اسرائیل کو اس وقت دو محازوں پر بدلتی ہوئی رائے عامہ کا سامنا ہے۔ دونوں محاذ ایسے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اندرونی محاذ ہے‘ جہاں رائے عامہ تیزی سے تقسیم ہو رہی ہے۔ فلسطین بارے حکومتی پالیسی کی مخالفت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد اب خاموش تماشائی رہنے کے بجائے حکومت کی فلسطین پالیسی پر ایک متحرک اور سرگرم مخالف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس تبدیلی کا اظہار حالیہ دنوں میں اسرائیل کی شاہراہوں پر ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں انسانی حقوق کے کارکنان‘ سول سو سائٹی کے ممبران اور عام شہریوں نے صہیونی حکومت کی فلسطین پالیسی کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسرا محاذ سفارتی ہے۔ سفارتی حلقوں میں اسرائیل کی فلسطین پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ چند ہفتے قبل سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد اور ووٹنگ میں امریکہ کی عدم شرکت اس تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی لیڈرشپ پر اپنی اندرونی رائے عامہ کا دبائو بڑھ رہا ہے۔ ایک وقتی ہیجان خیزی کے بعد دنیا واپس حقیقت پسندی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اب ریئل ازم کی بات ہو رہی ہے اور اس مسئلے کے حل کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ حل کی بات پر زیادہ تر سفارتی حلقوں میں ایک بار پھر دو ریاستی حل ہی ایک جادوئی حل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
دو ریاستی حل کیا ہے؟ دو ریاستی حل ان دو قومی گروہوں کے لیے دو الگ الگ ریاستیں بنا کر اسرائیل‘ فلسطین تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک مجوزہ فریم ورک ہے۔ یہ حل بنیادی طور پر اس خیال پر کھڑا ہے کہ یہودی عوام کے لیے اسرائیلی ریاست اور فلسطینی عوام کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس تنازع کا قابلِ عمل حل ہے۔ اس تصور کو سمجھنے کے لیے تنازع کا مختصر تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد فلسطین پر برطانیہ کا نوآبادیاتی تسلط قائم ہو گیا تھا۔ اس تسلط کو قانونی جواز بخشنے کے لیے اس وقت کے عالمی ادارے‘ لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو فلسطین پر حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔ اس دوران فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس ہجرت کے پس منظر میں صہیونی تحریک کے تصورات کے مطابق یہودی وطن کے قیام کا ہدف نمایاں تھا۔ مقامی عرب آبادی نے یہودیوں کی اس پیمانے پرنقل مکانی اور فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی سخت مخالفت کی۔ دو قوموں کے درمیان یہ اختلاف ایک باقاعدہ تضاد اور مسلسل تصادم کی شکل اختیار کر گیا‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر ایک سنگین عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر گیا۔ لیگ آف نیشنز کے بعد‘ اقوام متحدہ نے 1947ء میں فلسطین کے لیے ایک تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جس میں اس علاقے کو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی گئی تھی جبکہ القدس (یروشلم) کو بین الاقوامی کمیونٹی کے زیر انتظام شہر کے طور پر رکھا گیا تھا۔ یہودی قیادت نے اس منصوبے کو قبول کر لیا لیکن عرب رہنماؤں نے اسے غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ مئی 1948ء میں ریاستِ اسرائیل کے قیام کے اعلان کے نتیجے میں عرب‘ اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جس میں اقوامِ متحدہ کے تقسیم کے منصوبے میں تجویز کردہ علاقے سے زیادہ علاقہ شامل تھا۔ آگے چل کر 1967ء میں اسرائیل نے پڑوسی عرب ریاستوں مصر‘ اردن اور شام کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران مغربی کنارے‘ غزہ کی پٹی‘ مشرقی یروشلم‘ جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس قبضے نے اسرائیل‘ فلسطین تنازع کی حرکیات کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا۔ اس قبضے کے بعد فریقین کے درمیان جنگ اور سفارتکاری زور پکڑ گئی جس کے نتیجے میں کئی معاہدے اور سمجھوتے ہوئے۔ ان میں معاہدۂ اوسلو اہم ترین معاہدے کے طور پر سامنے آیا۔
