گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پہلی اسمبلی کا بنیادی فریضہ ملک کے لیے آئین بنانا تھا۔ اسمبلی اس مقصد کے لیے مختلف نظریات کے حامل اور مختلف علاقوں کی نمائندگی کرنے والے ممبران کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھی‘ جو ایک مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ اس عمل میں سات سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اسمبلی کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جانے لگے اور یہ تاثر عام ہو گیا کہ اسمبلی اپنا بنیادی فریضہ سر انجام دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس الزام کے جواب میں کچھ اسمبلی ممبران کا دعویٰ تھا کہ وہ یہ مشکل فریضہ سر انجام دینے میں کامیاب ہو چکے تھے یعنی وہ آئین کا ڈرافٹ تیار کر چکے تھے‘ جس کو اب صرف باضابطہ طور پر پیش کرنا باقی تھا لیکن ان کو اس کا جان بوجھ کر موقع نہیں دیا گیا اور اسمبلی پر عین اس وقت وار کیا گیا جب وہ آئینی مسودہ پیش کرکے ملک کو ایک متفقہ آئین دینے والی تھی۔ اسمبلی ممبران کا یہ دعویٰ اپنی جگہ مگر بظاہر عملی طور پر اس وقت اسمبلی جو واحد ٹھوس چیز سامنے لائی تھی وہ قراردادِ مقاصد تھی‘ مگر یہ قرارداد بھی بڑی حد تک متنازع ہو گئی تھی۔ اس قرارداد پر ووٹنگ کے دوران اکثریتی مسلمان ممبران نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور تمام اقلیتی ممبران نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ اس طرح اس قرارداد کو لے کر یہ اسمبلی مکمل طور پر مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گئی۔ اقلیتی ممبران نے نہ صرف اس کے خلاف ووٹ دیا بلکہ قرارداد پاس ہونے کے بعد وہ اس کی مخالفت میں عوام کے اندر سرگرم ہو گئے‘ جس کی وجہ سے یہ معاملہ اسمبلی سے نکل کر عوام میں چلا گیا خصوصاً مشرقی پاکستان میں عوام کے بڑے حلقوں میں اس پر بحث شروع ہو گئی۔ اقلیتی ممبرانِ اسمبلی نے یہ مطالبہ شروع کر دیا کی اس قرارداد پر براہِ راست عوامی رائے لی جائے یعنی براہِ راست ریفرنڈم یا رائے شماری کے ذریعے عوام سے یہ پوچھا جائے کہ وہ قراردادِ مقاصد سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں۔ ان ممبران کا استدلال یہ تھا کہ یہ قرار داد قائد اعظم کے وژن اور ان کی گیارہ اگست کی تقریر کی روح کے منافی ہے۔ اقلیتی ممبران کے اس مطالبے کی کچھ مسلمان ممبران نے بھی حمایت شروع کر دی جس کی وجہ سے اس مطالبے کی حمایت میں اضافہ ہوتا گیا۔ دوسری طرف جو لوگ اسمبلی کی طرف سے تیار کردہ آئینی مسودے سے اتفاق نہیں کرتے تھے انہوں نے اس کا راستہ روکنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس مقصد کے لیے اسمبلی کے خلاف ایک خاص قسم کا مخالفانہ ماحول بنایا جانے لگا۔ نوکر شاہی کے علاوہ بعض عوامی حلقوں‘ سیاست دانوں اور دانشوروں نے اس اسمبلی کے جواز کے خلاف بیانات جاری کرنا شروع کر دیے۔ اس بات کو عوامی سطح پر عام کیا گیا کہ اسمبلی اپنا کام کرنے میں ناکام رہی ہے اس لیے اس کے وجود کا جواز ختم ہو گیا ہے جبکہ اسمبلی ممبران کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ آئین سازی کا عمل مکمل کر چکے ہیں جو ایک متفقہ آئین ہے اور اب اس آئین کو صرف رسمی طور پر پیش کرنا باقی ہے۔
اسمبلی کے خلاف جو ماحول تیار کیا جا رہا تھا‘ اس کی ایک کڑی کے طور پر 14اکتوبر 1950ء کو سید ابو الاعلیٰ مودودی نے لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ اسمبلی ایک اسلامی آئین بنانے میں ناکام رہی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق اس وقت تک مولانا مودودی صاحب کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ اسمبلی آئین کا مسودہ تیار کر چکی ہے اور یہ آئین ان کے خیالات اور نظریات کے مطابق ایک اسلامی ریاست کا آئین نہیں ہے۔ دوسری طرف حسین شہد سہروردی نے ایک خاص جمہوری نقطۂ نظر سے اسمبلی کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسمبلی طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ایک جمہوری آئین بنانے اور جمہوری کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس معاملے میں ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے اعلان کیا کہ اگر گورنر جنرل نے اس اسمبلی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا یا ملک میں نمائندہ اداروں کے قیام کے لیے کوئی آمرانہ قدم اٹھایا تو قوم اس سے صرفِ نظر کرے گی۔ یہ ایک بڑے اور مقبول سیاستدان کی طرف سے آمریت پسند قوتوں کے لیے ایک باضابطہ دعوت نامہ تھا کہ وہ اسمبلی کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں۔ جہاں تک اقلیتوں کا تعلق تھا تو ملک کی تمام اقلیتیں پہلے ہی قراردادِ مقاصد کو لے کر اسمبلی سے ناراض تھیں۔ اس طرح کے حالات و واقعات کو بنیاد بنا کر اسمبلی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حالات ساز گار بنانے کا عمل شروع ہوا۔
یہ ماحول دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو یقین ہو گیا کہ ان حالات میں اگر اسمبلی کے خلاف کارروائی کی گئی تو عوامی رد عمل زیادہ نہیں ہوگا۔ جس وقت اس اسمبلی کے خلاف کارروائی کی گئی اس وقت صاحبزادہ سید محمد علی چودھری عرف محمد علی بوگرا وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے تھے۔ بوگرا ایک بنگالی سیاستدان اور پیشہ ور سفارتکار تھے۔ ان کو امریکہ سے خاص طور پر بلایا گیا تھا‘ جہاں وہ اُس وقت سفارت کار تھے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے ان کو وزیراعظم نامزد کیا؛ چنانچہ اسمبلی کی برخاستگی کے عمل میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھے۔ ان کے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی تحلیل کر دی۔ یہ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمنٹ پر پہلا بڑا اور منظم حملہ تھا۔ اس عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے Allen McGrath نے اپنی کتاب The Destruction of Pakistan's Democracy میں لکھا ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد نے ایک کامیاب بغاوت کی تھی۔ ان کی کامیابی کا ایک حصہ یہ تھا کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا اسے کسی نے بغاوت نہیں کہا لیکن اس نے ناظم الدین کو باہر نکال کر وزیراعظم کے دفتر پر قبضہ کر لیا تھا اور محمد علی بوگرا کی حمایت و تعاون سے اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔ اب حکومت صرف ایک آدمی یعنی گورنر جنرل کے ہاتھ میں تھی۔
گورنر جنرل نے اسمبلی کو تحلیل کر کے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے‘ وزیراعظم نے اس عمل میں ان کے ساتھ پورا تعاون کیا تھا‘ اس لیے ان کو اس وقت تک کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کے لیے پہلا چیلنج اس وقت پیدا ہوا جب اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے اعلان کیا کہ گورنر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا عمل غیر آئینی تھا اور وہ گورنر کے اختیارات اور اقدامات کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ گورنر کے اس اقدام سے پاکستان میں ایک نئے بحران کا آغاز ہوا اور پہلا بڑا آئینی مقدمہ ''فیڈریشن آف پاکستان بنام مولوی تمیز الدین خان‘‘ سامنے آیا۔ اس کیس پر کثرت سے بولا اور لکھا جا چکا ہے مگر اب بھی اس کیس کے حوالے سے بہت سے مغالطے موجود ہیں۔ یہ مقدمہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مقدمے کے پس منظر میں وہ حالات و واقعات ہیں جن میں پاکستان میں قانون ساز اسمبلی کی بالا دستی‘ سول اور عسکری نوکر شاہی کا کردار اور عدالتوں کا وہ کردار سامنے آتا ہے جس نے پاکستان کی آنے والی تاریخ کے خدوخال کا تعین کیا۔ مولوی تمیز الدین کیس کیا تھا اور اس نے پاکستان کی تاریخ کا رُخ کیسے بدل کر رکھ دیا‘ اس کا احوال کسی آئندہ کالم میں پیش کیا جائے گا۔