افسوس کہ ملک میں دانشورانہ اور نظریاتی مباحث کا رواج دم توڑ چکا ہے۔ پورے ملک میں کوئی ایک ایسا فورم یا پلیٹ فارم موجود نہیں ہے جہاں سنجیدہ مقامی‘ علاقائی یا عالمی موضوعات پر بات ہوتی ہو۔ ماضی کی روایات کے برعکس موجودہ دور میں اردو یا انگریزی کا کوئی میگزین‘ رسالہ‘ ہفت روزہ یا ماہنامہ ایسا نہیں ہے جس میں علمی‘ فکری یہاں تک کے سیاسی مسائل کے بارے میں لکھا جاتا ہو۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت بقول شخصے جن لوگوں کو پڑھنا چاہیے‘ انہوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ ہر موضوع پر دو سطری ارشادات و فرمودات گردش کرتے نظر آتے ہیں جس سے علم و آگہی کے بجائے جہالت‘ لا علمی‘ کنفیوژن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور گمراہ کن خیالات کو فروغ ملتا ہے۔ اس طرح بڑی بڑی خبریں اور واقعات بغیر کسی تجزیے اور تبصرے کے گزر جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں منعقد ہونے والی جی 20 کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس سے جڑا انڈیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے درمیان کاریڈور کا منصوبہ بھی ہے جس پر پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں بہت کم بحث ہوئی۔ حالاں کہ اگر یہ پایۂ تکمیل تک پہنچ پائے تو یہ علاقائی اور عالمی سیاست کے تناظر میں ایک اہم منصوبہ ہے۔ عالمی اور علاقائی میڈیا میں اس منصوبے پر کافی لمبے چوڑے تبصرے ہوئے ہیں۔ میڈیا کے کچھ حصے نے اس کا تقابل چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹو سے کیا ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ امریکہ کی ایما پر تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا توڑ کرنا ہے۔ چین کے اس منصوبے کے بارے میں امریکہ کا موقف کوئی راز نہیں ہے۔ کئی عالمی فورمز پر امریکہ نے اس منصوبے کے بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اس منصوبے میں شامل ممالک کو کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ ان کے لیے نقصان دہ ہے اور ان ممالک کو اس منصوبے سے الگ ہونے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
امریکہ نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا ہے کہ وہ اس کے متبادل منصوبوں کے لیے درکار وسائل فراہم کرے گا لیکن دوسری طرف چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ تقریباً پوری دنیا تک پھیل چکا ہے۔ اس وقت اس منصوبے کی صورت یہ ہے کہ اپریل 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 148ممالک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت کے لیے میمو رینڈم آف انڈر سٹینڈنگ پر دستخط کر چکے ہیں۔ اگرچہ اس فہرست میں موجود بعض ممالک نے اب تک کھلے عام اپنی شمولیت کی تردید یا تصدیق نہیں کی ہے‘ ان میں روس سمیت چند دیگر ممالک شامل ہیں لیکن جو ممالک کھلے عام شامل ہوئے ہیں ان کی فہرست دنیا کے تمام براعظموں اور حصوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر براعظم افریقہ سے اس فہرست کا جائزہ لیا تو سب صحارن افریقہ کے 44 ممالک اس فہرست میں شامل ہیں۔ ایشیا اور پیسیفک سے اس فہرست میں شامل ہونے والے ممالک کی تعداد 25 ہے جن میں چین خود بھی شامل ہے۔ اسی طرح یورپ اور سنٹرل ایشیا سے اس منصوبے میں شامل ہونے والے ممالک کی تعداد 35 ہے۔ لاطینی امریکہ اور کریبین ممالک میں اس فہرست میں شامل ممالک کی تعداد 21ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے اس منصوبے میں اب تک 18 ممالک شامل ہوئے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا سے اس فہرست میں شامل ہونے والے ممالک کی تعداد چھ ہے۔ اس طرح یورپین یونین میں شامل 19 ممالک اور جی 20 میں شامل نو ممالک کے ساتھ بھی چین مل کر اس منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اس طرح اس منصوبے کا تیزی سے پھیلاؤ اور کامیابی واضح ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ دیکھا جائے تو اس منصوبے میں شامل کچھ ممالک نے مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے اور اٹلی سمیت چند دیگر ممالک نے اس سے الگ ہونے کا شارہ بھی دیا ہے۔ کئی ایسے ممالک بھی ہیں جو ابتدائی طور پر تو اس منصوبے میں شامل ہو گئے تھے مگر ان ممالک میں اس منصوبے پرکوئی باقاعدہ کام شروع نہیں ہوا۔ کئی ایک ممالک میں کام کی رفتار بہت ہی سست رہی اور کچھ ممالک میں یہ منصوبہ مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کی حمایت و تعاون سے انڈیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کاریڈور کا جو منصوبہ سامنے آیا‘ اس کو ایک متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس نئے منصوبے کے کئی مقاصد اور فوائد بتائے جا رہے ہیں۔ چینی منصوبے کی طرح یہ بنیادی طور پر ایک انفراسٹرکچر کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے کئی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اس خطے میں جہاز رانی کے لیے ایک متبادل راستہ بنانا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس پورے خطے اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں سے آنے والا تمام تجارتی سامان نہر سویز سے گزر کر بحیرۂ روم تک پہنچتا ہے۔ نہر سویز کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ اس علاقے کی اہم ترین آبی گزر گاہ ہونے کی وجہ سے یہ عالمی سیاست کا مرکز رہی ہے۔ عرب اسرائیل جنگ کے دوران مصر نے چھ جون 1967ء کو نہر سویز کو بند کر دیا تھا۔ اس سے پہلے دنیا نہر سویز کو لے کر ایک بد ترین بحران دیکھ چکی تھی جب یہ گزرگاہ 1956ء میں پانچ ماہ کے لیے بند کر دی گئی تھی۔ اس سے پہلے 1952ء میں مصرمیں جمال عبدل الناصر نے مصر کا اقتدارسنبھال لیا تھا جس کے فوراً بعد اس نے جاگیرداری کے خاتمے اور قومیانے کا عمل شروع کیا۔ اس وقت اٹلی‘ فرانس اور برطانیہ کی ضرورت کے تیل کا ایک بڑا حصہ اسی گزر گاہ سے ہو کر جاتا تھا۔ اس گزر گاہ میں رکاوٹ اور بحرانوں کی وجہ سے دنیا میں سخت قسم کے معاشی اور سیاسی بحران پیدا ہوتے رہے۔ بحرانوں کے اس سلسلے کا اک ایک بڑا بحران اکتوبر 1973ء کا تھا جب عربوں اور اسرائیل کے درمیان یم کپور جنگ کے دوران مصر نے اسرائیل سے عرب مفتوع علاقے واپس لینے کے لیے آپریشن بدر کے ذریعے نہر سویز کو پار کیا۔ اس جنگ میں امریکی صدر رِچرڈ نکسن نے اسرائیل کی مدد کے لیے کانگرس سے دو ارب 20کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کی۔ اس کے جواب میں تیل پیدا کرنے والے ممالک نے امریکہ کو تیل کی سپلائی پر پابندی لگا دی۔ یہ پابندی صرف چند ماہ تک ہی جاری رہ سکی مگر اس نے امریکہ کی معیشت اور سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ طویل سکون کے بعد دنیا کو اس آبی گزر گاہ کی اہمیت کا اندازہ حال ہی میں ایک بار پھر ہوا۔ 2021ء میں ایک مشہور مال بردار جہاز ایور گیون نہر سویز کے کنارے پھنس گیا تھا۔ اس واقعے نے عالمی تجارت پر بہت بڑا اثر ڈالا تھا۔ اب دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ اس نئے کاریڈور کے معاہدے کی وجہ سے نہر سویز پر دنیا کا انحصار کم ہو جائے گا اور بحران کے وقت متبادل راستہ میسر ہو گا۔ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ میں ریل کے ذریعے آمدو رفت اور سامان کی ترسیل کا ایک نیا نیٹ ورک قائم ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اس طرح کے انفراسٹرکچر کی کمی پوری ہو جائے گی حالاں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ریلوے لائن بچھانے کے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کو اسرائیل کے ذریعے یورپ سے جوڑا جا رہا ہے جس پر ترکی نے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح اس منصوبے کو ایک متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو اس خطے کی معیشت اور سیاست کو متاثر کرے گا۔