گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ بھارت میں مسلمان حکمرانوں سے منسوب تاریخی عمارتوں‘ باغات اور سڑکوں کے نام بدلنے کے رجحانات اور مطالبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان رجحانات کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بھارت میں باہر سے آنے والے حکمران یا حملہ آور کون تھے اور ان کا طرزِ حکمرانی اور طرزِ زندگی کیا تھا؟ اس سلسلے میں عرض کیا تھا کہ معز الدین محمد غوری نے راجپوتوں کو شکست دے کر برصغیر میں پہلی مسلمان حکومت کے لیے رہ ہموار کی‘ جس کے نتیجے میں قطب الدین ایبک پہلے با ضابطہ سلطان اور حکمران قرار پائے۔ قطب الدین ایبک نے آگے چل کر قدیم ہندوستان میں پہلی اسلامی ایمپائر قائم کی جسے دہلی سلطنت کہا جاتا ہے۔ یہ سلطنت 1206 ء سے لے کر1526 ء تک کسی نہ کسی شکل میں قائم رہی۔ اس سلطنت پر تقریباً 320سال کے عرصے میں پانچ خاندانوں نے حکومت کی۔ اس میں پہلی مملوک خاندان کی حکومت تھی‘ جو قطب الدین ایبک نے قائم کی تھی۔ اس سے پہلے اس نے تقریباً پندرہ سال غوری خاندان کے زیر اثر انتظامی معاملات چلائے۔ اُس دور کو غوری خاندان کا دور کہا جا سکتا ہے۔
معز الدین غوری کی وفات کے بعد اس کی سلطنت مملوک جنرلوں نے آپس میں تقسیم کر لی۔ اس طرح قطب الدین ایبک نے دہلی سلطنت کا سلطان بن کر مملوک خاندان کی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ کچھ لوگ اسے ہندوستان میں پہلی اسلامی ایمپائر بھی کہتے ہیں۔ اسلامی ایمپائر یعنی دلّی سلطنت کے حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی‘ مقامی آبادی کے ساتھ ان کے سلوک اور مقامی مذاہب کے بارے میں ان کے رویے کے بارے میں آج کے ہندوستان میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ تاریخ دانوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان پر لگائے جانے والے الزامات یا ان کے شاندار کارناموں کی تصدیق یا تردید کی ہے۔ ان تاریخ نویسوں میں حسن نظامی کا نام نمایاں ہے‘ جس کا اس باب میں بار بار حوالہ دیا جاتا ہے۔ نظامی بنیادی طور پر ایک فارسی شاعر تھا لیکن شاعری کے ساتھ ساتھ اس نے بارہویں اور تیرہویں صدی کی تاریخ پر بھی کام کیا ہے۔ نظامی نیشاپور سے ہجرت کر کہ دہلی میں آباد ہوا تھا۔ یہاں اس نے تاریخ پر اور خصوصاً دہلی سلطنت کی تاریخ پر قابلِ ذکر کام کیا۔ اس کی کتاب ''تاج المعاصر‘‘ کو دہلی سلطنت کی پہلی تاریخ تسلیم کیا جاتا ہے۔
نظامی نے قطب الدین ایبک کے بارے میں لکھا کہ وہ انتہائی پرہیز گار اور متقی آدمی تھا۔ وہ بت پرستی کے سخت خلاف تھا‘ وہ ہندوستان سے بت پرستی کو ختم کرنے کے بارے میں بہت سنجیدہ تھا۔ اس سلسلے میں اس نے کئی سخت گیر پالیسیاں اپنائی۔ بت پرستی کے خلاف مہم کے سلسلے میں اس نے کئی مندر تباہ کیے۔ اس طرح اس نے میرٹھ اور کالینجر میں کئی مندروں کو بتوں سے پاک کر کہ ان کو مسجدوں میں تبدیل کیا۔ حسن نظامی کے علاوہ کئی مغربی مورخین نے بھی مندروں کی تباہی یا ان کو مساجد میں بدلنے کے واقعات بیان کیے ہیں۔ یہ تفصیل رچرڈ ایٹن نے بھی اپنے طویل مضمون میں بیان کی ہے‘ جو2000 ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپا تھا۔ اس مضمون میں تباہ ہونے والے مندروں کی تفصیل بتاتے ہوئے رچرڈ لکھتا ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مندر محمود غزنوی نے تباہ کیے‘ جن کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہے۔ اس کے مقابلے میں محمد غوری اور قطب الدین ایبک کے ہاتھوں تباہ ہونے والے مندروں کی تعداد بہت کم ہے۔ قطب الدین ایبک نے دہلی اور اس کے گرد و نواح میں تقریباً ایک ہزار مندر اور محمد غوری نے بنارس میں نو سو کے قریب مندر تباہ کیے یا ان مندروں کو بتوں سے پاک کرنے کے بعد مساجد میں تبدیل کر دیا۔
قطب الدین ایبک نے چونکہ مستقل طور پر ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا اس لیے اس نے ہندوستان کے کلچر‘ آرٹ اور آرکیٹیکٹ میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ کلچر اور آرکیٹیکٹ میں قطب الدین ایبک کے زمانے کی یاد گار قطب مینار ہے‘ جس کی تعمیر کا آغاز اس کے دور ہوا اور تکمیل سلطان التمش کے دور میں ہوئی۔ قطب مینار شہر کے ایک حصے لال کوٹ کی جگہ تعمیر کیا گیا‘ جس کو بنیادی طور پر راجپوتوں نے تعمیر کیا تھا۔ آج کل قطب مینار یونیسکو کی ولڈ ہریٹیج کا حصہ ہے۔ قطب مینار کی تعمیر1199ء میں شروع ہوئی اور اسے بیس سال کے عرصے میں مکمل کیا گیا۔ قطب مینار کی تعمیر قطب الدین ایبک نے شروع کی تھی‘ اس لیے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے اس کا نام قطب الدین ایبک کے نام پر ہے‘ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کمپلیکس کا نام تیرہویں صدی کے صوفی قطب الدین بختیار کاکیؒ کے نام پر ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ مینار شمس الدین التمش کے دور میں مکمل ہوا جو خواجہ بختیار کاکی ؒکے خاص مرید تھے۔ اس مینار کے ارد گرد کئی تاریخی اہمیت کی حامل عمارات ہیں۔ مینار کے شمال مشرق میں قوت السلام مسجد ہے جو قطب الدین ایبک نے تعمیر کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اس کمپلیکس کے احاطے میں 23 جین اور ہندو مندر تھے قطب الدین ایبک نے جن کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ اس تاریخی کمپلیکس کو لے کر اکثر تنازعات کھڑے ہوتے رہتے ہیں۔ 2000ء میں اس سائٹ پربڑا تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ اس وقت دو بڑے ہندو قوم پرست گروپ وشوا ہندو پریشد اور بجرگ دل نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس جگہ پر کچھ مذہبی رسومات ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن حکام نے ان کو اس کام سے منع کر دیا اور اس جگہ سے 80 کے قریب لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پابندی کی وجہ سے ان لوگوں نے کمپلیکس کے باہر سڑک پر رسومات ادا کیں۔ ان ہندو قوم پرست گروہوں کا خیال ہے کہ اس عمارت کی تعمیر کے لیے ہندو اور جین مندروں کی باقیات کو استعمال کیا گیا‘ اس لیے قطب مینار میں کچھ روحیں پھنسی ہوئی ہیں جن کی رہائی کے لیے کچھ رسومات ادا کرنا ضروری ہیں۔ انڈیا کے آرکیالوجسٹس اس سائٹ کے حوالے سے کئی متنازع رپورٹیں جاری کر چکے ہیں۔
2022 ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ڈائریکٹر کی طرف سے ایک بیان آیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قطب مینار کو پانچویں صدی میں راجہ وکرم آدتیا نے تعمیر کیا تھا۔ اسی سال بھارت کی منسٹری آف کلچر کے سیکرٹری نے یہ فیصلہ کیا کہ قطب مینار کے ارد گرد کی جگہوں کی کھدائی ضروری ہے۔ قطب مینار کا تنازع بھارتی عدالتوں میں بھی گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک پٹیشن فائل کی گئی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مہندر پرتاپ سنگھ قطب مینار کی پراپرٹی کا وارث تھا‘ چونکہ وہ متحدہ آگرہ کا جائز وارث تھا‘ لیکن عدالت نے یہ دعویٰ مسترد کر دیا۔ اسی طرح وشوا ہندو پریشد کے ایک ترجمان نے مطالبہ کیا کہ قطب مینار کی تعمیر کے وقت جومندر مسمار کیے گئے ان کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ قطب مینار کی طرح بھارت میں درجنوں ایسی تاریخی عمارتیں ہیںجن کے بارے میں اس طرح کی کہانیاں‘ دعوے اور تنازعات پائے جاتے ہیں۔