آزاد کشمیر میں حکومت سے مطالبات منوانے کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر ہونے والا احتجاج بلاشبہ آزاد کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ آزاد کشمیر کم آبادی والا علاقہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں کی آبادی چالیس لاکھ کے قریب ہے۔ یہ آبادی دور دراز پہاڑوں پر اور دیہات میں پھیلی ہوئی ہے۔ شہروں اور قصبوں میں آمدورفت کے لیے لوگوں کو انتہائی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ آزاد کشمیر کے بہت سارے علاقوں کی اب بھی سڑکوں تک رسائی نہیں ہے اور جہاں سڑکیں میسر ہیں وہ بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں‘ جگہ جگہ خوفناک گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان سڑکوں کو کئی لوگ ہالی وُڈ کی ڈراؤنی فلموں کی خون آشام سڑکوں سے تشبیہ دیتے ہیں جو موت کے ''ٹریپ‘‘ یعنی جال کی طرح ہوتی ہیں۔ چالیس لاکھ نفوس میں سے 18 سے 60 سال کے درمیان والی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ روزگار کے لیے اس علاقے سے نکل کر دیگر علاقوں اور ممالک میں بسلسلہ روزگار مقیم ہے۔ دوسری طرف آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو ذہنی اور قلبی طور پر تو عوامی حقوق کی اس تحریک میں شامل ہے لیکن جسمانی طور پر اس احتجاج اور مارچ کا حصہ نہیں بنا۔ ان میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جو صحت کے مسائل کی وجہ سے اس طرح کے احتجاج کا حصہ نہیں بن سکتی۔
کوئی بھی احتجاج اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بظاہر نظر آ تا ہے۔ اس میں لوگوں کو میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی ہوتی ہے۔ آنسو گیس اور پولیس تشدد کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ طویل سفر کے دوران کھانے پینے کے مسائل بھی ہوتے ہیں اور راستے میں ٹوائلٹ وغیرہ کی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں ہوتیں۔ راتوں کو جاگنا یا نیند غالب آنے کی صورت میں سڑکوں پر ہی سونا پڑتا ہے۔ اس لیے کسی بھی تحریک کا دل و جان سے حصہ ہونے کے باوجود ہزاروں لوگ اس میں شمولیت سے معذور ہوتے ہیں‘ لیکن وہ اس تحریک کا حصہ ہوتے ہیں اور مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں اور بسلسلہ روزگار آزاد کشمیر سے باہر مقیم لوگوں کو نکال دیا جائے تو آزاد کشمیر کی بہت تھوڑی سی آبادی بچتی ہے جو اس طرح کے پُرمشقت مارچ یا احتجاج میں شامل ہو سکتی ہے۔ ان سارے فیکٹرز کو سامنے رکھنے کے باوجود اگر احتجاج میں شامل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں اور کچھ اندازوں کے مطابق لاکھوں میں ہو تو یہ حکمران طبقے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج اور لمحۂ فکریہ ہے۔ خصوصاً جب عام آدمی اپنے محدود وسائل کے باوجود دامے‘ درمے سخنے تحریک میں شامل ہو رہا ہو۔
کسی بھی تحریک کی قیادت کے لیے جب کوئی قومی ہیرو‘ سٹار یا نامی گرامی شخصیت نہ ہو‘ کسی کنسرٹ یا محفلِ موسیقی کا اہتمام نہ ہو‘ بریانی کی بھینی بھینی خوشبو نہ ہو اور عام آدمی اپنے عام لیڈر کی قیادت میں جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل پڑا ہو تو یہی وہ مقام ہوتا ہے جب حکمران اشرافیہ کو اپنے دامن میں جھانکنا چاہیے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ انہی عوام کا جو مینڈیٹ لے کر وہ حکومت میں آئے تھے کیا وہ مینڈیٹ باقی ہے؟ یا یہ وہ مقام ہے جہاں انہیں واپس عوام میں جا کر اپنا مینڈیٹ ریفریش کرنا چاہیے؟ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔ اس طرح کی لڑائیوں میں حق اور سچ کو ہی سب سے پہلے پسِ پشت ڈالا جاتا ہے۔ حقیقت تسلیم کرنے کے بجائے پلٹ کر وار کیا جاتا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسرے کا گریبان پکڑا جاتا ہے۔ تحریکوں اور ان کی لیڈر شپ میں کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ ان کو غیر محب وطن قرار دیا جاتا ہے۔ تحریک میں غیرملکی ہاتھ تلاش کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی بیرونی ہاتھ میں آپ کی اتنی بڑی آبادی کو گراس روٹ لیول پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے کہ وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتا ہے تو پھر یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ آپ حکومت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔اتنی بڑی آبادی کسی غیر ملکی طاقت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئی اور آپ کو خبر ہی نہ ہو سکی؟
اصل معاملہ لیکن یہ ہے کہ یہ ایک گراس روٹ تحریک ہے۔ اس میں کسان‘ استاد‘ وکیل اور تاجر‘ سبھی طبقات شامل ہیں۔ ان کو اس تحریک کے بارے میں پوری جانکاری ہے۔ تحریک کے لیے گاڑی کس نے دی‘ کھانے کا بل کس نے ادا کیا‘ یہ سب کچھ ان کو معلوم ہے۔ اس لیے کوئی جب ان کو یہ بتاتا ہے کہ اس تحریک کو کوئی اور چلا رہا ہے تو بتانے والے کا جھوٹ ان کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے۔ اس تحریک کے تین بنیادی مطالبات بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی‘ آٹے کی سبسڈی کی بحالی اور سرکاری اخراجات اور مراعات میں کمی تھے۔ ان تینوں مطالبات کا تعلق انسان کی بنیادی ضروریات سے ہے۔ نجانے حکمران طبقات کو ان سیدھے سادے عوامی مطالبات میں غیرملکی مداخلت اور سازش کہاں سے نظر آئی۔ اس سارے قصے میں اگر کوئی سازش ہے تو وہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اپنی مراعات اور عیاشیوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ آٹے اور گندم کی سبسڈی‘ بجلی کی قیمتوں کا تعین حکمران اشرافیہ کرتی آئی ہے‘ اس کے لیے جو میکانزم بنایا گیا ہے اس میں کئی ''سٹیک ہولڈرز‘‘ شامل ہیں۔ اس سارے میکانزم میں قدم قدم پر کمیشنز اور کک بیکس ہیں۔ سٹیک ہولڈرز اس پورے عمل میں قدم قدم پر کروڑوں روپے بنا رہے ہیں۔ اس دولت میں حکمران اشرافیہ کا حصہ ہوتا ہے۔ رہا سوال سرکاری ملازمین کی مراعات کا تو اس میں اب کوئی راز نہیں رہا ہے۔ عام آدمی کو بھی پتا ہے کہ ایک سرکاری ملازم کی طرف سے گاڑی کے ذاتی استعمال پر جو اخراجات آتے ہیں وہ اس کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ سرکاری نوکریوں کی کشش کی وجہ تنخواہ کبھی نہیں رہی‘ اصل کشش تو ان مراعات میں ہے۔ اس احتجاجی تحریک کے تین مطالبات میں جو کچھ مانگا گیا وہ اگر عوام نہ بھی مانگیں تو بھی اب وقت آگیا ہے کہ حکمران اس طرح کے مسائل کا خود ہی حل نکالیں‘ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ بندوبست لمبے عرصے تک اس لیے چلتا رہا کہ اس پورے نظام پر سیکریسی کی چادر تنی ہوئی تھی۔ کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ بجلی کے ایک یونٹ کی پیداواری لاگت کتنی ہے۔ اب لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ بجلی کے ایک یونٹ کی پیداواری لاگت دو روپے 59 پیسے ہے تو ہم سے 60‘ 70 روپے فی یونٹ کیوں چارج کیا جاتا ہے۔ اب لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ میں کوئی سول سرونٹ سرکاری گاڑی کے ذاتی استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتا تو ہمارے ہاں سرکاری نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں ریستو رانوں اور مارکیٹوں میں رات گئے کیسے گھومتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ وہ دور ہے جس میں ہر قسم کی معلومات تک لوگوں کو رسائی ہے اور معلومات کو پھیلانے کے بے شمار ذرائع موجود ہیں۔
حکمران اشرافیہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان ذرائع کو قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ معلومات تک رسائی کے حق اور آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندی لگاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کئی آرڈیننس اور بل لائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ابلاغ کے ان ذرائع کو قابو نہیں کیا جا سکا۔ ان حالات میں عوامی شعور سے مسلح کسی تحریک کو دبانا ممکن نہیں ہوتا‘ چنانچہ حکمران اشرافیہ کو باامر مجبوری کچھ مطالبات تسلیم کرنا پڑے‘ لیکن یہ تحریک کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہے۔ آزاد کشمیر کے یہ حالات تمام صوبائی حکومتوں اور وفاق کے لیے بھی الارمنگ ہیں۔ انہیں بھی از خود اصلاحِ احوال پر زور دینا چاہیے‘ قبل ازیں کہ ایسی ہی کوئی تحریک ان کے در پر دستک دینے کو تیار کھڑی ہو۔