"FBC" (space) message & send to 7575

بیگم نصرت بھٹو کیس اور جمہوریت کا خون

آئین کیا ہے ؟ یہ دس یا بارہ صفحات کا ایک کتابچہ ہے‘ میں اس کو پھاڑ سکتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ کل سے ہم مختلف نظام کے تحت رہیں گے۔ کوئی ہے جو مجھے ایسا کرنے سے روک سکتا ہے؟ یہ جنرل ضیا الحق کے الفاظ تھے‘ جو پاکستان میں آئین اور جمہوریت پسندوں پر ہتھوڑا بن کے برسے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977ء کو پاکستان میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کو ''آپریشن فیئر پلے‘‘ کا نام دیا گیا۔ مارشل لا ء کے اعلان کے بعد 1973ء کے آئین کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو بر طرف کر دیا گیا۔ آگے چل کر 17 ستمبر 1977ء کی صبح مارشل لاء آرڈیننس کے تحت ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے دس ساتھیوں کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں قید کر دیا گیا۔ ضیا کے اس عمل سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک نئے کیس کا اضافہ ہوا جو'' بیگم نصرت بھٹو کیس‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔ میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں مولوی تمیزالدین کیس‘ دوسو کیس اور عاصمہ جیلانی کیس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان مقدمات نے پاکستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کیس کو بھی اس صف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے اعلان کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے آئین کے آرٹیکل184 (3) کے تحت ایک رٹ پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کر دی۔ اس رٹ پٹیشن کے حق میں نصرت بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی طرف سے دیے گئے۔ دلائل میں پہلا نقطہ یہ تھا کہ 17 ستمبر 1977ء کی شام کو چیف آف آرمی سٹاف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کا جواز پیش کرنے کے لیے پارٹی کی حکومت کے خلاف غلط اور بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔ دوسرا نقطہ یہ تھا کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ پبلک احتساب کے تقاضے پورے کرنے کے لیے گرفتار شدہ رہنماؤں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائیں گے‘ جو غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔ تیسرا بڑا نقطہ یہ تھا کہ گرفتار شدگان کے خلا ف اٹھایا گیا اقدام بد نیتی اور امتیازی سلوک پر مبنی ہے‘ اور اس لیے اٹھایا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اکتوبر 1977ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔ یہ گرفتاریاں غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ چوتھا بڑا نقطہ یہ تھا کہ فوج کے سربراہ کے پاس ملک میں مارشل لاء لگانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مارشل لاء حکام کی طرف سے دلائل دیتے ہوئے اے کے بروہی نے کہا کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔ اس کیس میں درخواست گزار کے کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے۔ اس عدالت کے پاس اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے‘ جس کی وجہ 1977ء کا مارشل لاء آرڈر ہے‘ جس کے تحت عدالتوں کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں۔ 1977ء کے آرڈر کے آرٹیکل دو کے تحت بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ نئے لیگل آرڈر کے ذریعے پرانا لیگل آرڈر ختم کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے بغیر کوئی دیر کیے یہ پٹیشن خارج کر دی۔ فیصلے میں عدالت نے مؤقف اختیار کیا کہ عاصمہ جیلانی کیس کا اس کیس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ کیس اس کے بعد وجود میں آنے والی حکومتوں یا آئین کو غیر قانونی قرار نہیں دیتا۔ عدالت نے کیلسن تھیوری کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس تھیوری کا اطلاق ان مقدمات پر نہیں ہوتا جہاں حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مارشل لاء کا نفاذ ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے عارضی طور پر کیا گیا ہے‘ نیز اس کا اطلاق ہر قسم کے انقلاب پر نہیں ہوتا جو رونما ہوتے ہیں اور عدالتوں کے سامنے ان کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ تھیور ی انصاف اور اخلاقیات کے سماجی پہلو کو نظر انداز کرتی ہے‘ جس کی وجہ سے اس پر سنجیدہ تنقید کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا تیسرا نقطہ یہ تھا کہ موجودہ ڈیڈ لاک کو حل نکالنے کے لیے ریاستی ضرورت کے اصول کا سہارا لینا پڑے گا۔ عدالت کا پانچواں نقطہ یہ تھا کہ وزیر اعظم لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ ملک میں سیاسی بحران تھا‘ جس نے ''آئینی بریک ڈاؤن‘‘ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ایک ایسی صورت حال پیدا ہو گئی تھی جس کا آئین کوئی حل نہیں پیش کر سکتا تھا۔ ان حالات میں آرمی چیف کی مداخلت نا گزیر ہو چکی تھی۔ عدالت کے اس مؤقف کی بنیاد یہ دلائل اور مفروضے تھے کہ حکمران پارٹی کے امیدواروں کے حق میں حکومتی اہلکاروں نے بیلٹ کا تقدس پامال کرتے ہوئے وسیع مداخلت کی ہے۔ اس کی وجہ سے صورت حال حکومت کے کنٹرول سے نکل چکی تھی‘ جس کی وجہ سے بہت بڑا جانی و مالی نقصان ہوا۔ انتخابات میں دھاندلی اور مداخلت کی تصدیق مختلف عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہوئی۔ چیف الیکشن کمیشن نے بھی اپنے بیان کے ذریعے دھاندلی اور مداخلت کے الزامات کی تصدیق کی ہے۔ عوام نے بڑے پیمانے پر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم کی طرف سے حزبِ مخالف کے ساتھ مذاکرات اور تحریک کے وقتی طور پر رُک جانے کے باوجود سرکاری اہلکاروں کی تشویش برقرار رہی کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حالات سول انتظامیہ کے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ اس ڈیڈ لاک کے دوران پنجاب حکومت نے پارٹی ممبرز کو بڑے پیمانے پر اسلحہ کے لائسنس جاری کیے۔ وزیر اعظم کے معاونین خصوصی نے جان بوجھ کر اشتعال انگیز بیانات جاری کیے۔ احتجاج کے نتیجے میں تمام نارمل معاشی‘ سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئیں‘ جس کی وجہ سے ملک و قوم کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ وزیر اعظم کا ملک پر حکومت کرنے کا قانونی اور اخلاقی جواز ختم ہو گیا اور اس کی حکومت کے لیے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال برقرار رکھنا اور تعلیمی اداروں کو کھلا رکھنا مشکل ہو گیا۔ صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی کے سروسز چیفس کو اپنے طور پر وزیر اعظم سے اپنی وفا داری کا اعلان کرنا پڑتاکہ لا ء اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر ہو لیکن اس سے بھی احتجاج کی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وزیر اعظم اور ان کے وزرا کا آئینی اختیار مرکز اور صوبوں میں کم ہو گیا۔ عوام نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندہ کردار کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس صورت حال میں آئین کی طرف سے کوئی حل پیش نہیں کیا گیا‘اس لیے ملک کی مسلح افواج نے ملک کو مزید خون خرابے اور افراتفری سے بچانے کے لیے اور ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے مداخلت کی۔ مارشل لاء کا نفاذ وقت کی ضرورت تھی کیوں کہ ملک میں غیر آئینی اور غیر قانونی حکمرانی تھی جس کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ تھا۔یہ اقدام گو کہ آئین سے ماروا تھامگر ضرورت کے تحت اس کو درست قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ وہ دلائل تھے جو مارشل لاء حکام نے اپنے حق میں سنے۔ یہ دلائل خود ان کے اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ اس طرح پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اور کیس کا اضافہ ہوا جس میں آئین کی معطلی اور مارشل لا ء کے نفاذ کو درست قرار دیا گیا۔ فوجی عدالتوں کے قیام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قانونی جواز دینے کی کوشش کی گئی۔ اس صورت حال کے مستقبل میں جو اثرات مرتب ہوئے ان کا احوال کسی آئندہ کالم میں بیان کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں