سیاسی جماعتیں اور ٹیکس قوانین

پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی راہ نما(حکومت میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں،)عام طور پر ٹیکس اور الیکشن قوانین کی پاسداری کرتے نظر نہیں آتے۔اس بات کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو 2015-16ء مالی سال کے اخراجات اور آمدن کے گو شوارے وقت ِ مقررہ ( 29اگست2016 ء ) کو جمع کروانے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد محض آٹھ تھی۔ہر سال 30ستمبر کو منتخب نمائندگان کو اپنے اثاثے جمع کروانے ہوتے ہیں۔ہر سال اکثریت اس تاریخ کا خیال نہیں رکھتی اور الیکشن کمیشن کو ان کی رکنیت معطل کرنا پر تی ہے ۔یہ محض ایک ڈھکوسلا ہوتا ہے کیونکہ وہ اثاثہ جات کے گوشوارے تاخیر سے جمع کروا کر رکنیت بحال کروا لیتے ہیں اور تادیبی کارروائی کے لیے کوئی قانونی شق موجود نہیں۔سیاسی جماعتیں انکم ٹیکس قانون مجریہ 2001ء کی دفعہ 100Cکی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے گوشوارے بھی داخل نہیں کرتیںاور ایف بی آر اس ضمن میں قانون نافذ کرنے میں قطعی طور پر لا تعلق ہے۔تصدیق شدہ کھاتے اور انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع نہ کروانے پر سیاسی جماعتوں کے خلاف ایف بی آرجمع نہ کروانے پر سیاسی جماعتوں کے خلاف ایف بی آر کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور یہ خود سیاسی جماعتوں کے لیے باعث شرمندگی ہے ۔قوانین کا کھلا مذاق اڑانے کے بعد سیاسی جماعتیںاور ان کے رہنما کس منہ سے جمہوریت ،جمہوری عمل اور اقدار کا تذکرہ کرتے ہیں۔کیا یہ سب محض لفاظی نہیں؟۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 17(3)واضح طور پر کہتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو اپنے وسائل کے ذرائع کے بارے میں قانون کے مطابق حساب رکھناہوگا۔اس بارے میںPolitical Parties order 2002 کی شق 6میں واضح ہدایات ہیںکہ: 
1۔ہر رکن سیاسی جماعت کو اس کے آئین میں درج فیس اور چندہ دے گا۔اس کے علاوہ کسی بھی حد کے بغیر عطیات دے سکتا ہے۔2۔ہر طرح کی فیس ،چندہ اور عطیات سیاسی جماعت کو اپنے کھاتوں میں درج کرنا ہوں گے۔3۔کسی بھی بیرونی حکومت ،کمپنی،فرم،پیشہ ور یاکاروباری ایسوسی ایشن سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رقم لینے پر پابندی ہے،ہاں البتہ انفرادی عطیات وصول کئے جا سکتے ہیں۔4۔ممنوعہ عطیات بحق سرکار ضبط کئے جائیں گے۔
اس قانون کے تحت عطیات میں کیش، سٹاک، مہمانداری، رہائش،ٹرانسپورٹ،فیول اور ہر طرح کی سہو لیات کا فراہم کرنا شامل ہیں۔
سیاسی جماعتیںمندرجہ بالا قانون اور Political Parties Rules 2002کے Rule 4کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔اس قانون کے تحت وہ الیکشن کمیشن کو بروقت ،مکمل اور تصدیق شدہ اکائونٹس مہیا نہیں کرتیں۔اس کی ایک مثال تحریک ِ انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن میں زیرِ التوا ایک درخواست ہے جس میں مبینہ طور پر پارٹی فنڈ میں بے ضابطگیوں کا الزام ہے۔بارہا تنبیہ کے باوجود تحریک ِ انصاف نے کھاتہ جات فراہم نہیںکئے ۔ان کا موقف ہے کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اور الیکشن کمیشن کا رویہ مخالفانہ ہے ۔