ہیں کہ ہم تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ کر چکے ہیں‘ اب صرف رسمی اعلان باقی ہے۔ حکومت ڈیفالٹ کے امکانات کو رد کرتی ہے مگر سنگین قسم کی معاشی مشکلات اور بدحالی کا اعتراف کرتی ہے۔ اس معاشی بدحالی کی کئی وجوہات ہیں لیکن یہاں مثال کے طور پر صرف ایک آدھ کا ذکر کافی ہوگا۔
معاشی مشکلات اور بدحالی کی درجنوں اہم وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دولت مند لوگ اپنی دولت اور آمدن پر ٹیکس نہیں دیتے۔ اگر پچاس کی دہائی سے لے کر آج تک کے اخبارات پر نظر ڈالی جائے تو ہر دور کی حکومت کو یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستان کا ٹیکس لگانے اور ٹیکس جمع کرنے کا نظام ناقص ہے‘ جس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر رہ جاتے ہیں۔ یہ شکوہ تقریباً ہر حکومت کرتی رہی ہے‘ ان میں وہ حکمران بھی شامل رہے ہیں جو بار بار اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ اس مسئلے پر تقریباً ستر سال پر محیط اس طویل عرصے میں بے شمار تقاریر ہوئیں‘ کمیٹیاں تشکیل دی گئی‘ کمیشن بنائے گئے‘ وعدے کیے گئے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ ٹیکس نیٹ سے باہر لوگ باہر ہی رہے‘ اور برسہا برس ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔
آج بھی کئی ماہرِ معاشیات یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر صرف ٹیکس کی وصولی کا نظام درست کر دیا جائے تو پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ ماہرِ معاشیات بھی بار بار حکومت میں رہ چکے ہیں مگر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اپنے دورِ اقتدار میں اس نظام کی درستی کے لیے انہوں نے کیا کیا۔ اس طرح ہر حکومت کے معاشی پروگرام اور ایجنڈے پر ٹیکس کی وصولی اور لاکھوں لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا عزم سر فہرست رہا ہے مگر حکومت میں آکر وہ اس موضوع پر ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ کسی نا دیدہ قوت سے یہ کارِ خیر سر انجام دینے کا مطالبہ کر رہے ہوں۔
معاشی بدحالی کی دوسری بڑی وجہ کرپشن اور سرکاری دولت کا ناجائز استعمال ہے‘ جس کا خاتمہ سابقہ حکومت سمیت تقریباً ہر حکومت کے ایجنڈے پر رہا ہے۔ گزشتہ ستر برس کے اخبارات اس مسئلے پر بھی خبروں‘ مضامین اور بیانات سے بھرے پڑے ہیں لیکن ملک میں کرپشن نہ صرف موجود ہے بلکہ روز افزوں بھی ہے اور جدید شکلوں میں سامنے آ رہی ہے۔ اس وقت حکمران اشرافیہ آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام میں آنے کے لیے کرپشن کے خاتمے اور کچھ بنیادی ضروریات کی اشیا کی قیمتوں پر مذاکرات کر رہی ہے۔ ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں آنے کے لیے کئی حکومتیں کرپشن کے خاتمے اور اشیائے صرف کی قیمتوں پر کئی بار سمجھوتے کر چکی ہیں۔ اس سلسلے میں بھی ماضی قریب اور ماضی بعید کے اخبارات گواہ ہیں۔
پاکستان 1958ء سے لے کر آج تک 23بار آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کا حصہ بن چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے ہر پروگرام میں داخل ہونے کے بعد اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ‘ بے تحاشا مہنگائی اور کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت غیر منافع بخش قومی اثاثوں کی نجکاری بھی رہی ہے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کے حوالے سے ایک سابق وزیر خزانہ نے پی آئی اے کی مثال دی ہے‘ جس کا خسارہ 58 ارب روپے تک جا پہنچا ہے لیکن کیا نجکاری کو اس مسئلے کا حل قرار دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری نہیں ہے کہ یہ 58 ارب روپے گئے کہاں ہیں اور ہر سال اس بہتی گنگا میں کون ہاتھ دھوتا ہے اور وہ کون لوگ یا گروہ ہیں‘ جن کی مراعات و سہولتوں کی وجہ سے یہ خسارہ اس حد تک جا پہنچا ہے اور جاری ہے۔ ظاہر ہے یہ کرپشن اور بے تحاشا مراعات کا کیس ہے‘ نجکاری کو اس کا حل نہیں قرار دیا جا سکتا۔