غربت کا بھیانک عفریت

حال ہی میں جاری کثیر الجہتی غربت کے پیمانے کے مطابق وطن عزیز کے 39فیصد شہری اس بھیانک عفریت کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی قدرتی یا ناگہانی مصیبت نہیں جو ایک طبقہ کے مطابق گناہوں کی سزا کا نتیجہ ہو ۔ ایسا ہر گز نہیں،یہ المیہ انسان کا پیدا کر دہ ، حکومت وقت کی پالیسیوں کا نتیجہ اور معاشرتی و معاشی نظام میں موجود طبقاتی تفریق کا آئینہ دارہے ۔مال ودولت کے خود ساختہ حق داراور وسائل کے ناجائز قابض لوگ اس کو جاننا بھی نہیں چاہتے ۔کہنے کو تو سبھی اپنے پارسا ہونے کا دعوی کرتے ہیں، یہ اپنی جگہ پر درست ، لیکن مگر محترم وزیر ِ خزانہ نے کبھی اس بات کاذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ 50فیصد لوگ کثیر الجہتی غربت کی زندگی کیسے اور کیوں گزار رہے ہیں؟سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کئی سو فیصد اضافہ کرنے کے باوجود نالاں ہیںکہ ریاست ان کا ''مناسب خیال ‘‘ نہیں رکھ رہی ۔اپنے حلقوں میں جاکر وہ غریب افراد سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے ،ان کی حالت کو بہتر کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔میں نے تو کئی ایک وزرا ء اور منتخب اراکین سے پوچھا کہ کیا وہ اس نئی رپورٹ سے آگاہ ہیں۔سب کا جواب نہیںمیں تھا۔کسی ٹی وی ٹاک شو پر اس کا تذکرہ تک نہیں ہوا اور کل یوم جمہوریہ پاکستان شاندار طریقے سے منایا گیا۔
کثیر الجہتی غربت کے ماپنے کا تصور 2010میں متعارف ہوا۔اس تصور میں آمدنی کے علاوہ کئی دیگر پیمانے بھی شامل کئی جاتے ہیں،مثلاً صحت ،تعلیم کی سہولیات یا ان کی عدم دستیابی ، خوراک کا درست ملنا ،حفظان صحت کی سہولیات کا فقدان ،بے بسی،غیر معیاری ماحول میں کام ، تشددکا خطرہ ،بے روز گاری ،غیر معیاری طرز زندگی وغیرہ وغیرہ ۔پاکستان میں کثیر الجہتی غربت کی زندگی گزارنے والوں کا نصف حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب ہوں یا دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، سب کے سب نیک اور پارسا، لیکن اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔یہ کیا ظلم ہے کہ شہری علاقے کثیر فنڈز کے باوجودبھیانک کچی آبادیوں میں بدل رہے ہیں،سوائے امراء کے علاقوں میں جہاں دو فیصد سے زائد آبادی نہیں ۔غلامی کی زندگی بسر کرنے والے گھریلو ملازمین سے لے کر بے زمین ہاریوں، اور صنعتی شعبوں کے مزدورںسے لے کر نجی اداروں کے کم تنخواہ یافتہ ملازمین تک، سب بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
مذہب کے نعرے بلند کرنے والے اور بات بات پر مذہب کے نام پر جان دینے کا دعویٰ کرنے والے معاشی انصاف کا ذکر تک نہیں کرتے۔ کثیر الجہتی غربت اور لوگوں کا استحصال ان کا مسئلہ نہیں۔ تاجر طبقہ ٹیکس سے گریزاں لیکن صدقات و خیرات کے ذریعے جنت کا خواہاں ہے، اور دوسری طرف ریاست ٹیکس سے غریبوں کا بھلا کرنے کی بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں پر نازاںہے۔ بینک امیر کاروباری حضرات کو قرضہ جات دینے پر مصر اور چھوٹے کسانوں اور کاروباری حضرات کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ سارے کا سارا نظام سرمایہ داروں، جاگیر داروں، مالدار تاجروں اور صنعت کاروں اور اہل ثروت کی مزید''خوشحالی‘‘ کا متمنی اور جن کو کثیر الجہتی غریب قرار دیا جا چکا، وہ لاچار اور بے بس، اُن کا کوئی پرسان ِ حال نہیں۔ 
