پاکستان میں نظامِ انصاف کو لے کر آئے دن بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔ اس میں عام دلچسپی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب نظامِ انصاف کے حوالے سے پاکستان کی عالمی رینکنگ پر کوئی تازہ رپورٹ سامنے آتی ہے۔ عموماً اس طرح کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کے نظامِ انصاف کا درجہ بہت نیچے ہوتا ہے۔ اس باب میں کئی عالمی اداروں کی طرف سے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر پاکستان کے نظامِ انصاف و قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور عموماً عدالتی نظام کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے نظامِ انصاف کی حالتِ زار اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی عالمی رینکنگ میں عدالتوں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات پاکستان پر بھی صادق آتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار بھی بہت بنیادی ہوتا ہے۔ مگر منطقی اعتبار سے یہ تمام ادارے آئین و قانون کی روشنی میں عدالتوں ہی کے تابع ہوتے ہیں‘ یا کم از کم آئین و قانون اور اصول کی روشنی میں یہ مانا جاتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ نظامِ انصاف کی خامیوں کی بات کرتے ہوئے عموماً عدالتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ جب کبھی قانون کی حکمرانی یا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات ہوتی ہے تو عدالتوں کی طرف ہی دیکھا جاتا ہے اور عدالتوں ہی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات ہوتی ہے تو آئین و قانون کی رو سے ان اداروں میں پولیس سرفہرست آتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا میں شاید ہی تیسری دنیا کا کوئی ترقی پذیر ملک ہو جس میں پولیس کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ اس کے سلوک پر عوام اور اداروں کو شکوہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کو قانونی فرائض کی انجام دہی کے لیے براہِ راست عوام کے ساتھ ڈیل کرنا پڑتا ہے۔ قانون کی حکمرانی‘ جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے پولیس کو عوام کے ساتھ براہِ راست معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کی اچھی یا بری کارکردگی کو اکثر اوقات عوام کے تاثرات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ رائے عامہ پولیس کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ اس کے سلوک کی عکاسی کرتی ہے‘ جس کا اظہار آگے چل کر عالمی رینکنگ میں ہوتا ہے۔
دنیا میں پولیس کی رینکنگ اوراس ادارے کی اچھی و بری کارکردگی کے حوالے سے مختلف عالمی ادارے‘ تنظیمیں اور ریسرچ کرنے والے گروپ اپنے اپنے اعداد و شمار جاری کرتے رہتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں کسی ملک کے لیے عالمی رائے عامہ تشکیل پاتی رہتی ہے۔ اس رائے عامہ کی روشنی میں بڑے بڑے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ کسی ملک میں سکونت اختیار کرنے‘ سرمایہ کاری کرنے یا سیر و سیاحت کے بارے میں فیصلے بھی ایسے ہی اعداد و شمار کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ ان سب فیصلوں کا دار و مدار کسی ملک کے امن و امان کی مجموعی صورتِ حال اور قانون کی حکمرانی کے معیار پر ہوتا ہے۔ اس طرح کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آج کل بدعنوان‘ نااہل اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کے حوالے سے ٹاپ ٹین ملکوں کی فہرست میں پہلا نام کینیا کا ہے۔ ان اعداد و شمار میں خود کینیا کی مقامی آبادی کے سروے کے نتائج بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس سروے کے مطابق 92 فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ کینیا میں پولیس قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرتی ہے‘ شہریوں سے رشوت لیتی ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قانون کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔ بدترین صورت حال والے ممالک کی اس فہرست میں پہلے پانچ نمبروں میں کینیا کے علاوہ میانمار‘ عراق‘ صومالیہ اور افغانستان کا نمبر آتا ہے۔ ان ممالک میں مشترک چیز جمہوری کلچر کی عدم موجودگی‘ رشوت‘ سفارش اور آمریت پسندی کے رجحانات کا غالب ہونا ہے۔ اس فہرست کو مزید آگے بڑھا کر دیکھا جائے تو ان کے بعد اس فہرست میں سوڈان‘ روس‘ پاکستان‘ ہیٹی اور میکسیکو جیسے ممالک شامل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اس باب میں پاکستان آٹھویں نمبر پر دکھائی دیتا ہے۔
اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو دنیا کی بہترین پولیس کی رینکنگ بھی مختلف اداروں اور تنظیموں کی طرف سامنے آتی رہتی ہے۔ اس رینکنگ کے مطابق اس وقت سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو دنیا میں نمبر ایک قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس پولیس فورس کے اندرونی ڈسپلن کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔ دوسری وجہ اس کی شفافیت ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس پولیس کے پاس ایک لچکدار نظام ہے‘ جس میں ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کینیڈین پولیس کو اس رینکنگ میں دوسرے نمبر پر رکھا جاتا ہے۔ اس پولیس کو رائل مائونٹ کینیڈین پولیس کہا جاتا ہے‘ جس کے پاس غیر معمولی کارکردگی کا سو سالہ تجربہ ہے۔ لیکن اس کے دنیا کی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر آنے کی وجہ اس کا پولیس کالج ہے‘ جہاں پولیس کو بنیادی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کالج میں پولیس کو قانون کے نفاذ اور عوام کی خدمت پر علمی اور عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اس رینکنگ میں نیدرلینڈز کو تیسرے‘ فرانس کو چوتھے‘ جاپان کو پانچویں‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ جرمنی‘ چین اور سویڈن کو بالترتیب چھٹے‘ ساتویں‘ آٹھویں‘ نویں اور دسویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ان سب ممالک کے پولیس ماڈل ایک دوسرے سے کچھ مختلف ہیں۔‘ان کے کام کرنے کے طریقہ کار‘ ڈسپلن اور تعلیم و تربیت میں بھی فرق ہوتا ہے‘ لیکن سب کا مشترکہ فوکس اور نقطہ ماسکہ قانون کی حکمرانی ہے‘ جس کا مقصد عوام کی خدمت اور ان کی حفاظت کرنا ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو بظاہر پوری دنیا میں عوام کی خدمت اور ان کی حفاظت پولیس ہی کا بنیادی فرض قرار دیا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے‘ جس کا مظاہرہ روز مرہ کی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں رشوت‘ سفارش اور قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرنا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سرعام ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں پولیس کو عام ادمی کے ساتھ انتہائی غیر انسانی اور بسا اوقات وحشیانہ سلوک کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک میں مختلف حصوں میں پے درپے اس طرح کے واقعات پیش آئے‘ جن کا اگرچہ اعلیٰ سطح پر نوٹس بھی لیا گیا اور ان واقعات میں ملوث اہلکاروں کو سزائیں بھی دی گئی ہیں‘ لیکن اس طرح کے ''کاسمیٹک‘‘ اقدامات سے پولیس کلچر میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے‘ جس میں عوام کے ساتھ بدتمیزی‘ غیر قانونی حرکات اور تشدد جیسے واقعات عام ہیں۔ بسا اوقات اس طرح کے کلچر کو لوگ انگریز سرکار یا نو آبادیاتی نظام کی دین قرار دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکلے ہوئے پون صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اس عرصے میں پولیس میں بھی بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں‘ قواعد و ضوابط بھی بدلے ہیں مگر ظلم‘ تشدد‘ رشوت ستانی‘ بدعنوانی اور بدتمیزی کے جو تصورات پولیس کے ساتھ جڑے ہیں‘ ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان میں پختگی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی درست ہے کہ نو آبادیاتی نظام کی بہت ساری باقیات ہیں‘ جن کا ہمیں اس وقت سامنا ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے مروجہ کلچر اور اخلاقیات میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس کے بغیر بہتری کی توقع عبث ہے۔