ان دنوں ملکِ عزیز میں ایک افراتفری کی سی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کا تقاضا ہے کہ جمہوریت کے بنیادی اور لازمی اصولوں پر ایک بار پھر نظر ڈالی جائے۔ اہلِ حَکم اور عوام کا حافظہ تازہ کیا جائے۔ جمہوریت کا پہلا اور بنیادی اصول عام شہریوں کی جمہوری عمل میں شمولیت اور شرکت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام یہ شرکت انتخابات میں ووٹ دینے سے کر لیتے ہیں یا پھر ان کی شمولیت اور شرکت ان کی پارٹی کے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت سے ہو جاتی ہے۔ یہ شرکت کا ایک طریقہ ضرور ہے لیکن جمہوری تقاضے پورے کرنے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ ایک کامیاب جمہوری نظام میں عوام کی جس سطح کی شرکت لازم ہے‘ اس کے لیے جمہوری نظام یہ توقع رکھتا ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنے یا پارٹی کے جلسوں میں شرکت کرنے کے علاوہ عوام قومی مسائل اور معاملات کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل کے بارے میں ہونے والے مباحث اور مکالموں میں کسی نہ کسی شکل میں حصہ لیں۔ یہ ضرورت کسی حد تک آج کل سوشل میڈیا پوری کر رہا ہے لیکن عوام کی زیادہ سرگرم شمولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا سے جڑنے یا پارٹی سے جانکاری لینے کے علاوہ بھی اپنے آپ کو ایسی غیرسرکاری تنظیموں‘ پلیٹ فارمز اور یونینز کی شکل میں منظم کریں جو ان کے سماجی‘ طبقاتی اور پیشہ ورانہ مفادات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہوں۔ عام شہری کی اس نوع کی شرکت صرف اس صورت میں ہی ممکن ہو سکتی ہے جب کسی بھی سماج میں خواندگی کی شرح عالمی معیار کے مطابق ہو اور لوگوں کی تعلیم اور شعور کی وہ سطح ہو جس سے وہ اس طرح کی سرگرمی میں حصہ لے سکیں لیکن پاکستان میں شرحِ خواندگی میں اور عام طور پر عوام کے سیاسی و سماجی شعور میں کمی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو رہا۔ اس کمی کی وجہ سے عوام کی جمہوری عمل میں ویسی سرگرم اور متحرک شرکت ممکن نہیں ہے جس کی ایک جمہوری سماج میں توقع کی جاتی ہے۔ اس کمزوری اور ناہمواری کا ازالہ صرف جمہوری سلسلۂ عمل کے جاری رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے جمہوری عمل کو نہیں روکا جا سکتا یا اس کے متبادل نظام کو مسائل کا حل بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ جمہوری عمل کو جاری رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو عوام میں پائی جانے والی ناخواندگی اور سیاسی و سماجی علم و شعور کی کمی کا مداوا کر سکیں۔ گویا عوام کی بامعنی اور متحرک شرکت جمہوریت کی پہلی بڑی شرط ہے جس کا پاکستان میں شدید فقدان نظر آتا ہے۔
جمہوریت کا دوسرا بڑا اصول مساوات ہے۔ مساوات ایک وسیع اصطلاح ہے مگر جس تناظر میں بات ہو رہی ہے‘ اس میں مساوات کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ تمام شہری برابر ہیں اور اس مقصد کے لیے تمام شہریوں کو برابری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست کے نزدیک ہر شہری کی قدرو منزلت ایک جیسی ہے‘ اس سے قطع نظر کہ اس کی ریاست کے اندر سماجی اور معاشی حیثیت کیا ہے۔ سب شہریوں کو ریاست کی طرف سے مساوی مواقع میسر ہیں اور ملکی قانون کے تحت سب برابر ہیں۔ کسی شہری کے ساتھ اس کی طبقاتی اور سماجی حیثیت یا جنس یا جنسی رجحانات کی وجہ سے امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ اس طرح جن ریاستوں میں تکثیریت یعنی پلورل ازم ہے‘ جو کثیر المذہبی یا کثیر الثقافتی سماج ہیں‘ وہاںکسی شہری سے اس کے رنگ‘ نسل‘ زبان یا مذہب کی وجہ سے امتیازی برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ عام لوگ اپنے اپنے خیالات‘ پسند اور ناپسند کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔
اسی طرح ایک جمہوری سماج میں رواداری کا ہونا جمہوریت کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ رواداری کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت میں اکثریتی طبقے کی حکومت کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کرنا جمہوریت کا اہم اصول ہے۔ اس میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے گروہوں اور پارٹیوں کو‘ خواہ وہ حزبِ اختلاف ہو یا ملک میں موجود دوسرے اقلیتی گروہ ہوں‘ ان کو اپنی بات کہنے اور اپنے خیالات کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت اپنی عددی برتری اور طاقت کے باوجود فیصلے کرتے وقت یا اپنے ہر قسم کے عمل اور سرگرمی میں اقلیتوں کے خیالات اور جذبات کے بارے میں رواداری برتے اور ظاہر ہے جواب میں یہی اصول اقلیتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ اکثریت کے خیالات اور جذبات کا احترام کریں۔
جمہوریت کا ایک اور بڑا اور اہم اصول احتساب اور جوابدہی ہے۔ جمہوریت میں صرف منتخب نمائندے ہی نہیں بلکہ ایک جمہوری ریاست میں کسی بھی حیثیت میں ریاست اور حکومت سے وابستہ لوگ اپنے ہر عمل کے لیے عام آدمی کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کو عوام کی مرضی اور مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اپنے فرض کی انجام دہی کے دوران کسی منتخب نمائندے یا سرکاری اہلکار سے اگر کوئی کوتاہی ہوتی ہے یا وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کو کوئی ذا تی فائدہ ہوتا ہے تو جمہوریت کا تقاضا ہے کہ وہ شخص احتساب اور جوابدہی کے عمل سے گزرے۔ اس اصول سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ کوئی سرکاری اہلکار عہدے اور رتبے کے اعتبار سے کتنا بڑا ہے؟ عوام میں وہ کتنا مقبول ہے؟ یہ سب باتیں جمہوریت کے لیے غیر متعلق ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک اس اصول کو پورے طریقے سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں احتساب یا جوابدہی کی بات آتی ہے تو کچھ سیاستدان یا سرکاری اہلکار اپنی حیثیت اور طاقت کا استعمال کر کے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عمل کے مختلف مظاہر ہمیں آئے روز ملکی سیاست میں نظر آتے ہیں۔
جمہوریت کا ایک اور مضبوط اصول شفافیت ہے۔ شفافیت کا مطلب یہ ہے کہ منتخب حکومت اپنی تمام سرگرمیوں اور فیصلوں سے عوام کو آگاہ رکھے۔ عوام کے ریاستی اور حکومتی معاملات کے بارے میں جاننے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے جس کے تحت حکومتی فیصلے‘ ان کا پس منظر اور وجوہات عوام کے سامنے آ سکیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو کہ حکومت نے کسی خاص معاملے میں کیا فیصلہ کیا اور اس کی کیا وجوہات تھیں۔ اسی کے ساتھ جڑا ہوا جمہوریت کا ایک اہم ترین اصول پریس کی آزادی ہے۔ پریس کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ پریس کو حکومتی معاملات اور فیصلوں تک رسائی دی جائے اور وہ ان فیصلوں اور ان کی وجوہات کو عوام تک پہنچا سکے۔ دیکھا جائے تو پریس اور میڈیا کی مکمل آزادی کے بغیر جمہوریت کا تصور ہی ادھورا ہے۔ پریس کی آزادی کا مطلب ہی یہ ہے کہ ملک کے اندر موجود تمام ذرائع ابلاغ حکومت کی کسی قسم کی مداخلت کے بغیر بلا خوف و خطر حقائق عوام تک پہنچانے کے لیے آزاد ہوں۔ پریس اور میڈیا میں شہری اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے آزاد ہوں۔ حکومت کی طرف سے میڈیا پر کسی قسم کی پابندی‘ دباؤ‘ خوف یا لالچ جمہوریت کے اس بنیادی اصول سے متصادم ہے اور اس طرح کی کیفیت میں جس سماج میں صحافی حقائق بیان کرنے یا دانش ور اپنے خیالات کا بلا خوف و خطر اظہار کرنے کے لیے آزاد نہ ہوں‘ وہ حقیقی معنوں میں جمہوری تصور نہیں کیا جاتا۔