پاکستان میں ایک نیا سیاسی کلچر اُبھر رہا ہے۔ اس کلچر میں آئین کو نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ اسے توڑا اور مسخ کیا جا رہا ہے‘ اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ حیرت و افسوس سے اس صورت حال کو دیکھ رہے ہیں مگر تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس سب میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ آئین نے اس سے بدترین حالات بھی دیکھے ہیں۔ پاکستان میں ماضی میں آئین کے ساتھ کیا سلوک ہوا‘ اس سوال کا جواب خود پاکستان کی آئینی تاریخ میں ہے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد کچھ ایسے لوگوں نے بااثر اور فیصلہ ساز طبقات کی حیثیت حاصل کر لی تھی‘ جن کا خیال یہ تھا کہ کسی ملک کو چلانے کے لیے آئین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ پاکستان کو پہلا آئین بنانے میں نو سال لگے۔ ان کے خیال میں پاکستان کو صدارتی آرڈیننس اور نظام انصاف سے لیے گئے من پسند فیصلوں کے علاوہ ڈنڈے کے زور پر بھی چلایا جا سکتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے رسمی ضرورت کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء اور انڈین انڈی پینڈنٹ ایکٹ 1947ء سے کچھ دفعات لے کر ملک کا نظم و نسق چلانے کا راستہ اختیار کیا۔ پاکستان کے پہلے نو سالوں میں شاید یہ موضوع سب سے زیادہ زیرِ بحث رہا کہ پاکستان کا آئین کب بنے گا۔ یہ آئین کس طرز کا ہوگا۔ یہ برطانوی طرز کا آئین ہوگا یا امریکی طرز کا‘ یا پھر فرانسیسی طرز کو متعارف کرایا جائے گا۔ اس طویل بحث کے دوران پاکستان میں تین گورنر جنرل تبدیل ہوگئے۔ چار وزرائے اعظم اپنا اپنا وقت نکال کر چلے گئے۔ اس دوران دو قانون ساز اسمبلیاں‘ جن کی تشکیل کا اولین مقصد ہی آئین بنانا تھا‘ آئین بنائے بغیر ختم ہو گئیں۔ اس آئین کی تشکیل میں جوں جوں تاخیر ہوتی گئی‘ لوگ سوال پوچھتے رہے۔ جواب میں اہلِ حکم یہی فرماتے رہے کہ وہ پاکستان کو ایک ایسا متفقہ آئین دینا چاہتے ہیں‘ جس پر پاکستان میں بسنے والے سب لوگوں کو اتفاق اور اعتبار ہو۔ سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہوں۔ مذہبی گروہوں اور اقلیتی آبادی کو اس کے بارے میں کوئی تحفظات نہ ہوں اور اس اجماع کے بعد یہ پاکستان کی ایک مشترکہ دستاویز بن جائے‘ جس کی رہنمائی میں ریاست و حکومت کا کاروبار چلایا جائے۔
اجتماعی اتفاق حاصل کرنے کے لیے اتنا طویل عرصہ انتظار کے بعد جب یہ آئین بن کر سامنے آیا تو سب سے پہلے مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی اور مسلم اکثریتی پارٹی عوامی لیگ نے اس کو مسترد کر دیا۔ عوامی لیگ کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آئین مشرقی پاکستان کے لوگوں کے حقوق کو وہ تحفظ فراہم نہیں کرتا جو فراہم کیے جانے چاہئیں۔ یہ معاملہ صرف مسلم اکثریتی پارٹی تک ہی نہیں رُکا بلکہ مشرقی پاکستان کی تمام ہندو پارٹیوں نے بھی یکے بعد دیگرے اس آئین پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کو مسترد کر دیا۔ اس طرح یہ آئین تشکیل پاتے ہی متنازع ہو گیا۔ اس آئین کی تشکیل کے صرف دو سال بعد سات اکتوبر 1958ء کو اس آئین کی بساط لپیٹ دی گئی۔
حکمران اشرافیہ کے دعوے کے مطابق اگر یہ آئین متفقہ ہوتا اور اس پر قوم کا اجماع ہوتا تو شاید پاکستان کی تاریخ آج مختلف ہوتی۔ اگر لوگوں کو ان کے حقوق لوٹا دیے جاتے‘ اقتدار حقیقی نمائندوں کو منتقل کیا جاتا اور عوام کو اقتدار میں شریک کر لیا جاتا تو شاید پاکستان آمریت کے 'رولر کوسٹر‘ پر سوار نہ ہوتا۔ بہرحال اقتدار میں آنے کے بعد ایوب خان نے قانون ساز اسمبلی کے چکر میں پڑنے اور متفقہ آئین تشکیل دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کے بجائے ایک آرڈیننس کے ذریعے ملک میں ایک نئے آئین کا نفاذ کر دیا جس کو 1962ء کا آئین کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں البتہ دو سال پہلے ایوب خان نے رسمی طور پر ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن کا مقصد ملک کے لیے نئے آئین کے خد و خال کا تعین کرنا تھا۔ کمیشن بظاہر دیکھنے میں ایک معقول ادارہ لگتا تھا۔ اس کی سربراہی سابق چیف جسٹس آف پاکستان محمد شہاب الدین کے پاس تھی۔ اس کے دس دیگر ممبران تھے جن میں سے پانچ مشرقی پاکستان سے اور پانچ مغربی پاکستان سے لیے گئے تھے۔ کمیشن میں سابق جج‘ وکیل‘ صنعت کار اور جاگیردار سب ہی شامل تھے لیکن اس کمیشن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کمیشن نے اپنی سفارشات ایوب خان کو پیش کیں۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں غور و فکر کے بعد 1962ء کے موسم بہار میں اس آئین کی منظوری کا اعلان کر دیا۔
جیسا کہ تفصیل سے ظاہر ہے‘ اس آئین کی تیاری میں دو درجن سے کم لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں کوئی عوام کا منتخب نمائندہ نہیں تھا۔ جو لوگ اپنے اپنے طبقات کی نمائندگی کا دعویٰ کر رہے تھے‘ ان کو اپنے طبقے نے ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ اس آئین میں ملک کا نام ریپبلک آف پاکستان رکھا گیا اور نظامِ حکومت صدارتی ٹھہرا جبکہ ملک کے پہلے آئین میں نظامِ حکومت پارلیمانی تھا۔ اس آئین کے مطابق ملک کے صدر کے لیے مسلمان ہونا اور کم از کم پینتیس سال کا ہونا لازمی ٹھہرا لیکن اس آئین کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں صدر کا انتخاب ایک براہِ راست 'الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ہونا تھا۔ الیکٹورل کالج میں شامل بنیادی جمہوریت کے ممبران کی تعداد اَسی ہزار ہونا قرار پائی تھی۔ اسی الیکٹورل کالج کے ذریعے آگے چل کر ایوب خان نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابات میں شکست دی تھی۔ اس آئین کے دیباچہ میں 1956ء کے آئین کی طرح قرار دادِ مقاصد کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ قرآن مجید اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔ آگے چل کر حالات نے ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں مگر انہوں نے اختیارات یحییٰ خان کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یحییٰ خان کو اختیار اس لیے دیا گیا کہ ایوب خان آئین کے مطابق اپنے اختیارات نیشنل اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کر کے اقتدار عوام کے حوالے کرنے کے خلاف تھے۔
آگے چل کر 1973ء کا آئین سامنے آیا۔ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے تشکیل دیا تھا۔ یہ ایک ایسا آئین تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس پر اسمبلی میں موجود ہر مکتبِ فکر اور ہر طبقے کے نمائندوں نے اتفاق کیا لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ بہت سے ممبران نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا اور اس آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان میں میاں محمود علی قصوری اور ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ جیسے لوگ قابلِ ذکر ہیں۔ اور اسمبلی میں بھی ہر طبقے کی نمائندگی نہیں تھی۔ اس آئین میں بنیادی حقوق کی کچھ دفعات کو بھی شامل کیا گیا اور اسلامی نظام کے نفاذ کے متعلق کچھ دفعات بھی اس میں شامل ہوئیں۔ یہ آئین بار بار بد ترین قسم کے تعطل کا شکار ہوا۔ طالع آزما آمروں نے اس کو معطل کیا‘ مسخ کیا یا توڑ موڑ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس آئین میں آج تک 25سے زائد ترامیم کی گئی ہیں۔ آج آئین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ اس طویل تاریخی المیے کا تسلسل ہے۔ مسئلہ اصل یہ ہے کہ سیاست دانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ ماضی کو دہرانے پر بضد ہیں۔