ہمارے ہاں تاریخ پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ تاریخ کے ایک خاص دور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی سمت درست کرنے کے بجائے ہم تاریخ کے سحر میں گرفتار ہیں اور تاریخ کے سنہری ادوار کے واپس لوٹ آنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ حالانکہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی اور ہوبہو شکل میں تو بالکل بھی نہیں۔ اس لیے تاریخ کے کسی خاص دور کو اپنی اصل شکل میں واپس نہیں لایا جا سکتا۔ عظیم سلطنتیں اور ریاستیں اُسی شکل میں دوبارہ قائم نہیں کی جا سکتیں۔ میں بھی تاریخ سے خصوصی دلچسپی رکھتا ہوں اس لیے میں اکثر تاریخ پڑھتا رہتا ہوں اور اس کے چھوٹے بڑے واقعات پر غور کرتا رہتا ہوں لیکن تاریخ میں میری دلچسپی ان ماہ و سال سے زیادہ ہے جن کا تعلق میری پیدائش سے فوراً پہلے کے دور سے ہے۔ اس دور کے واقعات پر میں اکثر غور کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ان واقعات پر غور و فکر کرنا ان بزرگوں اور دانشوروں کا کام تھا جو اس دور میں زندہ تھے۔ جو کسی نہ کسی شکل میں تاریخ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ خواہ وہ اس دور کے دانشور ہوں‘ حکمران ہوں یا پھر سیاسی رہنما ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان لوگوں نے ان واقعات پر غور نہیں کیا ہوگا‘ لیکن اس دور کے حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ تاریخ کے دھارے میں بہتے چلے گئے۔ یا پھر انہوں نے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے وہ اس وقت کے ہیرو یا نمایاں لوگ تو بن گئے لیکن آنے والی نسلوں پر اس کے کوئی خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ اور آنے والی نسلوں نے اس کی وجہ سے بہت مصائب برداشت کیے‘ جن میں ہماری نسل سر فہرست ہے۔
میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کا تعلق 1940ء اور 1950ء کی دہائی سے تھا‘ یعنی اس وقت یہ لوگ اپنی اپنی حیثیت میں کسی نہ کسی طرح تاریخ پر اثر انداز ہونے حتیٰ کہ اس کا راستہ بدلنے کی طاقت رکھتے تھے۔ میری پیدا ئش چونکہ 70ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی ہے‘ اس لیے میں اس سے فوری پہلے کے دور کو وہ پس منظر سمجھتا ہوں جو میری پوری زندگی پر اثر انداز ہوا ہے۔ لیکن اس پس منظر کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مجھے اس سے بھی بیس‘ پچیس سال پیچھے جانا پڑتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جوانی کے ابتدائی دور میں مجھے جس بزرگ یا بڑے سے بھی واسطہ پڑتا تھا‘ وہ اپنی ہر بات میں ماضی کا ذکر کرتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ہمارے ہاں ہر شخص ماضی میں کہیں پھنسا ہوا ہے۔ وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ اَن دیکھی زنجیریں توڑنے کے لیے تیار نہیں تھا جن میں وہ جکڑا ہوا تھا۔ اکثرلوگ انگریزوں اور ڈوگروں کا زمانہ یاد کرتے نظر آتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اُس زمانے میں رشوت‘ سفارش اور لوٹ کھسوٹ ہمارے دور کی نسبت کم تھی۔ اس طرح ان کی سیاسی و سماجی گفتگو زیادہ تر 1947ء سے پہلے کے حالات کے گرد گھومتی تھی‘ لہٰذا ہم نے ان سے زیادہ تر قصے کہانیاں 1947ء سے پہلے کے حالات‘ تقسیمِ ہند‘ تقسیم کے دوران ہونے والے واقعات اور پاکستان و بھارت کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ کے بارے میں ہی سنے۔