اس بات پر چیف الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی سخت سرزنش کی اور بالآخر معامل تحریری معافی پر ختم ہوا ایک طرف تو تحریک انصاف پاناما کیس میں وزیر اعظم اور ان کا اہل خانہ پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ مکمل معلومات بمعہ منی ٹریل فراہم نہیں کرہے اور دوسری طرف خود اکائونٹس پیش کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا ہے اگر تحریک انصاف کے اکائونٹس شفاف ہیں تو پھر اس میں کیا عذر ۔تمام تفصیلات پیش کردی جاتیں تو بڑی نیک نامی ہوتی اور دوسری سیاسی جماعتوں اور اشخاص پر اخلاقی دبائو بھی بڑھتا۔مگر اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت والا معاملہ ہے۔اگر تحریک انصاف نے ٹیکس ریٹرنز داخل کیے ہوتے اور مصدقہ اکائونٹس پیش کیے ہوتے تو الیکشن کمیشن درخواست میں درج ذیل الزامات کا جائزہ بھی از خود لے سکتا تھا۔مگر یہ کام تو شاید کسی بھی سیاسی جماعت نے نہیں کیا وگرنہ ٹیکس ڈائریکٹری میں ان کا ذکر ہوتا۔
ہندوستان میں انکم ٹیکس مجریہ 1961ء کی دفعہ 13Aکے مطابق ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ انکم ٹیکس کا گوشوارا داخل کرائے ۔ایسی صورتحال پاکستان کے انکم ٹیکس آرڈر مجریہ 2001کی دفعہ 100Cاور 114میں بھی ہے ۔ہندوستان میں قانون کی پاسداری ہوتی اور سیاسی جماعتوں کے گوشواروں اور حساب کتاب کا مکمل آڈٹ کیا جاتا ہے۔الیکشن کمیشن آف انڈیا ہر سال سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس کو ہدایات دیتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو فنڈ دینے والے افراد کا اور دوسرے مالی معاملات کا جائزہ لے ۔سخت چھان بین الیکشن کمیشن آف انڈیا بھی کرتا ہے کیونکہ مصدقہ اکائونٹس اس کو بھی وصول ہوتے ہیں مگر ٹیکس آفیسرز کی چھان بین زیادہ موثر ہوتی ہے کیونکہ ان کو پیشہ ورانہ ٹریننگ اور دوسری سہولیات میسر ہوتی ہیں ہمارے الیکشن کمیشن نے اس ضمن میںکوئی عملی اقدامات نہیں کیے اگرچہ چھان بین کا فیصلہ کیا ہے۔
کس قدر افسوس ناک مقام ہے کہ پاناما لیکس کے بعد الیکشن کمیشن ،ایف بی آر ،ایف آئی اے اور نیب نے منتخب نمائندگان جن کا ذکر ہوا ہے کوئی کارروائی نہیں کی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں کئی منتخب نمائندگان یا ان کے اہل خانہ نے بدنام زمانہ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے قوانین کا ستعمال کیا۔یہ قوانین جیسا کہ 1992ء کا پروٹیکشن آف ریفارم ایکٹ محکمہ ٹیکس اور ایف آئی اے کو پوچھ گچھ سے مستثنیٰ کرتے ہیں مگر 1976ریپریزینٹیشن آف پیپل ایکٹ یا نیب آرڈیننس 1999یا پھرہولڈآف ریپریزنٹیٹو آفس سے ہر گز نہیں۔ ایسے تمام نمائندگان ،سرکاری اہلکار خود بخود نا اہل ہوسکتے ہیں کیونکہ ٹیکس ایمنسٹی کا فائدہ حاصل کرکے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ وہ بدعنوانی میں ملوث تھے اور ان کے خلاف کارروائی بلا تخصیص ہونی چاہیے۔ وزیراعظم ہوں یا کوئی اور نمائندہ ‘قانون کے لیے سب برابر ہے۔ اگر ہم پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو احتساب کا نظام بنانا ہو گا ۔ سیاسی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ ہر سال اپنے ٹیکس گوشوارے داخل کریں اور ان کے اکائونٹس کا آڈٹ ہو ۔تمام وہ لوگ جنہوں نے کسی بھی ایمنیسٹی سکیم سے کبھی بھی فائدہ اٹھایا ہو الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دے دیے جائیں۔اندرون اور بیرون ملک غیر قانونی اثاثہ جات کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں