زخمی اونٹنی کی چیخ بہت دور تک سنائی دی۔ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں مظلوم اونٹنی کی ٹانگ جس طریقے سے کاٹی گئی‘ وہ کافی ہولناک تھا۔ یہ واقعہ ظلم‘ بربریت اور بے رحمی کی انتہا ہے۔ یہ کام ایک ایسی مخلوق نے کیا جو اشرف المخلوقات کہلاتی ہے۔ خود کو انسان کہتی ہے۔ کوئی انسان بھلا ایسا کام کیسے کر سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے‘ جو ہر ایسے خوفناک واقعے کے بعد اٹھایا جاتا ہے‘ مگر کوئی اس کا جواب نہیں ملتا اور انسان نما اس مخلوق کے ہاتھوں پھر سے ایسا کام سر زد ہوجاتا ہے۔ یہ انسان نما مخلوق اپنی وحشت کا اظہار صرف اونٹ‘ بکری یا کسی دوسرے جانور پر ظلم کی صورت ہی میں نہیں کرتی بلکہ یہ کام وہ اپنے جیسی مخلوق پر بھی کرتی ہے۔ اس کی اس وحشت کا شکار معاشرے کے کمزور لوگ اور کمزور طبقات ہی بنتے ہیں۔ کبھی خبر آتی ہے کہ کسی عورت کو زندہ جلا دیا گیا۔ کسی بچے کو جنسی درندگی کا شکار بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ کسی لاش کو قبر سے نکال کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ ہر روز ایسی چیختی چلاتی خبریں آتی ہیں۔ انسان حیرت و افسوس سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک انسان یہ درندگی کیسے کر سکتا ہے‘ مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہے۔ انسان یہ درندگی کرتا ہے‘ اور بار بار کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک انسان اس وحشت اور درندگی سے نکل کر پوری طرح مہذب نہیں ہو جاتا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انسان نے پوری طرح مہذب ہونے سے پہلے ہی خود کو مہذب ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ اس کے اس عمل کو چیلنج کرنے والی کوئی مخلوق موجود نہیں۔ اس لیے انسان اپنے آپ کو جو چاہے درجہ یا خطاب دے دے‘ حقیقت البتہ یہی ہے کہ انسان ابھی تک پوری طرح مہذب ہوا ہی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے معاشرے میں بے قصور اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے جیسے واقعات نہ رونما ہوتے۔ مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی جو چھوٹی سی کرن نظر آتی ہے‘ یا انسان میں جو تھوڑی بہت تہذیب ہے‘ اس کا احساس اس واقعے پر آنے والے ردِعمل سے ہوتا ہے۔ ملک میں اس ہولناک واقعے کے خلاف زور دار ردِعمل سے تہذیب اور احساس کا اظہار جھلکتا ہے۔ اس احساس کو سوشل میڈیا نے اجاگر کیا۔ ایک اونٹنی کی مظلومیت اور درد کا قصہ دور دور تک پہنچایا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ قصہ زبان زد عام ہو گیا۔ ورنہ اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ دور دراز قصبوں اور دیہات میں ان واقعات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کہانیاں کہیں دفن ہو جاتی ہیں۔ سو یہ سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ ایک مظلوم اونٹنی کو انصاف دلانے کی مہم شروع ہوئی۔ اس کے مالک کی داد رسی کی بات ہوئی۔ اس اونٹنی کو مصنوعی ٹانگ لگانے کے اعلانات ہوئے۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ سوشل میڈیا ایک اثاثہ ہے۔ یہ بے آوازوں کی آواز بنتا جا رہا ہے۔ اس کی موجودگی میں ظلم‘ جبر اور ناانصافی کے واقعات پوری طرح ختم تو نہیں ہوئے مگر ان میں نمایاں کمی کے امکانات ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ یہ میڈیا اب ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے ہاتھوں میں ایک طاقتور ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ طبقات سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کے پاؤں میں زنجیریں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی سائبر سکیورٹی کے نام پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جاتی ہے۔ کبھی کسی آرڈیننس کے ذریعے اس کو قابو کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ایسی مشقوں کا ایک تسلسل ہے جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا‘ مگر ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
زخمی اونٹنی کا واقعہ جیسے اجاگر ہوا‘ وہ جدید دور کے میڈیا کا ایک مثبت پہلو ہے۔ ادھر مظلوم اونٹنی پر ظلم کی خبر آئی اور اُدھر فوراً دادرسی کا عمل شروع ہو گیا‘ مگر اس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں‘ جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں انصاف اور اعلیٰ حکام کے نوٹس ہائی پروفائل واقعات اور ان پر ہونے والی میڈیا کوریج سے مشروط ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اب انصاف کے حصول کے لیے بڑی میڈیا کوریج پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہائی پروفائل کیسز کی ہنگامی بنیاد پر سماعت شروع ہو جاتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ پتا چلتا ہے کہ کیس میں ہنگامی یا فوری نوعیت کی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ جن خدشات یا خطرات کے پیشِ نظر مقدمات کو سماعت کے لیے ترجیح دی جاتی ہے‘ وہ کچھ عرصہ بعد بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر کیس کی فوری سماعت کی وجہ کوئی سکیورٹی خطرات نہیں بلکہ کیس کا ہائی پروفائل ہونا اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنا ہوتی ہے‘ اس عمل سے قانون کی حکمرانی کے تصور کو سخت دھچکا لگا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہرکیس کا فیصلہ اس کی باری اور میرٹ پر کیا جائے اور اس عمل کے دوران اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی جائے کہ مقدمے کا کوئی فریق کتنا اہم یا طاقتور ہے۔ کسی فریق کی طاقت کی بنیاد پر کیس کی سماعت یا فیصلہ قانون کی حکمرانی پر براہِ راست حملہ ہے۔ اس سلسلے میں قائداعظم محمد علی جناح کی 30 اکتوبر کی وہ تقریر بڑی اہم اور دلچسپ ہے‘ جو قانون کی حکمرانی کے بنیادی تصورات کو اجاگر کرتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں بے شمار اہم فیصلے قائداعظم کے قانون کی حکمرانی کے تصورات کے بر عکس ہی ہوئے۔ یہاں تک کہ اس کو باقاعدہ روایت بنا دیا گیا۔ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے کیسز عوام کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ پریس اور میڈیا سے بچنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام تیز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ریاستی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان وسائل کو آئین و قانون کی رو سے تمام مقدمات پر مساوی طور پر تقسیم کیا جانا چاہیے‘ لیکن ایسا ہوتا نہیں بلکہ ان مقدمات کے لیے بہت زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے‘ جو سوشل میڈیا یا مین سٹریم میڈیا کی وجہ سے منظر عام پر آتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کو بعض اعلیٰ عدالتیں بھی ناپسند کرتی ہیں اور وہ گاہے اس پر ردِعمل بھی دیتی رہتی ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال کے پیش نظر لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ کس طرح حکومت میڈیا میں نمایاں ہونے والے مقدمات کو غیرمتناسب طور پر زیادہ وسائل فراہم کرتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے میں عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ مقدمے کی منصفانہ سماعت کا حق کوئی مشروط حق نہیں ہے‘ بلکہ ایک مکمل حق ہے۔ فوجداری نظامِ انصاف کو تمام فوجداری مقدمات میں یکساں طور پر انصاف فراہم کرنا چاہیے لیکن جب میڈیا‘ طاقت اور اثرو رسوخ کی وجہ سے ایک مقدمے کو دوسرے مقدمے پر ترجیح دی جاتی ہے تو یہ عمل 'سلیکٹو جسٹس‘ کو جنم دیتا ہے۔ ترقی یافتہ اور کامیاب اقوام نے اپنے نظامِ انصاف کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے سلیکٹو جسٹس سسٹم سے جان چھڑائی۔
دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ طرزِ عمل قانون کی حکمرانی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ لیکن ہمارے ہاں اس طرح کے سلیکٹو جسٹس سسٹم کو قبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے‘ جو پریشان کن ہے۔