گفتگو کی ابتدا اس بات سے ہوتی تھی کہ تقسیم سے پہلے ریاست جموں و کشمیر میں کیا حالات تھے۔ ریاست جموں و کشمیر انگریزوں کی عملداری میں ایک نیم خود مختار ریاست تھی اس لیے کچھ لوگ انگریزوں کی حکمرانی کی بات کرتے تھے‘ کچھ لوگ ڈوگروں کی جنہوں نے تقریباً ایک سو سال تک ریاست پر حکومت کی تھی۔ کچھ لوگ انگریزوں کے نظامِ انصاف کے معترف تھے‘ کچھ ڈوگروں کے انتظام و انصرام کے قائل تھے۔ اگرچہ اکثر لوگ انگریزوں اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان جو قانونی و آئینی بندو بست تھا‘ اس کی گہرائیوں سے واقف نہیں تھے لیکن حکمرانی کے باب میں وہ دونوں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں کی روشنی میں پیش کرتے تھے۔ ہندوستان پر حکمرانی کے لیے انگریزوں نے برصغیر کو انتظامی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک حصہ برٹش انڈیا تھا جس کو برطانوی ہند کہا جاتا تھا۔ دوسرا حصہ برصغیر کے طول و عرض پر پھیلی ہوئی 562ریاستیں تھیں جن میں سے ایک ریاست جموں و کشمیر بھی تھی۔ اس ریاست کے بانی اور پہلے حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ تھے اور آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تھے۔ ہمیں جو زیادہ قصے کہانیاں سنائی جاتی تھیں‘ وہ مہاراجہ ہری سنگھ کے متعلق ہی ہوتی تھیں۔ زیادہ تر لوگوں کے پسندیدہ موضوعات گاؤ کشی اور ریاستی عوام پر لگائے گئے ٹیکس یا مالیہ وغیرہ تھے۔ میری دادی کی پسندیدہ کہانیاں گاؤ کشی کے واقعات پر مشتمل ہوتی تھیں۔ وہ بتاتی تھیں کہ گاؤ کشی پر بظاہر پابندی تھی لیکن پونچھ کے علاقے کے لوگ خفیہ طریقے سے بڑی باقاعدگی سے گائے کا گوشت بناتے تھے۔ اس طرح گاؤ کشی ایک طرح کی خفیہ پارٹی یا دعوت ہوتی تھی جس میں قابلِ اعتماد لوگ ہی شامل ہوتے تھے‘ ان قابلِ اعتماد لوگوں میں ان کے ایک پڑوسی سولو برہمن بھی تھے جو ان دعوتوں میں بلا ناغہ شریک ہوتے تھے۔ جس رات گائے ذبح ہونی ہوتی ان لوگوں کو رازداری سے خبر دے دی جاتی تھی۔ عام طور پر اس قسم کی دعوتیں بغیر کسی مسئلے کے تسلسل سے ہوتی رہتی تھیں‘ مگر کبھی کبھار کوئی اس طرح کے واقعات کی مخبری بھی کر دیتا۔ ایسے واقعات بہت ہی کم ہوتے لیکن اگر ایسا ہوتا تو ذمہ داران کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔
گاؤ کشی کی دعوتوں میں براہمنوں کی شرکت اس علاقے میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی کی مثال تھی۔ گاؤ کشی پر پابندی ہو یا عوا م پر لگائے جانے والے ٹیکس‘ ان سے ہندو اور مسلمان دونوں ناخوش رہتے تھے اور کئی جگہوں پر دونوں مل کر مقابلہ کرتے تھے‘ کیونکہ یہاں کے براہمنوں کی ایک بڑی تعداد ماس خور یعنی گوشت خور تھی۔ یہ مذہبی ہم آہنگی یا بھائی چارہ اس وقت ختم ہو گیا جب برصغیر کی تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ تقسیم کے وقت جب ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے تو ان کی خبریں ریاست جموں و کشمیر میں بھی پہنچنا شروع ہوئیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں خون خرابے کے ان واقعات کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ان واقعات کا عام آدمی کے ذہن پر بہت گہرا اثر ہوا۔ ظاہر ہے‘ برصغیر کی تاریخ 1947ء یا اس کے قریب ترین ادوار کی تاریخ ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے اور بعد میں بھی بڑے بڑے واقعات ہوتے رہے لیکن 1947ء اور اس سے جڑے واقعات لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو گئے اور وہ ان کے اثرات سے آج تک باہر نہیں نکل سکے۔ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ تو پوری طرح تاریخ کے اس دور میں پھنس کر رہ گئے۔ یہاں ہر گفتگو کا آغاز اور اختتام ہی تاریخ کے اس دور پر بات کرنے سے ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ رجحان پورے طریقے سے نئی نسل میں منتقل ہو گیا ہے۔ نوجوان نسل بھی ہر بات کا آغاز تاریخ سے کرتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے۔
تاریخ کے بارے میں جاننا‘ تاریخ پڑھنا اور تاریخ سے سبق سیکھنا ہر قوم و ملک کے لیے لازم ہے لیکن تاریخی واقعات کو اپنے نظریات و خیالات کی روشنی میں دیکھنا اور ان سے اپنے نظریات کے مطابق نتائج اخذ کرنا اور پھر ان نتائج کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرنا دوسری بات ہے۔ یہ طرزِ عمل تاریخی شعور نہ ہونے اور تاریخ کے ایک خاص دور میں ذہنی و نفسیاتی طور پر پھنسے ہونے کی دلیل ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے اس کیفیت سے باہر نکلنا لازم ہے۔