کئی ایک غیر حکومتی ادارے (NGOs)ان کو سرمایہ یا خیرات سے نواز رہے ہیں۔مگر یہ ''غریب نواز‘‘غربت کے خاتمے کے ہر گز حق میں نہیں ہیں۔غربت کا خاتمہ نظام کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔موجودہ استحصالی نظام کا خاتمہ طاقتور طبقوں کو کیوں کر قابل قبول ہو سکتا ہے ۔ مغرب میں جمہوریت عوام دوست نظام ہے مگر اس کی افادیت ہمارے ملک میں محض انتخابات تک محدود ہے۔ انتخابات کے ذریعے جو لوگ ایوان اقتدار تک پہنچتے ہیں وہ نظام محصولات کو معاشی نا ہمواریوں کا خاتمہ کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہتے بلکہ اسے اپنے سیاسی اور معاشے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اس طرح جمہوری طریقہ کارسے حکومتیں تو منتخب ہوتی رہیں گی مگر لوگ کثیر الجہتی غربت کا شکار رہیں گے ۔اگر معاشی ڈھانچہ استحصالی بنیادوں پر قائم ہو تو سیاست میں کبھی بھی بہتری نہیں آ سکتی۔ متوسط اور غریب طبقے کے لوگ نہ اقتدار میں آسکتے ہیں اور نہ ہی معاشی ڈھانچے کو بدل سکتے ہیں۔نصیحت و وعظ سے معاشی انصاف نہیں حاصل ہو سکتا ۔
کثیر الجہتی غربت ایک مظہر ہے۔یہ ایک استحصالی معاشی نظام کا عکس ہے۔یہ بیماری کی ایک علامت ہے مگر بیماری کی جڑ نہیں ۔بیماری کی کئی علامتیں ہر طرف موجود ہیں۔معاشرتی رویوں میں ''چھوٹے لوگوں‘‘ کوغربت سے منسلک کرنا ،معاشی لحا ظ سے کمزور طبقوں کا مذاق اڑانا ،طاقت کے نشے میں ہر لاچار انسان کا فائدہ اٹھانا ،کام زیادہ اور معاوضہ کم دینا،عورتوں اور بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنااور ایسی کئی لاتعداد مثالیں شامل ہیں۔
ان سب کی جڑ وہ معاشی نظام ہے جہاں پیدا وار اور دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہے ہمارا نظام ارتکاز دولت اور منافع خوری،وسائل پر قبضہ اور اجارہ داری کو جائز قرار دیتا ہے۔اس نظام کو درہم برہم کرنے کا ذکر ریاست کے خلاف بغاوت سمجھا جاتا ہے ۔کثیر جہتی غربت کے خاتمہ کے لئے محروم طبقا ت کو ریاستی جماعتوں کا مالک بنانے کی بات کی جائے تو یہ کفر کا درجہ قرار پاتی ہے ۔منافقت پر مبنی معاشرہ نظریات کی ملمع سازی کی آڑ میں ناانصافی کا پر چار کرتا ہے، اور کسی کی پیشانی شکن آلودنہیں ہوتی لیکن یہاں غریب کا استیصال کرنے والے نظام پر تنقیدگوارا نہیں۔کسی کی دولت یا وسائل قومیائے جائیں یا لوگوں کو حق ملکیت زمین ،جہاں وہ کاشت کرتا ہو، سے ،محروم رکھا جائے، یہ دونوں ناانصافی کا مظہر ہیں۔ایک ریاستی طاقت کے بے جا استعمال کا مظہر اور دوسرا لاچاری کو تقدیر سے جوڑنے کا خواہاں ۔ہمیں معاشی نظام کو ناانصافیوں سے پاک کرنا ہو گاتا کہ ہر قسم کی غربت کا جڑ سے ہی خاتمہ ہو سکے ۔اصلاحات کا ڈھکوسلا محض فریب کے سواکچھ بھی نہیں۔تبدیلی نظام کی ضرورت ہے تاکہ انصاف مل سکے اور ریاست کے قیام کا مقصد پورا ہوسکے۔ شہریوں کو یقین ہونا چاہیے کہ وہ ایک آزاد ریاست کے باعزت شہری ہیں اور یہ یقین دہانی معاشی انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں