دہشت گردی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

طاقت کے استعمال سے دہشت گردوں کو تو ختم کیا جاسکتا ہے ، مگر دہشت گردی کو نہیں۔ اگر دہشت گردی کی محرکات اور وجوہ کو ختم نہیں کیا جاتا تو دہشت گرد پیدا ہوتے رہیں گے ، خون بہتا رہے گا ، قوم کے جسم پر چرکے لگتے رہیں گے اور معاشرہ فساد کا شکار ہوکر بے سمت ہو جائے گا۔ہمیں اس بات کاادراک کرنا ہوگا کہ ایک حریت پسند اور دہشت گردکی سوچ میں کیا فرق ہے؟ حریت پسند یا انقلابی غیر منصفانہ اور جابرانہ نظام کا دشمن ہوتا ہے اوروہ اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو انسانوں کو معاشی ، سیاسی اور معاشرتی انصاف سے محروم رکھتا ہے۔ وہ اس نظام کی تبدیلی یا آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے ۔ اس جدوجہد میں اُسے ریاستی جبر اور دہشت گردی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ اس وقت کشمیری ہمارے قریب ایسی ہی ایک جنگ لڑرہے ہیں۔ افغانی بھی اپنی سرزمین پر مسلط طاقتوں سے نبرد آزما ہیں۔ آزادی سے پہلے ہندوستان میں کتنے حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح یا پرامن جنگ لڑی ۔ فلسطین ہو یا کوئی اور خطہ، اس کے لیے کتنی ہی مائوں کے بیٹوں اور بیٹیوں نے لہو دیا ۔ ظلم ہے کہ آج کی استعماری طاقتیں جو نوآبادیاتی حکومتوں کا نیا چہرہ ہیں، ان سب کو دہشت گردقرار دیتی ہیں۔ حالانکہ دہشت گرد تو نظام کو بدلنے کاخواہاں ہی نہیں ہوتا۔ وہ توصرف ذاتی مفاد یا انتقامی اشتعال سے مغلوب ہوکر اپنے ہدف کو ہر قیمت پر تباہ کرنے پر تلا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے غصے کا نشانہ بننے والے عام شہریوں کی ہلاکت کی مطلق پروا نہیں کرتا، اور اُ ن کا خون بہاتا رہتا ہے ۔ 
ارض ِ پاکستان میں یہ ایک معمول بن چکا ہے ۔ استعماری طاقتوں نے تخریبی ذہنیت رکھنے والے گروہوں کو اپنا آلہ ٔ کا ر بنا رکھا ہے تاکہ ان کی خونی معاونت کے ذریعے ایٹمی طاقت رکھنے والے اس ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکے ۔ چین کے ساتھ جیسے ہی عظیم معاشی ترقی کے منصوبوں کاآغاز سی پیک کی صور ت ہوا تو استعماری طاقتوں اور اُن کی پروردہ دہشت گردتنظیموں کو آگ سی لگ گئی ۔اُن کے مذموم ارادے اور گھنائونی حرکتیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان کے عوام ان سے آگاہ ہیں، مگر وہ حیران ہیں کہ حکمران غفلت کی نیند سے کب جاگیں گے ؟ وطن ِ عزیزسے باہر اثاثے رکھنے، اور مالی مفاد استعماری طاقتوں سے وابستہ اور استوار کرنے کی خواہش کیا قوم سے غداری تک جاسکتی ہے ؟یہ سوال ہر وہ شہید پوچھ رہا ہے جو دہشت گردی کا شکار ہوا، اُس کے لواحقین پوچھ رہے ہیںاور عوام بھی ۔ کیا بظاہر ہمدردی دکھانے ، جائے حاد ثہ پر پہنچ جانے ، ٹی وی پر اس ''فعالیت ‘‘ کی تشہیر کرانے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جائے ؟کہاں ہے نیشنل ایکشن پلان؟ کہا ں ہے نیکٹا؟دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے کئے گئے اقدامات کہاں ہیں؟14 اگست 2016 ء کے فیصلوں کا کیا ہوا؟وہ ایک اہم اجلاس تھا اور دہشت گردی کے حتمی خاتمے کے لیے ایک عظیم پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ لیکن جب عملداری کی باری آئی تو کبھی فنڈز کی عدم دستیابی توکبھی اچھے لوگوں کی کمی کا بہانہ ۔ ملک و قوم کے ساتھ یہ بھیانک مذاق کب تک جاری رہے گا؟
اس میں کوئی شک نہیںکہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے ، اور افغانستان کے ساتھ بارڈر غیر محفوظ اور مسام دار ہے اور اس کی نگرانی آسان کام نہیں، خاص طور پر جب افغانستان تعاون پر آمادہ نہ ہو۔ لیکن ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی چیلنجز درپیش ہیں۔ ہمارے ہاں صورت ِحال انتہائی گمبھیر لیکن انسداد ِ دہشت گردی کے سویلین ادارے غیر فعال ہیں۔ مانا کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے ، مگر رد ِعمل اتنا کمزور کیوں؟کیا ہم ایک قوم کو طور پر اس 
ناسور سے نبرد آزما نہیں ہوسکتے ؟ٹی وی مناظروں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی سے اجتناب کرتے ہوئے کیا اس مسئلے پر یکجا اور یک زبان نہیں ہوسکتے ؟ کیا میڈیا کی انتہائی فعالیت کے اس دور میں قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک جاندار بیانیہ نہیں دیا جاسکتا؟ کیا سیاسی اور عسکری قیادت مل کر ایک بھرپور لائحہ عمل نہیں بنا سکتی جس پر عمل پیرا ہوکر وطن ِعزیز کو ظالم قاتلوں سے نجات دلائی جاسکے ؟اُن کی مالی معاونت کرنے اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والے خفیہ چہروں کو بے نقاب کرنے میں کون سی مصلحت آڑے آتی ہے ؟ کیا آج اس راز سے پردہ اٹھانے کا وقت نہیں آگیا کہ یہ دہشت گر د جدیداسلحہ اور ٹریننگ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟کیا ان کے مالی وسائل کی سپلائی لائن ابھی بھی نہیں کاٹی جاسکتی؟ ہم کب تک تحفظات کا شکار رہیں گے ؟کیا پانی ابھی بھی سر سے نہیں گزرا ؟کیا انسانی وسائل ،جوہری بم اور میزائل رکھنے والی یہ ریاست اس قدر مفلوج ہوچکی ہے کہ اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت نہیں کرسکتی؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم کوئی کمزور یا لاچار ریاست نہیں ہیں۔ تمام دہشت گرد، فتنہ پرور اور فسادی تنظیمیں مل کر بھی پاکستان کی سلامتی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتیں۔ اصل مسئلہ ارباب ِ اختیار کی ترجیحات کا ہے ۔ ضروری ہے کہ ریاست کے تمام ادارے ان عناصر کی بیخ کنی کا ارادہ کرلیں، ان کے مالی مدد گاروں اور سہولت کاروں کو بلاامتیاز کیفرکردار تک پہنچایا جائے اور اس سلسلے میں کسی رعایت سے کام نہ لیا جائے ۔ دہشت گردی اورجدید ریاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ جس طرح ایک صحت مند جسم میں ناسور پلنا ایک عذاب ہے ، اسی طرح معاشرے میں منفی سرگرمیوں کی حامل تنظیموں کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، طاقت کے استعمال سے دہشت گرد کو ختم کیا جاسکتا ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وسیع تر اقدامات درکار ہیں۔ ان میں سب سے ضروری اقدام اچھی حکمرانی کو یقینی بناناہے ۔ تمام شہریوںکے لیے معاشی اور سماجی انصاف اور یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے ۔ قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ان عوامل کی غیر موجودگی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواریاں دہشت گردی کو ہوادیتی ہیں۔ دہشت گرد ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا تے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ کا آغاز گھر سے ہوتا ہے جب والدین رزق ِحلال کی بجائے بچوں کو رشوت والی نوکریا ں کرنے کی شہ دیتے ہیں۔ دہشت گردی وہاں جنم لیتی اور پھیلتی ہے جہاں اخلاقی اقدار پامال ہوتی ہیں۔ یہ صورت ِحال ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ ہم سب کو مل کر اس ناسور کے خاتمے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ ہماری اجتماعی زندگی یا موت کا مسئلہ ہے ۔ اسے صرف میٹنگز یا بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں