ہمارے ہاں شخصیت پرستی بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک باقاعدہ روگ ہے۔ کچھ لوگ اسے گریٹ مین سنڈروم یا عظیم آدمی کی تھیوری بھی کہتے ہیں۔ عظیم لوگوں‘ خصوصاً عظیم لیڈروں کے بارے میں یہ تھیوری انیسویں صدی میں بہت مقبول ہوئی۔ اس تھیوری کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کو صرف عظیم لوگوں کے اس پر اثرات کے ذریعے ہی سمجھا سکتا ہے۔ یہ عظیم لوگ اپنے سماج اور وقت کے ہیرو ہوتے ہیں۔ یہ لاثانی قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ جو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے عظمتوں کی بلندیوں پر فائز ہوتے ہیں۔ ان صلاحیتوں میں ان کی بے پنا ہ دانش‘ ہمت‘ لیڈر شپ کی غیر معمولی صلاحیت یا مافوق الفطرت رہنمائی شامل ہوتی ہے۔ یوں تو یہ ایک پرانی تھیوری ہے لیکن اسے سب سے پہلے سکاٹش لکھاری‘ دانشور اور تاریخ دان تھامس کارلائل نے باقاعدہ شکل دی۔ اس سلسلے کا آغاز 1840ء میں ہواجب کارلائل نے ہیروازم پر لیکچرز دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں یہ لیکچرز کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ کار لائل نے اس کتاب میں تاریخ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ جو کچھ انسان اس دنیا میں حاصل کرچکا ہے وہ یونیورسل تاریخ ہے اور یہ تاریخ دراصل اس عظیم آدمی کی تاریخ ہوتی ہے جس نے یہ تاریخ بنانے کے لیے کام کیا۔ یہ عظیم لوگ اپنے وقت کے لیڈر تھے۔ ہم اپنے اردگرد جتنی حاصلات دیکھتے ہیںوہ انہی عظیم لوگوں کی محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے اپنی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خیالات اور نظریات کو مادی کامیابیوں میں تبدیل کیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی روح ہے۔ کارلائل نے لکھا کہ دنیا کی تاریخ دراصل عظیم لوگوں کی سوانح عمری ہے۔ ہیروز اپنی ذاتی خوبیوں اور مافوق الفطرت انسپیریشن کی وجہ سے تاریخ بناتے ہیں۔
اپنی کتاب ''On Heroes, Hero-Worship, and the Heroic in History‘‘ میں کارلائل تاریخ کو ہیروز کے خیالات اور عمل کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اس کتاب میں اس نے ہیروز کی درجہ بندی بھی کی ہے۔ ان میں پیغمبراسلام‘ شاعر و ادیب جیسے شیکسپیئر‘ پادری جیسے مارٹن لوتھر کنگ ‘ لکھاری جیسے روسو اور جرنیل جیسے نپولین شامل کیے ہیں۔ ہیگل نے اس تھیوری پر تھوڑا ہٹ کر بات کرتے ہوئے لکھا کہ عظیم آدمی تاریخ تخلیق نہیں کرتا بلکہ تاریخ سے پردہ اٹھاتا ہے‘ اور ناگزیر مستقبل کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس نظریے کے دو بنیادی اصول ہیں: ایک یہ کہ عظیم آدمی پیدائشی طور پر ایسی خصوصیات رکھتا ہے جن کی وجہ سے وہ عظیم لیڈربنتا ہے‘ اور دوسرا یہ کہ ان خصوصیات کے اظہار کے لیے سازگار حالات کی موجودگی ضروری ہے‘ اور ان سازگار حالات کی وجہ ہی سے کوئی شخص لیڈر بنتا ہے۔
انیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں یہ تھیوری بہت مقبول ہوئی اور اسے دنیا میں عمومی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن ظاہر ہے عظیم لوگوں اور تاریخ کے باب میں یہ کوئی واحد تھیوری نہیں تھی۔ اس باب میں چند دیگر تھیوریاں اور خیالات بھی موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں آگے چل کر 1960ء کی دہائی میں جو تھیوری مقبول ہوئی‘ یہ تھیوری زیادہ تر سوشل تاریخ دانوں نے پیش کی۔ اس میں تاریخ کو اوپر سے نیچے دیکھنے کے بجائے نیچے سے اوپر دیکھنے کا نظریہ پیش کیا گیا۔ 60ء اور 70 ء کی دہائی میں یہ نظریہ زیادہ تر نوجوان نسل میں مقبول ہوا لیکن آج بھی کینیڈا‘ فرانس اور جرمنی وغیرہ میں تاریخ اور شخصیت کے بارے میں یہ نظریہ کافی مقبول ہے۔ لیکن یہ نظریہ‘ جسے نئی سوشل تاریخ بھی کہا جاتا ہے‘ اتنا نیا بھی نہیں اور اس کی ابتدا 1930ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ہو چکی تھی۔ یہ تاریخ کا عام آدمی سے متعلق نظریہ تھا جس کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ تاریخ کو صرف عظیم لوگوں کے کردار اور سرگرمیوں سے ہی نہیں عام لوگوں کی محنت اور جدوجہد کے زاویہ سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔ یہ نظریہ 1963ء میں ای پی تھامسن کی کتاب ''The Making of the English Working Class‘‘ کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچا۔ اس طر ح اس نے ایک باقاعدہ سوشل ہسٹری کے طور پر مغربی دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی جگہ بنائی۔ جرمنی اور برطانیہ وغیرہ میں عام آدمی کے نقطۂ نظر سے تاریخ پر لکھا گیا۔ امریکہ میں Howard Zinn سمیت کئی لوگوں نے ''A People's History of the United States‘‘ کے عنوان کے تحت اس کو آگے بڑھایا۔ لیکن ان سب نظریات کے مقابل برسوں پہلے تاریخی مادیت کا نظریہ سامنے آچکا تھا جس نے تاریخ لکھنے والوں کی بنیادی سوچ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
تاریخی مادیت کارل مارکس کا نظریہ ہے۔ اس نظریے کے ذریعے یہ واضح کیا گیا کہ دنیا کی تاریخ محض بڑے لوگوں کی ہی تاریخ نہیں بلکہ یہ طبقاتی جدو جہد کی تاریخ ہے۔ اگرچہ تاریخی مادیت کو کسی ایک کتاب کی شکل میں پیش نہیں کیا گیا لیکن مارکس اور انگلس (Engels) نے مختلف اوقات میں مختلف تحریروں کے ذریعے اس پر اظہارِ خیال کیا جو اس موضوع پر جدید دور کا ایک اہم ترین نقطۂ نظر بن گیا۔
تاریخی شخصیات اور عظیم لوگوں کے بارے میں یہ تین قسم کے نظریات دنیا بھر میں مقبول ہوئے اور آج بھی مختلف ممالک میں ان کو تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ مغرب میں یہ تینوں قسم کے نظریات مقبول ہیں اور یونیورسٹیوں اور دیگر فورمز پر مختلف مکاتب فکر کے درمیان ان پر بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے۔ بر صغیر میں مختلف لوگوں نے اپنے اپنے طور پر ان نظریات کی کسی نہ کسی شکل کو قبول کیا لیکن بر صغیر کے مقامی حالات اور مقامی نفسیات کی وجہ سے ان نظریات نے کئی مقامی رنگ اختیار کیے۔ مقامی سطح پر اس پہ سب سے زیادہ مذہب کا رنگ چڑھا۔ اولیاء‘ رِشی اور منی روایات اور خیالات نے اس پر کافی اثر ڈالا؛ چنانچہ یہاں لیڈر کا تصور کسی دیوی‘ دیوتا یا مافوق الفطرت شخص کی شکل میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ یعنی لیڈر ایسا ہو جو ایسی ذاتی اور شخصی خصوصیات رکھتا ہو جو عام آدمی سے کہیں زیادہ اور غیر معمولی ہوں۔ وہ دلیر اور دیانتدار ہو‘ ناقابلِ شکست اورعظیم لا زوال کردار کا مالک ہو۔ یہ نفسیات پاکستان ‘ بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بہت زیادہ ہے۔ لیڈر کو ہیرو سمجھ کر پوجا جاتا ہے بلکہ یہ خصوصیات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اولادوں میں بھی تلاش کرنے کی کوشش ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے ان ممالک میں موروثی سیاست کا روگ موجود ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہو تا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس موروثی سیاست کی جھلک اکثر دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس طرح کی سیاست کی غالب حیثیت اور مستقبل کی حکومتی تشکیل میں ایک غالب عنصر کے طور پر اس کی موجودگی کے مظاہر عام ہیں۔ بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ میں بھی یہ سیاست مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہی ہے‘ جہاں لیڈر کی وفات پر اُس کی اولاد کو لیڈرشپ کا حق دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مغرب کی کامیاب جمہوری ریاستوں میں اس کی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سیاسی خاندان سے کوئی اِکا دکا شخص آگے آتا بھی ہے تو وہ اسی مروجہ سیاسی پراسیس سے گزر کر سیاست میں اپنی جگہ بناتا ہے‘ جس سے عام آدمی کو گزرکر آنا پڑتا ہے۔ لہٰذا برصغیر میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ موروثی سیاست میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘ یہ ساری دنیا میں پائی جاتی ہے‘ بنیادی طور پر ایک گمراہ کن دلیل ہے جو غلط بیانی پر مبنی ہے۔ پاکستان میں موروثی سیاست کے قائل سیاستدان اکثر اس طرح کا بیان دیتے ہیں‘ جو حقائق کے منافی ہے۔