گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا سب سے بڑا‘ بنیادی اور کلیدی مقصد پاکستان کے لیے آئین بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے سات سال کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود یہ اسمبلی اپنا یہ بنیادی فریضہ سر انجام دینے میں ناکام رہی۔ اسمبلی کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ پاکستان میں کس قسم کا نظامِ حکومت ہوگا؟ اس سوال کے جواب پر سخت اختلافِ رائے تھا۔ کچھ ممبران کا خیال تھا کہ پاکستان کے لیے برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت ٹھیک رہے گی جس میں وزیر اعظم سربراہِ حکومت ہوتا ہے۔ کچھ ممبران امریکی طرز کا صدارتی نظام اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ کچھ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی بات کر رہے تھے اور کچھ کا خیال تھا کہ یہاں پر مذہبی رواداری پر مبنی سیکولر نظام اچھا رہے گا۔ قائداعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں جس طرح کے نظام کی بات کی تھی‘ اس پر ممبران میں اتفاق نہیں تھا۔ پاکستان میں طرزِ حکمرانی اور معاشی و سماجی نظام تک ہر بات پر اختلاف تھا جو کہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا فورم ہو یا رہا ہو جس میں اختلافِ رائے نہ ہو۔ ہر اسمبلی میں ممبران مختلف نظریات اور خیالات کی بنیاد پر ہی منتخب ہو کر آتے ہیں۔ یہی بات اسمبلی کو ایک ایسا فورم بناتی ہے جہاں طویل اور گرما گرم مباحث اور پھر فیصلے ہوتے ہیں۔ متنازع اور اختلافی امور پر بحث و تمحیص کے بعد اگر اتفاق سے نہیں تو اکثریتی رائے سے فیصلے ہوتے ہیں اور آئین سازی یا قانون سازی کا عمل اختلافِ رائے کی نذر ہونے کے بجائے جاری رہتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ یہاں نظامِ حکومت اور ملک کے معاشی و سیاسی نظام پر نہ تو اس طرح کھل کر بحث ہوئی اور نہ ہی آئین سازی میں پیش رفت کی کوشش کی گئی۔ اور اگر بحث ہوئی بھی تو ممبران کے نقطۂ نظر میں اتنا فرق تھا کہ ان کے درمیان قدرِ مشترک تلاش کرنا بہت مشکل کام تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ یہ اسمبلی 1946ء کے انتخابات میں منتخب ہوئی تھی۔ اس وقت ہندوستان متحدتھا۔ اس اسمبلی کے ممبران روایتی پس منظر رکھتے تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو پارلیمنٹ میں آئین سازی کے لیے نہیں بلکہ اپنی سماجی حیثیت اور مراعات میں اضافے کے لیے آتے تھے۔ ان کو پیچیدہ قسم کی آئینی اور قانونی مباحث سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی وہ ان مباحث میں حصہ لینے کی پوزیشن میں تھے۔ چنانچہ ان کو نئی اور پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
اسمبلی کے اندر صورتحال یہ تھی کہ اسی ممبران پر مشتمل اس اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ کی اکثریت تھی۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لوگ تھے جس نے قیامِ پاکستان کے بعد اپنانام بدل کر پاکستان مسلم لیگ رکھ لیا تھا۔ دوسری بڑی پارٹی پاکستان نیشنل کانگرس تھی۔ اس میں وہ ممبران شامل تھے جو تقسیمِ ہندوستان سے پہلے انڈین نیشنل کانگرس کے ممبر تھے اور انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر آئے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ ممبران‘ جن کا حلقۂ انتخاب پاکستان میں شامل ہو گیا تھا‘ انہوں نے انڈین نیشنل کانگرس کا نام بدل کر پاکستان نیشنل کانگرس رکھ لیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ دوسری پارٹیوں کے ممبران اور آزاد لوگ بھی تھے۔ اس کے علاوہ خان عبدالغفار خان جیسے مشہور رہنما شامل تھے۔ نیشنل کانگرس کے ممبران سیکولر ریاست کے حامی تھے اور پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست بنانے کے تصور کے خلاف تھے؛ چنانچہ آئین سازی کے سلسلے میں اسمبلی میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔ آئین سازی کے سلسلے میں پہلا بڑا قدم تقریباً ڈیڑھ سال بعد اٹھایا گیا جب بائیس مارچ 1949ء کو قراردادِ مقاصد پیش کی گئی۔ یہ قرارداد لیاقت علی خان کی سربراہی میں پیش کی گئی جو قائداعظم کی رحلت کے بعد اسمبلی کے صدر تھے مگر یہ قرارداد اتفاقِ رائے سے پاس نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت اسمبلی کے 69ممبر تھے جن میں سے 21ممبران نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ان میں نیشنل کانگرس اور کچھ آزاد ممبران کے علاوہ دس اقلیتی ممبران شامل تھے جنہوں نے قرارداد پر بحث و مباحثے کے دوران اس قرارداد میں ترامیم تجویز کی تھیں‘ جو مسترد ہو گئی تھیں۔ ان دس ممبران نے قراردادِ مقاصد کے خلاف ووٹ دیا۔ قرارداد میں موجود کئی نکات آج بھی اتنے ہی اہم ہیں‘ جتنے اس وقت تھے یا ان میں ان مسائل کا ذکر تھا‘ جن کا آج بھی پاکستان کو سامنا ہے۔
قرارداد کا آغاز اس اعلان سے ہوتا ہے کہ پوری کائنات پر حاکمیت صرف اللہ رب العزت کی ہے اور جو اختیار اس نے ریاستِ پاکستان کو اس کے عوام کے ذریعے اس کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرنے کے لیے سونپا ہے‘ وہ ایک مقدس امانت ہے۔ اس قرارداد میں گیارہ نکات شامل تھے۔ ان میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنے والی یہ دستور ساز اسمبلی ایک آزاد و خود مختار ریاست‘ پاکستان کے لیے ایک آئین بنانے کا عزم کرتی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ ریاست اپنے اختیارات اور اتھارٹی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ جمہوریت‘ آزادی‘ مساوات‘ رواداری اور سماجی انصاف کے اصول‘ جن کو اسلام میں بیان کیا گیا ہے‘ ان پر مکمل طور پر عمل کیا جائے گا۔ چوتھا نکتہ یہ کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیں جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں بیان کیا گیا ہے۔ پانچواں نکتہ یہ تھا کہ اقلیتوں کے لیے آزادی سے ترقی کرنے اور اپنے مذاہب پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔ چھٹا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہوگا اور اس میں شامل اکائیاں خود مختار ہوں گی۔ ساتواں نکتہ یہ تھا کہ بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔ ان بنیادی حقوق میں قانون کے نزدیک سماجی حیثیت‘ مساوی مواقع‘ سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی انصاف‘ آزادیٔ فکر‘ آزادیٔ اظہار‘ عقیدہ‘ عبادت اور انجمن سازی کی آزادیاں شامل ہیں جو قانون اور عوامی اخلاقیات سے مشروط ہوں گی۔ آٹھواں نکتہ یہ تھا کہ اقلیتوں‘ پسماندہ اور محروم طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔ نواں نکتہ یہ تھا کہ عدلیہ کی آزادی کو مکمل طور پر محفوظ کیا جائے گا۔ دسواں نکتہ یہ تھا کہ وفاق کے تمام علاقوں کی سالمیت‘ اس کی آزادی اور اس کے تمام حقوق بشمول زمین‘ سمندر اور ہوا پر اس کے خود مختار حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور گیارہواں نکتہ یہ تھا کہ پاکستانی عوام خوشحال ہو کر دنیا کی اقوام میں اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کریں اور بین الاقوامی امن و ترقی اور انسانیت کی خوشی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
قرار دادِ مقاصد کے علاوہ یہ اسمبلی کوئی آئینی مسودہ سامنے نہ لا سکی‘ البتہ سات سال کا طویل اور قیمتی وقت گزرنے کے بعد جب اس اسمبلی کو برخاست کیا گیا تو اس کے کچھ ممبران نے کہا کہ ہم آئین تقریباً تیار کر چکے تھے لیکن چونکہ ملک کے کچھ طاقتور حلقوں کو یہ آئین پسند نہیں تھا‘ اس لیے اس سے پہلے کہ اسمبلی آئین سازی کا عمل مکمل ہونے کا اعلان کرتی‘ اسے غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے برطرف کر دیا گیا۔ یہ پاکستان کی پہلی اسمبلی تھی جو برخاست ہوئی‘ آگے چل کر واقعات نے جو رخ اختیار کیا‘ اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