مالیاتی اعداد کا ہیرپھیر

ہمارے محترم فنانس منسٹر کے دعوے کے مطابق ایف بی آر نے 2015-16 ء کے مالی سال کے لیے طے شدہ محصولات کے ہدف کو عبور کرلیاہے ۔ تاہم اس دعوے کو معاشی ماہرین سے لے کر عام افراد، اور اخباری رپورٹرز سے لے کر ایڈیٹر صاحبان سمیت بہت سے افراد چیلنج کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پیش کردہ مالیاتی اعدادوشمار کے حوالے سے حکومت کی ساکھ پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ سپیشل ہائوس کمیٹی آف پارلیمنٹ، پبلک اکائونٹس کمیٹی اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو مالیاتی اعدادوشمار میں روارکھے جانے والے اس ہیرپھیرکی تحقیقات کرنی چاہیے۔ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ۔
ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ 195 بلین روپے کے محصولات میں نان ٹیکس محصولات بھی ''دیگر ٹیکسز ‘‘ کے کھاتے میں شامل کردیے گئے تھے ۔ اس کے مطابق ۔۔۔''فنانس منسٹر ، اسحاق ڈار نے 145بلین ڈالر کے نان ٹیکس محصولات گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے کھاتے میں منتقل کیے ہیں۔ یہ فنڈ ''تاپی منصوبے‘‘( پاکستان، ترکمانستان ، ایران اور افغانستان گیس پائپ لائن) کے لیے مختص کیا گیا ہے ۔ اسے 2013-14 ء تک نان ٹیکس ریونیو کے کھاتے میں رکھا گیا تھا۔ ا س کے علاوہ فنانس منسٹر نے30 بلین ڈالر کا نان ٹیکس ریونیو بھی قدرتی گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کے کھاتے میں ڈال دیا ہے ۔ یہ بھی 2013-14ء تک نان ٹیکس ریونیو کے زمرے میں آتا تھا۔یہ الزامات، اگر درست ہیں ، فنانس منسٹر کو آئین کے آرٹیکل 62/63 کے تحت نااہل قرار دے سکتے ہیں۔اس سے پہلے برآمدکنندگان نے الزامات لگائے تھے کہ آئی ایم ایف کو زیادہ محصولات دکھانے کے لیے اُن کے بھاری ریفنڈز روک لیے گئے ۔ 
معاصر انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میںمندرجہ ذیل تبصرہ کیا۔۔۔۔''فنانس منسٹر ، اسحاق ڈار نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر دعویٰ کردیا کہ پاکستان موجودہ مالی سال کے ٹیکسز کا ہدف حاصل کرچکا ہے ، لیکن محترم نے اُن اقدامات کی وضاحت نہیں کی جو اُنھوں نے یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے اٹھائے تھے ۔ اُنھوں نے اپنے تقریرمیں یہ بھی نہیں بتایا کہ اُنھوںنے کتنی مالیت کے ریفنڈز روکے، لیکن یہ ضرور تسلی دی کہ وہ جلد ہی واپس کردیے جائیں گے۔ اس دوران ایف بی آر اپنے پاس رقم رکھ کر اپنے کھاتے پورے کرتا رہتا ہے ۔ ‘‘اس موضوع پر ایک اور اخبار لکھتا ہے۔۔۔ ''گزشتہ مالی سال کے تمام ٹیکس ریفنڈز کو روکتے اور کمپنیوں کو ایڈوانس ٹیکس کی ادائیگی کے لیے مجبور کرتے ہوئے ایف بی آر نے جمع کو اعلان کردیا کہ اس نے 2015-16 ء کے مالی سال کے لیے 3.1 ٹریلین روپے اکٹھے کرنے کا ہدف حاصل کرلیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر گزشتہ مالی سال کے 250 بلین روپے سے زائد کے ریفنڈز روکے ہوئے ہے۔ ان کو روکنے کا مقصد آئی ایم ایف کو اپنا حاصل کردہ ہدف دکھانا تھا۔ ‘‘ایک اور صحافی ، شہباز رانا نے بھی مالیاتی اعدادوشمار کی ہیرا پھیری کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔۔۔''3.1 ٹریلین روپے کے محصولات جمع کرنے کے لیے ایک بہت بڑا دائو کھیلا گیا ہے ۔ ایف بی آر نے تیل اور گیس کمپنیوں سے 150 بلین روپے ایڈوانس حاصل کیے ، جبکہ 250 بلین روپے کے ریفنڈز روک لیے گئے ۔ ‘‘
