پاکستان میں تبدیلی کی بات کرنے والے لوگ خود منفی تبدیلی کا شکار ہو گئے۔ یہ اچھی بات ہے کہ انہوں نے لفظ انقلاب استعمال نہیں کیا کہ اس لفظ یا اصطلاح کے نام پر پاکستان کے عوام کئی بار دھوکا کھا چکے ہیں۔ تبدیلی کی بات کرنے والے لوگ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ انقلاب کا مطلب تبدیلی ہی ہوتا ہے مگر انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر اس اصطلاح کے استعمال سے گریز کیا۔ اس گریز کی وجہ یہ تھی کہ وہ ملک کے بالا دست اور طاقتور طبقوں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کے مفادات کے لیے کسی قسم کا چیلنج پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ اور وہ موجودہ سماجی و معاشی تشکیل میں کوئی بنیادی تبدیلی لائے بغیر شریکِ اقتدار ہوں گے۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ بالا دست طبقوں کے مفادات کو چھیڑے بغیر عوام کو تبدیلی کا سہانا خواب دکھایا جا سکتا تھا اور اقتدار میں اپنا حصہ وصول کیا جا سکتا تھا۔ یہ حصہ ان کو مل تو گیا مگر یہ حصہ لینے کے بعد کیا کرنا ہے؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ ناگزیر طور پر رد ِانقلاب یا منفی تبدیلی تھی جو ان کو لے ڈوبی یا ان کے وجود کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن کر ابھری۔
پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ کسی سیاسی لیڈر نے غریب عوام کو تبدیلی کے سنہرے خواب دکھائے ہوں اور پھر عوام کو ان کے خوابوں کے کرچی کرچی ٹکڑے چننے کے لیے چھوڑ کر آگے نکل گیا ہو۔ ایسا بار بار ہوا ہے۔ ایسے رہنما بھی گزرے جنہوں نے باقاعدہ انقلاب کی اصطلاح بھی استعمال کی اور قائدِ انقلاب کہلائے۔ بڑے بڑے انقلابی منشور متعارف کروائے مگر زمین پر موجود حقائق کا کسی نے سامنا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ملک میں جاگیرداری کا فرسودہ نظام نا صرف برقرار رہا بلکہ مختلف طریقوں سے اس فرسودہ نظام اور اس سے وابستہ لوگوں کو نئی طاقت اور اختیار بخشا گیا۔ انقلاب کے نام پر جن لوگوں سے فاضل دولت اور اختیار لینے کا اعلان کر کے عوام سے ووٹ لیے گئے تھے اور آگے چل کر انہی بالا دست طبقات کو اقتدار میں شراکت دے کر سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا اور عوام سے کیے گئے وعدے اور ان کے نام پر کیے گئے دعوے یکسر نظر انداز کر دیے گئے۔ 50ء‘ 60ء اور 70 کی دہائی میں جب دنیا میں انقلاب رونما ہو رہے تھے اس وقت پاکستان میں اس طرح کے اقدامات کے ذریعے انقلاب کا راستہ کامیابی سے روکا جاتا رہا ہے۔ کبھی اسلام کے نام پر‘ کبھی سوشلزم کے نام پر اور کبھی لبرل جمہوریت کے نام پر عوام کا جذباتی‘ معاشی اور سیاسی استحصال کیا جاتا رہا۔ حالانکہ ان ادوار میں دنیا کے بیشتر ممالک میں انقلاب کے ذریعے جاگیرداری کے خاتمے اور دولت کی از سر نو تقسیم کے لیے کئی تجربات کیے گئے‘ جن کی وجہ سے کئی سماج فرسودگی‘ دولت پسندی اور طبقاتی تقسیم کو بڑی حد تک ختم نہ سہی کم از کم قابو کرنے میں کامیاب رہے لیکن پاکستان کو مختلف نعروں اور نظریات کے نام پر بڑی چابک دستی سے اس عالمی دھارے اور تیز رفتار تبدیلیوں کے عمل سے باہر رکھا گیا۔
آگے چل کر 80ء اور 90ء کی دہائی اور اس کے بعد کے ادوار میں لبرل جمہوریتوں کے فلسفے کے زیر اثر بجٹ کو دولت کی تقسیم اور عوامی مسائل کے حل کا ایک موثر طریقہ یا ذریعہ قرار دینے پر اصرار کیا گیا۔ ظاہر ہے‘ صرف بجٹ کے ذریعے انقلاب کی طرح دولت کی از سر نو منصفانہ تقسیم تو ممکن نہیں تھی لیکن بڑی حد تک غربت‘ بیروز گاری‘ بے گھری‘ صحت ‘ تعلیم اور طبقاتی تقسیم جیسے گمبھیر مسائل کو کم کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ بہت ساری سوشل ڈیموکریسیز اور سوشل ویلفیئر ریاستوں میں ترقی پسندانہ بجٹ کے ذریعے غربت‘ بیروز گاری اور طبقاتی تقسیم کی شدت میں ایک حد تک دکھائی دی جانے والی تبدیلی لانے کی کوششیں کی گئیں۔ اس سلسلے میں سکینڈے نیویا کی کچھ فلاحی ریاستیں جمہوری عمل میں طبقاتی تقسیم کی شدت میں کمی اور غربت و بیروزگاری جیسے سنگین مسائل کے خلاف ایک کامیاب ماڈل کے طور پر سامنے آئیں۔ اگرچہ وہ تمام انسانی مسائل پر قابو نہ پا سکیں اور نہ ہی اس طرح کے نظام میں کلی طور پر ایسا کرنا ممکن ہے۔ لیکن پاکستان میں حکمران اشرافیہ کی طرف سے ان ریاستوں کو آئیڈیل ماڈل قرار دینے اور ان کی تعریف و توصیف کے باوجود حسبِ روایت جمہوری عمل یا بجٹ سازی کے ذریعے ملک کے اندر موجود بیروز گاری‘ غربت‘ ناانصافی اور گہری طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کی طرف کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ کامیاب جمہوریتوں میں بجٹ سازی کیلئے جن مراحل سے گزرا جاتا ہے یا جس سطح پر عوامی فورمز سے لے کر پارلیمنٹ پر مکالمہ اور مباحثہ ہوتا ہے‘ اس کا پاکستان میں کوئی تصور نہیں۔ یہاں اس محاذ پر کوئی فکری یا علمی کام نہیں ہوا۔ یہاں بجٹ جیسے دولت کی تقسیم کے عمل کو حکمران طبقات کی رحمدلی اور عوام کی حالت بدلنے کی ان کی نیک خواہشات کا عمل بنا دیا گیا جس کی وجہ سے یہ عمل عوام کے کسی حقیقی مسئلے کو حل کرنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکا۔ موجودہ بجٹ اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ اس بجٹ پر عوام اور سول سوسائٹی میں کتنا بحث و مباحثہ یا مکالمہ ہوا؟ ذرائع ابلاغ اور میڈیا میں اس پر کتنی سنجیدہ تحریریں سامنے آئیں۔ کتنے چینلز پر اس پر مباحث ہوئے؟ اس سارے عمل کو ایک طرف رکھتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک رسمی عمل کے ذریعے ایک بجٹ کا اعلان کر دیا گیا۔ بجٹ پر بات کرتے ہوئے یا اس طرح کی ہلکی پھلکی تحریر لکھتے ہوئے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں جانا بیکار ہے۔ یہ اعداد وشمار عام آدمی کے لیے ناقابلِ فہم اور اوسط پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بہت ہی بورنگ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کامیاب جمہوریتیں اور سوشل ویلفیئر پر یقین رکھنے والی ریاستیں بجٹ کو دولت کا ارتکاز کم کرنے اور مصیبت زدہ اور کم خوش نصیب طبقات کی حالت زار میں کچھ تبدیلی لانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ہر سال بڑی شدت سے بجٹ کا انتظار کرتے ہیں کہ شاید ان کو کوئی خوش خبری مل سکے۔
اس اصول کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو حکمران اشرافیہ نے جو بھاری بھر کم بجٹ پیش کیا ہے‘ ان میں سے عوام کے حصے میں کتنا آیا؟ غربت و بیروز گاری کے خاتمے کے لیے کتنے روپے مختص ہوئے۔ صحت اور تعلیم کی مد میں کتنا حصہ مختص ہوا اور کیا یہ معمولی رقوم عوام کی صحت‘ تعلیم اور روز گار جیسے سنگین مسائل کے حل کے لیے کافی ہیں۔ دوسری طرف دولت کی چند ہاتھوں میں ارتکاز‘ مراعات یافتہ طبقات کی مراعات میں اضافے کے لیے ٹیکس چھوٹ سمیت کئی اعلانات اور ممبرانِ پارلیمنٹ کے لیے عوامی فلاح و بہبود کے نام پر کتنا بڑا فنڈ مختص ہوا۔ کیا یہ فنڈ عوام تک پہنچ پائے گا۔ اگر ہاں تو کس شکل میں اور اس سے غریب کی حالت زار میں کیا تبدیلی آسکتی ہے۔ ترقیاتی اخراجات‘ دفاع اور تعلیم کے لیے مختص بجٹ اس قوم و ملک کی ترجیحات اور رجحانات کا پتا دیتا ہے اور یہ بات واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کس قسم کی ریاست اور سماج قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ اس بجٹ سے یہ بات واضح ہے کہ مستقبل قریب میں اس ریاست کو فلاحی ریاست بنانے کا تصور ہی ناقابلِ تصور ہے اور ملک کو در پیش سنگین معاشی مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین تر ہوتے جائیں گے۔