اوسلو معاہدے پر اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کا مقصد امن مذاکرات کے لیے ایک فریم ورک قائم کرنا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کے امکانات پیدا ہوئے لیکن جب عملدرآمد کا وقت آیا تو اس امن عمل کو متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس معاہدے کی ناکامی کے باوجود فریقین کے مابین مذاکرات‘ سفارتکاری اور جنگ و جدل کا عمل جاری رہا۔ موجودہ تصادم اسی سلسلۂ عمل کا حصہ ہے۔ دو ریاستی حل اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر توثیق شدہ فریم ورک ہے۔ تاہم اسرائیلی آباد کاری میں مسلسل توسیع‘ فلسطینیوں کی سیاسی تقسیم‘ سلامتی کے خدشات اور سرحدوں‘ پناہ گزینوں اور یروشلم جیسے اہم مسائل کی متضاد تشریحات کی وجہ سے اس کی عملداری پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ان سنگین چیلنجوں کے باوجود‘ دو ریاستی حل کا تصور بین الاقوامی سفارتکاری اور خطے میں امن کی کوششوں کے لیے ایک مرکزی نکتہ ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ واحد تجویز کردہ حل نہیں‘ لیکن سردست اس نے کئی وجوہات کی بنا پر اہم بین الاقوامی حمایت اور توجہ حاصل کی ہے۔ تاریخی طور پر دو ریاستی حل کئی دہائیوں سے امن مذاکرات اور سفارتی کوششوں کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ یہ 1947ء میں اقوام متحدہ کے تقسیم کے فارمولے سے ابھرا اور تب سے اس تنازع کو حل کرنے کا ایک مستقل فریم ورک رہا ہے۔ اس حل پر کسی حد تک بین الاقوامی اتفاقِ رائے بھی موجود ہے۔ دو ریاستی حل کو بین الاقوامی برادری بشمول اقوام متحدہ‘ یورپی یونین‘ عرب لیگ اور بہت سے انفرادی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ یہ اتفاقِ رائے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں‘ دونوں کی جائز قومی اُمنگوں کو تسلیم کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔
دو ریاستی حل میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے الگ الگ تاہم ملحقہ ریاستوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے جو 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر باہمی رضامندی سے زمین کے تبادلے کے ساتھ ہے۔ یہ تقسیم دونوں فریقوں کے علاقائی دعووں کا ممکنہ حل پیش کرتی ہے اور اس کا مقصد دونوں کو ایک خودمختار اور قابلِ عمل ریاست فراہم کرنا ہے۔ دو ریاستی حل اسرائیلیوں اور فلسطینیوں‘ دونوں کے لیے سلامتی اور حقِ خود ارادیت کے حصول کا راستہ پیش کرتا ہے۔ یہ اسرائیل کو سلامتی کے خطرات اور آبادیاتی چیلنجوں کے بارے میں اپنے خدشات کو دور کرتے ہوئے تسلیم شدہ اور محفوظ سرحدیں فراہم کرتا ہے جبکہ فلسطینیوں کو ایک ایسی ریاست بنانے اور اس پر حکومت کرنے کی اجازت دیتا ہے جو ان کی قومی شناخت کی عکاسی کرتی ہو۔ دو ریاستی حل خطے کی تشویشناک انسانی صورتحال‘ فلسطینی پناہ گزینوں کی حالتِ زار اور فلسطینی علاقوں میں اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ضرورت کی تکمیل کا ایک ممکنہ اور تیز رفتار راستہ ہے۔ اپنے بے شمار چیلنجوں کے باوجود‘ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ دو ریاستی حل اسی صورت میں قابلِ عمل رہتا ہے جب دونوں فریق مذاکرات اور سمجھوتے کے لیے پُرعزم ہوں اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے تنازعے کو حل کرنے کی جانب عملی نقطہ نظر رکھتے ہوں۔
اس وقت جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دبائو بڑھ رہا ہے اور جنگ بندی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ سنجیدہ عالمی حلقے محض جنگ بندی پر اکتفا کرنے کے بجائے اس مسئلے کے مستقل حل کی بات کر رہے ہیں جس کے بغیر اس خونیں تنازع سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ مستقل حل کے بغیر جنگ بندی سے محض خوف کا توازن قائم ہو گا۔