حیرت کی بات ہے محترم فنانس منسٹر غیر دستاویزی معیشت کا مسئلہ حل کرنے اور ٹیکس دائر ے کو پھیلانے کی بجائے بعض اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھا کر اور بعض اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کرکے ایک طرح سے منی بجٹ کا تاثر دے رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل 
خیالات کا اظہار عزیر محمد یونس نے اپنے مضمون میں کیا۔۔۔ ''پاکستان کا محدود ٹیکس بیس ملک کو درپیش بہت سے معاشی بحرانوں کی وجہ رہا ہے ۔ موجودہ حکومت یہ مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئی تھی کہ ٹیکس بیس کو بڑھاتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے ۔ تاہم بیانات اپنی جگہ، لیکن فنانس منسٹر، اسحاق ڈار اور اُن کی ٹیم ریونیو اکٹھا کرنے کے عمل میں خرابی کو دورکرنے کے قابل دکھائی نہیں دیتے ۔ حاصل ہونے والے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 400 بلین روپے کا اس عمل کے دوران ضائع ہوجاتے ہیں۔اگرچہ یہ رقم گزشتہ سال کی نسبت 4.5 فیصد کم ہے ، اور اس طرح اسے بہتری کی طرف ایک اشارہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جون 2014 ء میں حکومت نے ایس آر او کو نکلوانا شروع کردیا۔ اس نے 227 بلین روپے نکلوالیے ۔ اس کے علاوہ حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ کی سکیمیں شروع کیں تاکہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جاسکے۔ان اقدامات سے پاکستان میں ایک ڈرامائی تبدیلی نظر آنی چاہیے تھی ، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے اصلاحات کا عمل رک گیا ، چنانچہ آج بھی ہماری جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح نو فیصد سے بہت کم ہے۔ ‘‘
موجودہ ٹیکس انتظامیہ کی کارکردگی کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔ دوسری طرف حکومت خوش ہے کہ وہ نان فائلرز سے رقم نکلوا کر اپنا کھاتہ درست کرلیتی ہے ۔ فنانس منسٹر اور ایف بی آر ، دونوں اس غیر معمولی کارکردگی کا کریڈٹ لے رہے ہیں، حالانکہ ان محصولات کی 61 فیصد شرح سیلز ٹیکس کے ذریعے آئی ہے۔ اگر وودہولڈنگ ٹیکس ، ریفنڈز اور ایڈوانس کو بھی اس شامل کرلیں تو یہ شرح 92 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایف بی آرنے اپنی کوششوں سے صرف آٹھ فیصد ٹیکس وصول کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ معاشی ماہرین ، ٹیکس وکلا، اکائونٹینٹس، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن ارکان مل کر ایک فرنٹ قائم کریں اور پاکستان میں ٹیکس کے حقیقی پوٹینشل اور اس کی وصولی کے طریق کار پر بحث کریں۔ موجودہ ایف بی آر کی 'شاندار کارکردگی‘ اعداد کی ہیراپھیری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس طرح کی چالبازیوں سے اجتناب نہیں کیا جاتا ۔ تمام شہریوں پر لازمی ہے کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کریں۔ اگر وہ رقم کماتے ہیں تو ملک کو انکم ٹیکس ادا کریں۔ تاہم یہ ذمہ داری صرف شہریوں کی اخلاقیات پر نہیں چھوڑی جاسکتی۔ دنیا بھر میں حکومتیں سختی سے انکم ٹیکس اور دیگر واجبات وصول کرتی ہیں۔ کیا پاکستان اُن سے مختلف ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں